2019 کے الیکشن میں جب الیکٹرانک ووٹنگ مشین(ای وی
ایم) کا استعمال کر کے بھارتی عوام کے مینڈیٹ پر ڈاکہ مارا گیا توعوام نے
احتجاج کیا ۔ اس وجہ سے بہت سی باتیں سامنے آئیں۔ کہ بھارت کا میڈیا بھی
سرکار کے گن گاتا رہتا ہے ۔ اللہ رب العزت کا شکر گزار ہونا چاہیے کہ دبے
ہوئےلوگوں کو سوشل میڈیا کے ذریعے آواز مل گئی اور اپنی بات دوسروں تک
پہنچانا آسان ہوگیا یا ۔بہرحال میرے لیے یہ بات بہت حیران کن ہے کہ بھارت
کی آبادی کا85% فیصد غریب عوام ہے اور ساڑھے تین فیصد بر اہمن ہے ۔مسلمان
12%فیصد۔ باقی عِیسائی اور دیگر مذاہب کے لوگ ہیں۔ اس براہمن نے ساڑھے تین
فیصد ہونے کے باوجود85% کواپنا غلام بنا رکھا ہے۔ بر اہمن دو ہزار سال پہلے
آریائی (نسل) شناخت کیساتھ بھارت میں داخل ہوئے۔ انہوں نے بھارت کی سادہ
اور معصوم عوام کو بیوقوف بنا کر غلام بنا لیا۔ انہوں نے پچاسی فیصد آبادی
کے کوڈ آف لائف اپنی مرضی اور فائدے کیلئےمقرر کیئے ۔ کیونکہ یہ بیچارے
سادہ لوح افراد تھے۔ برہمن راجہ بن گیا اور یہ غریب لوگ پرجا( محکوم) قرار
پائے برہمن نے انکو ہندو کا نام دیا جبکہ برہمن مذھب کی کتابوں میں ہندو کا
لفظ ہی نہیں ہے۔یہ لوگ گوتم بدھ کے ماننے والے تھے۔برہمنوں نے انپر قبضہ کر
کے اپنا راج پاٹ سجا لیا۔اور انہی کے ذریعہ سےبودھوں پر حملہ کراکر انکو
بھارت سے نکال دیا۔اور یہ انپڑھ لوگ براہمن کی غلامی کو انجوائے کرنے لگے۔
کیونکہ انکی زندگی کھانے پینے اور سونے( نیند) شائد مرد عورت کے فطری
تقاضوں کے علاوہ کچھ نہ تھی ۔برہمن نے (Divide and rule) بانٹو اور حکومت
کرو ۔کے مطابق اس عوام الناس کو چھ ہزار ذاتوں میں بانٹ دیا۔ کیونکہ چھوٹے
گروپوں کوآپس میں لڑوانا اور کنٹرول کرنا آ سان ہوتا ہے۔ اوپر کی چار ذاتوں
کو برہمن نے اس طرح بتایا ۔ براہمن (حکمران) چھتری (فوجی) ویش (تاجر)
شودر(نچلے درجہ کے کام کرنے والے۔جھاڑو اور گندگی سے نمٹنے والے) جب انگریز
آیا تو انہوں نے یہ تعارف دیا کہ ایک قوم مسلمان ہے اور دوسری ہندو (برہمن
اور انکے غلام ) دو ہی قومیں آباد ہیں ۔ پچاسی فیصد غریب عوام کی تو کوئی
آواز ہی نہیں تھی حلانکہ بھارت کے آئین میں پہلے ہی صفحے پر پہلی لائن میں
لکھا ہے انڈیا یعنی بھارت ۔ اسکا نام ہندوستان تو باہرسے آنے والے ایرانیوں
نے دیا مورخین کا کہنا ہے کہ یہ نام وہ بطور گالی استعمال کرتے تھے۔ساڑھے
تین فیصد برہمن نے مردم شماری میں عوام الناس کو اپنی طرف سے مذہب کے کالم
میں (عوام الناس کی مرضی کے بغیر)ہندو لکھ دیا۔ انکے ایک بڑے لیڈرڈاکٹر
وامن میشرام کا کہنا ہے کہ جب 14 اگست1947 میں بھارت کا بٹوارہ ہوا تو
انگریز بدیسی(غیر ملکی) چلا گیا اور برہمن بدیسی نے اپنا قبضہ قائم رکھا
اور ہم پچاسی فیصد دھرتی کے سپوت تو اب بھی غلام ہیں ۔ ڈاکٹروامن میشرام کا
کہنا ہےکہ برہمن کا ڈی این اے بھارتی نہیں ہے اور ظلم یہ ہے کہ ساڑھے تین
فیصد کا بدیسی پچاسی فیصد (Son of soil) پر حکومت کر رہا ہے۔ اسمبلی میں
ہمارے آدمی الیکٹ ہو کر جاتے ہیں مگر انکو اسمبلی میں بولنے کا اختیار نہیں
ہے۔ ہمارے بچوں کو پڑھنے نہیں دیتے ۔ اور اگر وہ اپنے پیسوں سے پڑھ لکھ کر
قابل ہو جائں تو نوکری نہیں دیتے موجودہ حکومت نے جانوروں کی شمار تو کی ہے
لیکن عوام کی مردم شماری پر آمادہ نہیں ہے وجہ یہ ہے کہ پچاسی فیصد عوام
مردم شماری کی تعداد میں بڑھ بھی سکتی ہے یہ پچاسی فیصد عوام پر اپنا کلچر
مذہب تھوپتے ہیں۔بھارت میں جو بھی دنگے اور فاد ہوتے ہیں برہمن کا ہاتھ
ہوتا ہے ۔یہ اصل میں یہودی ہے۔ ابراھیم علیہ السلام کے حوالے سے اپنے آپ کو
براہمن کہتا ہے۔DNA اپنی جگہ ۔ عادات ،چالاکی، اور مکروفریب کی وجہ سے بھی
اسکی نسلی شناخت ہو سکتی ہے۔
ڈاکٹر وامن میشرام کی صدارت میں (بہوجن مکتی مورچہ) بھارت کی تمام شناختوں
کو یکجا کیا ہےاسمیںبھارت کی تمام ذاتوں بشمول مسلمان سکھ عیِسائی اور دیگر
مذاہب کے افراد شامل ہیں۔ اور اس طرح وہ اپنے مشترکہ دشمن سے نمٹ سکتے ہیں۔
بھارت سے پاکستان کی علیحدگی کے وقت براہمن نے سکھوں کو بھی ہندو وں کے ایک
فرقہ کی شناخت دی تھی۔اور انہوں نے ہی مسلمانوں کے قتل عام پر آما دہ کیا
تھا۔ ساڑھے تین فیصدبراہمنوں کی سیاست میں چار بڑی پارٹیاں ہیں ۔ پچاسی
فیصد عوام ان کے کہنے پر ہمہ وقت خون خرابہ کیلئے تیّار رہتی ہے۔ ڈاکٹر
وامن میشرام کہتے ہیں کہ ہندو کہنے پر براہمن طاقتور ہو تا ہے۔ جبکہ جنکو
براہمن ہندو کہتا ہے وہ ہزاروں سال سے براہمن کی غلامی میں بر باد
ہیں۔بہوجن مکتی مورچہ ان سب کو سمجھا رہا ہے ۔کہ حقائق کیا ہیں۔ یہ مسلمان
بھی ہمارے بھایئ ہیں جو براہمن جاتی کے ظلم اور ذلّت سے تنگ آ کر اسلام کی
پناہ میں چلےگئے۔ دنیا میں کسی ہندو دھرم کا وجود نہیں ہے۔
ڈاکٹروامن میشرام کے بہو مت مکتی مورچہ کے ساتھ مولانا خلیل سجّاد نعمانی
پاپوفرنٹ آف انڈیا اورنگ آباد سے کہہ رہے تھے کہ آج ہم براہمن کیخلاف متحد
ہو گئے ہیں اور جان گئے ہیں کہ ساڑھے تین فیصد براہمن اقلیّت میں ہے اور ہم
اکثریت میں ہیں۔اور ہمارا عزم ہے کہ ہم اپنی جنتا (عوام) کو بھوک اور خوف
سے آزاد کر کے رہیں گے۔ بلا شبہ دو ہزار سالوں سے اس براہمن جاتی نے بھارت
کی سادہ آبادی کو بیوقوف بنایا اور بہت ظلم کیااور آجتک جاری ہے۔
بابا صاحب امبیڈکر نچلی ذات کے پچاسی فیصد افراد کے ایک بڑے لیڈر تھے اور
بھارت کا آئین انہوں نے ہی لکھا تھا۔ ۱۹۳۲ ۔۱۹۳۳ میں تیسری راونڈ ٹیبل
کانفرنس میں انہوں نےبڑی طویل تقریر کی تھی۔ اور برطانیہ نےمان لیا تھا کہ
جنکو براہمن نچلی ذات کہتے ہیں وہ ہندو نہیں ہیں۔
باباصاحب امبیڈکر نے جب یہ منوا لیا تھا کہ یہ پچاسی فیصد (SC/ST/OBC)Schedule
Cast/ Schedule Tribes/Other Backward Class (ہندو نہیں ہیں بلکہ انکی
قومیت ہندوئوں سے الگ ہے۔ تو دوسری راونڈ ٹیبل کانفرنس سے پہلےگاندھی نے
مسلم لیگی قائدین کو ایک سادہ کاغذ پر دستخط کر کے دیا اور کہا کہ تم اپنے
جو مطالبات چاہو لکھ لومگر کل کی کانفرنس میں ذات پات کی اونچ نیچ کی نفی
نہ کرنا۔ موؒلانا محمّد علی جوہر اور دیگر نے بہ بانگ دہل کہا کہ اسلام میں
سب انسان برابر ہیں اور ہم تمہارا ساتھ نہیں دے سکتے۔
ابھی کے الیکشن میں نریندر مودی نے EVM کے ذریعہ جو ڈاکہ ڈالا ہے اسکی کوئی
مثال نہیں ملتی۔حلانکہ نریندرمودی خود بھی(OBC) بیکورڈ کلاس کا تیلی ہےمگر
اپنوں کے ساتھ اس کی زیادتی۔ بھارت کی کہانی بہت طویل ہے۔ انشااللہ پھر
کبھی لکھوں گا۔ فی الحال تو سب اس کوشش میں ہیں کہ الیکشن دو بارہ ہوں مگر
بغیر ای وی ایم کے ۔بیلٹ پیپر کے ذریعہ۔ اللہ ان کو کامیاب کرے۔ اگر کسی نے
لکھا ہے کہ نریندر مودی بھارت کو توڑنے والا ہے تو کوئی سبب ضرور ہے۔ |