مشرقِ وسطی میں کشیدہ حالات کا ذمہ دار ایران۰۰۰

مشرقِ وسطیٰ میں کشیدہ صورتحال کے پیشِ نظر حجازِ مقدس کے مقدس ترین شہر مکہ مکرمہ میں تین علحدہ علحدہ اجلاس منعقد ہوئے جس میں عرب لیگ اور خلیج تعاون کونسل کے اجلاس 30؍ مئی کواور اسلامی سربراہ کانفرنس 31؍ مئی کو منعقد ہوئی جس میں خطے کی موجودہ صورتحال کا جائزہ لیا گیا اور ایران کی دوسرے ممالک میں مداخلت کو روکنے کیلئے زور دیا گیا۔ذرائع ابلاغ کے مطابق فرمانروا مملکت سعودی عرب شاہ سلمان بن عبدالعزیز خادم الحرمین الشریفین نے مکہ مکرمہ میں خلیج تعاون کونسل کے سربراہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ایران کی بیلسٹک میزائل تیاری کی صلاحیت علاقائی اور عالمی سالمیت کیلئے خطرہ ہے۔شاہ سلمان نے کہا کہ خطے میں ایرانی مداخلت قیام امن کی کوششوں کیلئے چیلنج ہے۔ شاہ سلمان نے عالمی برادری کو ایران کے خلاف ٹھوس اور فیصلہ کن موقف اختیار کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔انہوں نے ایران کو دوسرے ممالک کے معاملات میں مداخلت سے باز رکھنے کیلئے تمام وسائل بروئے کار لانے کیلئے، بین الاقوامی برادری پر زور دیا اور کہا کہ عالمی برادری ایران کی تخریبی کارروائیاں روکنے کیلئے اپنی ذمہ داریاں نبھائیں۔ شاہ سلمان کا کہنا تھا کہ ایران کی تخریبی کارروائیوں کے خلاف کوئی فیصلہ نہ کرنے کی وجہ سے آج ہم اس مقام پر پہنچ چکے ہیں ۔گذشتہ دنوں حوثی باغیوں کی سعودی عرب کے شہر میں بیلسٹک میزائل حملہ اور عرب امارات کی بحری گزرگاہ میں چار تجارتی جہازوں کو نشانہ بنائے جانے کے خلاف بھی شاہ سلمان نے کہا کہ ان کارروائیوں کے پیچھے ایران کا ہاتھ ہے انکا کہنا تھا کہ ایران خطے میں دہشت گردی کی کارروائیوں کی آبیاری کرتا ہے جس سے تجارتی جہاز رانی اور تیل کی عالمی سپلائی کو خطرات لاحق ہو گئے ہیں۔ تہران کے یہ اقدامات اقوام متحدہ کی قراردادوں کی صریح خلاف ورزی ہیں۔شاہ سلمان کا کہنا تھا کہ سعودی عرب خطے میں امن اور سلامتی قائم رکھنے کا خواہش مند ہے اور ہم جنگ کی ہولناکیوں سے بچنا چاہتے ہیں۔ گذشتہ ہفتہ جن حالات کی وجہ سے خطے میں کشیدگی میں اضافہ ہوا ہے ان واقعات کے سدباب کیلئے ضروری ہے کہ خلیج تعاون کونسل کی کامیابیوں کو محفوظ بنایا جائے۔خلیج تعاون کونسل کے سیکرٹری جنرل عبدالطیف الزیانی نے کہا کہ خلیجی قیادت کا یہ اجلاس مستقبل میں پیش آنے والے سنگین خطرات کی تناظر میں ہو رہا ہے۔سعودی پریس ایجنسی ’’ایس پی اے‘‘ نے شاہ سلمان کے جی سی سی سمٹ سے خطاب کا مکمل متن جاری کیا، جسے العربیہ کے قارئین کے لئے پیش کیا جا رہا ہے۔میں آپ سب کا مْملکت سعودی عرب، جو آپ کا اپنا دوسرا گھر ہے، میں اپنی طرف سے اس ہنگامی سربراہ اجلاس میں شرکت کیلئے آمد پر خوش آمدید کہتا ہوں۔ یہ کانفرنس ایسے حالات میں منعقد کی جا رہی ہے جب بالعموم پوری دنیا اور بالخصوص پورا خطہ امن وسلامتی اور استحکام کے براہ راست سنگین چیلنجز کا سامنا کر رہا ہے۔ماضی میں ہم امن واستحکام کو لاحق خطرات اور چینلجز سے بہترین طریقے سے نمٹتے رہے ہیں۔ ہم اپنے مفادات کے تحفظ اور اپنے ملکوں میں اقتصادی وسماجی ترقی کو یقینی بنانے میں کامیاب رہے ہیں۔ اﷲ کے خصوصی فضل واحسان کے ساتھ ہم آئندہ بھی تمام چیلنجز سے مل کر عزم اور حوصلے کے ساتھ مقابلہ کریں گے۔ ایران پر الزام عائد کرتے ہوئے اس اجلاس سے متعلق بتایا گیا کہ حال ہی میں ایران نے اپنے ایجنٹوں کی مدد سے مجرمانہ اقدامات کے ذریعے برادر ملک متحدہ عرب امارات کے قریب علاقائی پانیوں میں چار تجارتی جہازوں پر بین الاقوامی تجارتی بحری گذر گاہ میں حملہ کیا۔ سعودی عرب میں تیل کی دو اور دیگر تنصیبات پر حملے کیے۔ اس کے بعد خلیج تعاون کونسل کے مفادات کے تحفظ کے لیے مشترکہ حکمت عملی وضع کرنا ضروری تھا جس کیلئے یہ ہنگامی اجلاس بلایا گیا۔مملکت سعودی عرب خطے کے امن، خوشحالی، ترقی اور استحکام کی خواہاں ہے۔ ہم ہرصورت میں جنگ کی ہولناکیوں سے بچنا، خطے کی تمام اقوام کیلئے امن ،استحکام اور خوشحالی چاہتے ہیں۔ ہم ایرانی قوم کیلئے بھی خیر خواہی کا جذبہ رکھتے ہیں۔ سعودی عرب نے ہمیشہ امن کے لیے اپنا ہاتھ آگے بڑھایا۔ مملکت خطے میں امن واستحکام کو یقینی بنانے کے لیے ہر ممکنہ کوشش کریں گی۔ 31؍ مئی کو مکہ مکرمہ میں 14؍ ویں اسلامی سربراہ اجلاس کانفرنس منعقد ہوئی، جس میں قطر کے امیر تمیم بن حمد الثانی کو بھی تحریری دعوت نامہ دیا گیا ہے۔ابتداء میں قطر کو دعوت نامہ نہیں دیئے جانے کی شکایت تھی لیکن گذشتہ دنوں یہ دعوت نامہ وزیر خارجہ محمد بن عبدالرحمٰن الثانی کو جی سی سی کے جنرل سیکریٹری نے ملاقات کے دوران پہنچادیا۔قطر نے دعوت نامہ قبول کرتے ہوئے ان اجلاسوں میں شرکت کی جس سے جی سی سی ممالک کے درمیان بڑھتی ہوئی کیشدگی میں کمی واقع ہوسکتی ہے اور اگر ان ممالک کے درمیان سفارتی تعلقات بحال ہوتے ہیں تو یہ عالمِ اسلام ہی کیلئے نہیں بلکہ بین الاقوامی سطح پر بہتر ہوگا۔
خلیجی تعاون کونسل (جی سی سی ) کا وجود 1981ء میں عمل میں آیا تھا جس میں رکن ممالک بحرین، کویت، عمان، متحدہ عرب امارات ، سعودی عرب اور قطر شامل ہیں۔ اس کونسل کا مقصد مشرقِ وسطیٰ میں سیاسی اور اقتصادی طور پرعرب اتحاد کو محفوظ رکھنا اور ترقی کی راہیں تلاش کرنا تھا ۔ لیکن جون 2017میں سعودی عرب، عرب امارات، بحرین ، مصر، لیبیاء وغیرہ نے قطر سے اپنے سفارتی تعلقات منقطع کرلئے اور اس پر الزام عائد کیا کہ وہ دہشت گرد تنظیموں خصوصاً داعش ، اخوان المسلمین وغیرہ کے ساتھ تعاون کررہا ہے۔ جبکہ قطر نے ان الزامات کی سختی سے تردید کی ہے اس کے باوجود ان ممالک کے درمیان حالات کشیدہ ہیں اور ابھی تک سفارتی تعلقات بحال نہیں ہوئے ہیں ان سفارتی تعلقات کے منقطع ہونے کی وجہ سے قطر کے عازمین حج و معتمرین کو عمرہ و حج کی سعادت سے محروم ہونا پڑرہا ہے کیونکہ سعودی عرب جس طرح قطری عازمین کو سفر کی اجازت دے رہا ہے یعنی قطری حکومت کو نظرانداز کرتے ہوئے عازمین حج وعمرہ کو سعودی عرب آنے کے لئے سفری انتظامات الگ ذرائع سے کئے جارہے ہیں جس پر قطر متفق نہیں ہے اس طرح دونوں ممالک کے درمیان سفارتی تعلقات کا نقصان عوام کو بھگتنا پڑرہا ہے۔ ان سفارتی تعلقات کے منقطع ہونے کے بعد قطر کو ایران اور ترکی کی جانب فوجی او روزمرہ زندگی کے معاملات میں پیش آنے والی اشیاء خوردونوش اور دیگر ضروریاتِ زندگی کے حصول کیلئے تعاون حاصل ہے ۔ قطر جو قدرتی گیس کے اعتبار سے عالمی سطح پر امیرترین ممالک میں شمار کیا جاتا ہے ۔ مکہ مکرمہ میں جی سی سی کے ہنگامی اجلاس میں امیر قطرتمیم بن حمدالثانی کی شرکت اہمیت کی حامل تھی۔ کیونکہ سعودی عرب میں یمن کے حوثی باغیوں کی جانب سے جو حملے کئے جارہے ہیں اس کا تمام تر الزام ایران پر عائد کیا جارہا ہے اور اسی کے تعاون سے یہ سب کارروائیاں بتائی جارہی ہیں۔یہاں یہ بات واضح ہے کہ ایران و قطر کے درمیان تعلقات دوستانہ رہے ہیں، سعودی عرب اور دیگر ممالک کی جانب سے قطر پر سفارتی پابندیاں عائد کئے جانے کے بعد قطر کے مشکل ترین دور میں ایران نے اس کا بھرپور تعاون کیا ہے۔ اب دیکھنا ہے کہ قطر کا ان اجلاسوں میں شرکت ایران اور عرب ممالک پر کیا اثر پڑتا ہے ۔

ایرانی وزارت خارجہ کے ترجمان عباس موسوی نے عرب لیگ ، خلیج تعاون کونسل کے ہنگامی اجلاسوں کے بعد ایران پر لگائے گئے الزامات کو بے بنیاد قرار دیا ان کا کہنا ہیکہ سعودی عرب ان ملاقاتوں کو اپنے مطلب کیلئے استعمال کررہا ہے اور انہوں نے دعوی کیا کہ سعودی عرب کا ایسا کرنا اسرائیل کی دیرینہ خواہش تھی۔ عراقی صدر برہم صالح نے مکہ اجلاس کے بعد جاری کئے جانے والے بیان سے اختلاف کرتے ہوئے اپنے خطاب میں خبردار کیا کہ اگر حالیہ بحران سے صحیح طرح نہ نمٹا گیا تو جنگ بھی چھڑ سکتی ہے اور تمام فریق کے درمیان تعمیری مذاکرات کی ضرورت پر انہوں نے زور دیا۔ انہوں نے اپنی تقریر میں کہا کہ ایران ، عراق اور دیگر عرب ممالک کا ہمسایہ ہے اور یاد دلایا کہ ان کے ملک کا ایران کے ساتھ 1400کلو میٹر کا مشترکہ بارڈر بھی ہے ، ہم نہیں چاہتے کہ اس کی سیکیورٹی کو نشانہ بنایا جائے اس طرح انہوں نے ایران کے تعلق سے کہا کہ ایک پڑوسی مسلم ملک کی سالمیت کا خیال رکھنا تمام عرب ممالک اور مسلم امت کے مفاد میں ہوگا۔ عرب ممالک کے اختتامی اجلاس پر جاری ہونے والے مشترکہ بیان میں تمام فریقوں نے اس بات پر اتفاق کیا کہ یمن سے داغے جانے والے ایرانی ساختہ میزائلوں سے بچاؤ سعودی عرب کا حق ہے اور یہ حملے عرب ممالک کی سیکوریٹی کے لئے ایک بڑا خطرہ ہیں۔ اور کسی بھی ملک پر حملہ سب پر حملہ کے مترادف قرار دیا گیا۔ اب دیکھنا ہیکہ ایران ان الزامات کی تردید کرنے کے بعد عرب ممالک اس کا کس طرح جواب دیتے ہیں۔

ان دنوں ہندوستان میں پھر سے ایک مرتبہ نریندر مودی کی وزارتِ عظمیٰ میں ہندوتوا حکومت قائم ہوچکی ہے ۔ عالمی سطح پر خصوصاً عرب ممالک میں نریندر مودی نے اپنے آپ کو ایک بہترین سیاسی قائد کی حیثیت سے پیش کرنے کی کوشش کی ہے اور انہوں نے جس طرح اپنی پہلی وزارتِ عظمی کی تقریب حلف برداری کے موقع پر سارک ممالک کے سربراہان کو مدعو کیا تھا اس مرتبہ انہوں نے سارک ممالک کے سربراہوں کے بجائے BIMSTEC ممالک اور کرغستان اور ماریشس کے سربراہوں کو مدعو کیا تھا۔BIMSTECممالک میں بنگلہ دیش، ہندوستان، مائنمار، سری لنکا، تھائی لینڈ، نیپال اور بھوٹان شامل ہے ۔ان میں سے بعض ممالک میں بھی مسلمانوں کو نشانہ بنایا جاتا رہا ہے ۔ ہندوستان کے بعض علاقوں میں مسلمانوں کے ساتھ جس طرح کا برتاؤ کیا جارہا ہے اس سے ملک کی ساکھ عالمی سطح پر متاثر ہورہی ہے ، نریندر مودی اپنی دوسری میعاد کے موقع پر ہندوستانی مسلمانوں کے تحفظ کیلئے ہندوتوا فرقہ پرست ظالموں کے خلاف سخت کارروائی کا انتباہ دیں ،ورنہ ملک کے حالات اقلیتوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کی وجہ سے شدید متاثر ہونگے اور جب اقلیت اور اکثریت کے درمیان حالات کشیدہ ہونگے تو ملک کی ترقی و خوشحالی میں رکاوٹ پیش آئے گی اسی لئے ملک کے حالات کو سازگار بنائے رکھنے کیلئے ضروری ہے کہ امن و آمان کی فضا کو مکدر ہونے سے بچائے رکھیں۰۰۰حالات ہندوستان کے ہوں یا عالمی سطح پر دیگر ممالک میں ، ہر طرف مسلمانوں کو نشانہ بنانے کوششیں جاری ہیں اسی لئے مسلمانوں کو چاہئیے کہ وہ شریعت مطہرہ پر عمل پیرا ہوکر اسلامی زندگی گزارنے کی بھرپور کوشش کریں اور اسی میں ہماری آن بان شان ہے اور دشمنانِ اسلام کیلئے ہزیمت کا سامان ۰۰۰
***

Muhammad Abdul Rasheed Jundaid
About the Author: Muhammad Abdul Rasheed Jundaid Read More Articles by Muhammad Abdul Rasheed Jundaid: 352 Articles with 209475 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.