23 مئی لوک سبھا کے نتائج سے سیکولر طبقہ شدید مایوسی کے
عالم میں ہے۔ یہ مایوسی بے جا نہیں ہے جب 2014 میں بی جے پی کو واضح اکثریت
حاصل ہوئی تھی تب سیکولر ذہن رکھنے والی عوام نیز سیاسی پنڈتوں نے اس جیت
کو کانگریس کے کرپشن اور کمزور پڑتی سیاسی قوتِ ارادی کو وجہ بتایا تھا۔
گذرے پانچ برسوں میں ملکی معیشت کے ضمن میں کئے گئے چند غیر افادی فیصلے
بنام نوٹ بندی و جی ایس ٹی کا اطلاق، واضح اکثریت کے زعم میں گؤکشی، وندے
ماترم، تین طلاق وغیرہ موضوعات پر اقلیتوں و دلتوں میں عدم تحفظ کے احساس
کو پیدا کرنا نیز پلوامہ و رافیل جیسے مدعوں پر سیاسی سبکیوں کے باعث پچھلے
تین مہینوں میں معتبر ٹی وی چینلوں کے مباحثوں سے اور سیکولر قدروں پر یقین
رکھنے والے اخبارات کے سیاسی تجزیوں سے یہی تاثر بھی ملتا گیا کہ اب مودی
کے دن ہوچلے ہیں۔ لیکن 23 مئی کے رزلٹ مکمل زعفرانی رنگ میں ڈوبے ہوئے ظاہر
ہوئے۔ اس نتیجے سے انصاف پسند طبقہ آخر کونسا تاثر لے؟ پرگیہ ٹھاکر کے
مطابق یہ نتائج کیا واقعی دھرم کی جیت ہیں؟ نریندر مودی، امیت شاہ اور
پارٹی ترجمان نے پرگیہ ٹھاکر کے گاندھی مخالف بیان کی بظاہر مخالفت ہی کی
یہ مخالفت اُنکی سیاسی مجبوری تھی لیکن بھارتی عوام میں پرگیہ ٹھاکر، گری
راج کشور، یوگی ادتیہ ناتھ، کیلاش وجئے ورگیہ وغیرہ لوگوں کے ذریعے جو
پیغامات دئیے جانا تھے اس میں بی جے پی سوفیصد کامیاب رہی۔ بی جے پی حکومت
دانشوروں کی عدالت میں ہجومی تشدد،رافیل، پلوامہ، سپریم کورٹ کے ججیس کی
مودی حکومت کے اقدامات سے بے اطمنانی اور غیر سائنسی بیانات پر بظاہر
ہزیمتیں اُٹھاتی رہی وہیں ان مسلم مخالف موضوعات سے زعفرانی ذہنیت سے رچی
بسی کروڑوں عوام کو کبھی کچھ فرق بھی نہیں پڑا۔ طرّہ یہ کہ EVM مشینیں بھی
مشکوک ٹھہرائی جاتی رہیں۔ سوال یہی اُٹھتا ہیکہ کیا یہ الیکشن مشینوں،
امبانیوں، اڈانیوں، کٹر ہندوتوا وادیوں اور گودی میڈیا کے ذریعے ہیکڈ تھا؟
امبانیز جیسے ارب پتی کیا رافیل پر اپنی ہزیمتوں کو یوں ہی جانے دیتے تھے؟
کیا یہ سچ ہے کہ اس EVM مشین کے ذریعے نہ صرف جمہوریت کا گلا گھونٹا گیا
بلکہ ظلم و نا انصافی بھری حکومت کے کرتوتوں کو صحیح ٹھہرایا گیا ہے۔ اس
حیرت انگیز جیت سے عوام میں یہ پیغام دیا گیا کہ گذرے پانچ سال میں مودی
حکومت کی نوٹ بندی، سرکاری ایجنسیوں کی بے عزتیاں، جی ایس ٹی، ہجومی تشدد
پر مجرمانہ خاموشی وغیرہ یہ مودی حکومت کے لئے جائز تھا۔جبکہ کڑوا سچ تو یہ
ہیکہ یہ چونکا دینے والے نتائج اسّی، کروڑ ہندوستانیوں کی بدلتی سوچ کے
غماز ہیں یہ بدلتی بھگوا سوچ کوئی آج کل کی نہیں یہ ذہنیت اڈوانی کی نفرت
کی رتھ یاترا کی بدولت چھ دسمبر 1992 میں بابری مسجد کی شہادت کے بعد سے ہی
بدلنا شروع ہوگئی تھی جسے مزید تقویت 2002 میں گجرات کے مسلم کش فسادات کے
بعد ملتی گئی آخر ہم کیوں صرف اپنے مزاج کی بات ہی سننا چاہتے ہیں؟ جہاں
ہمیں َاسلاف کی قربانیاں، شہادتیں، مسلم دورِ حکومت کی رواداریاں یاد ہیں
تو وہیں ملک کی سیکولر سوچ کو سبوتاژ کرنے کے لئے ساورکر، گرو گوالکر اور
گوڈسے کی ملک و مسلم مخالف سوچ کو بھی یاد رکھنا چاہئے۔ آزادی کے بعد سے
موجودہ اِس تیسری چوتھی نسل میں گودی میڈیا کے ذریعے اور کٹر پنتھی تاریخ
نویسوں کے ذریعے مسلسل مزاج بدلا جاتا رہا یاد رہے کہ یہ ملک کی سب سے بڑی
حقیقت ہیکہ مذہب سے محبت ہمیشہ ہر ہندوستانی کی پہلی ترجیح رہی ہے اور اسی
دھرم سے محبت اور ملک کو ماتا سمجھنے کے جذبے کو بی جے پی نے ہمیشہ خوب
بُھنایا۔ ویسے بھی سیکولر مزاج رکھنے والے لوگ ہر مذہب میں کم ہی ہوتے ہیں
شدت پسندوں اور کم سمجھ لوگوں کی تعداد ہی زیادہ ہوا کرتی ہے۔ مستقبل میں
یہ کوئی حیرت کی بات نہیں بنے گی جب یہی تیسری نسل ببانگ دہل گوڈسے نظریات
کو گاندھی نظریات پر سبقت دینے کی کوشش کریں گے نیز گوڈسے اور ساورکر کے
مجسمے بنوا کر، اُن سے موسوم لائبریریاں کھول کر اور نصابی کتابوں میں فرضی
تاریخ کے ابواب شامل کرکے اپنے نظریات کو ببانگ دہل تھوپنے کی کوشش کریں
گے۔ راقم السطور اس الیکشن سے قبل نجی محفلوں میں یہی کہتا رہا کہ ہندوتوا
کے نظریات اپنی ''چَرَم سیما'' پر پہنچ کر رہیں گے۔ پھر اس عروج کے بعد
زوال بھی ہوگا۔ زوال کے اسباب وعلل پر پھر کبھی گفتگو ہوگی۔ بہرحال یہ سچ
ہیکہ ہر ہندوستانی کی پہلی پسند اُسکا مذہب ہے وہ چاہے ہندو ہوں یا مسلم۔
تاریخی حقیقت ہیکہ آزادی کی لڑائی ہندو مسلمانوں نے مل کر لڑی لیکن یہی
ہندوؤں اور مسلمانوں کو اُنکے مذاہب کے نام پر بٹوارے کی صورت بانٹا گیا۔
اپنے دھرم سے محبت اور اپنے حقیقی ملک بھارت سے محبت میں یہی ہندو اسی
بٹوارے کی وجہ سے مسلمانوں اور مسلمانوں کے مددگاروں سے دور ہونا شروع ہوئے
1992 تک سیکولر مزاج کی حکومتیں اپنے غلبے کی وجہ سے کٹر ہندوتوا سوچ کے
نقصانات سے بچتے گئے۔ بالآخر بابری مسجد کی شہادت ہی کٹر ہندو توا سوچ کو
تقویت دینے والا ٹرننگ پوائینٹ بنا طرہ یہ کہ ساھو سنت کارسیوک وغیرہ عام
ہندوؤں میں احترام کا مقام رکھتے ہیں انہی کارسیوکوں کے گودھرا حادثے کو
مدعا بنا کر 2002 کے مسلم کش فسادات ہوئے وجہ وہی دھرم کی رکھشا اور
''ملیچھ مسلمانوں'' سے شدید نفرت اور دھرم کے رکھوالے کے روپ میں نریندر
مودی جیسے کٹر ہندو توا وادی چہرے کا سامنے آنا جس نے آج تک گجرات فسادات
پر شرمندگی کا اظہار نہیں کیا اور وزیراعظم بننے کے بعد مصلحتاً اور
علامتاً ہی سہی مسلمان نما بکاؤ مولویوں کے ہاتھوں ٹوپی بھی پہننا گوارا
نہیں کیا جبکہ علامتاً ٹوپی پہن لینے میں ملک کے وزیراعظم کو کوئی قباحت
نہیں ہونا چاہئیے تھا۔ مودی اگر یہاں ڈپلومیسی اختیار کرکے ٹوپی پہن بھی
لیتے تو اس سے وہ اسّی فیصد دھرم سے اندھی محبت رکھنے والے ہندوؤں کا
اعتماد کھو دیتے۔ یادداشتوں میں یہ محفوظ ہونا چاہئے کہ 1925 سے آج تک آر
ایس ایس نے مستقل مزاجی سے ملک کے ہر چھوٹے بڑے لاکھوں گاؤں میں لاکھوں کی
تعداد میں اپنی شاکھائیں قائم کی جہاں کروڑوں ورکروں کو گوڈے نظریات پر
مبنی تعلیم دی جاتی ہے پھر 1987 سے یہی کروڑوں ورکروں کو سیاسی طاقت حاصل
کرنے کے لئے سیاسی پارٹی بی جے پی میں تبدیل کردیا گیا۔
یہ دھیان رہے کہ ہمارا ملک ستر فیصد دیہاتوں میں بسا ہے دیہاتوں میں بسے
لوگ عموماً کم تعلیم یافتہ کچے ذہن کے اور اپنی اندھ شردھا کی وجہ سے شہری
لوگوں سے زیادہ دھارمک! ہوتے ہیں اور انہی نقلی دھارمک لوگوں کی سوچ کو
ہندو موافق اور مسلم مخالف موضوعات کے ذریعے بالخصوص راشٹرواد اور پاکستان
مخالف موضوع کے ذریعے پانچ سال زندہ رکھتے ہوئے اپنی ووٹ بینک کو یقینی
بنایا جاتا رہا۔ یہ وہی ووٹ بینک ہے جو دھرم اور پاکستان سے نفرت کو لیکر
آزادی کے بعد سے جنونی ہے۔ یہ وہی ووٹ بینک ہے جسے گاندھی کے ذریعے پاکستان
کو چالیس کروڑ دیا جانا آج تک کَھلتا رہا۔ یہ وہی ووٹ بینک ہے جو بھارت کے
مسلمانوں کو باہری سمجھتے ہیں۔ یہ وہی ووٹ بینک ہے جو بھارت کی دو ڈھائی سو
سال کی غلامی نہیں مانتے بلکہ مسلمانوں کے دَورحکومت کو مِلا کر بارہ سو
سال کی غلامی سے باور کراتے ہیں مسلم غلامی کے دَور کے انتقامی جذبے کے تحت
نصابی کتابوں سے کھلواڑ، شہروں اور عوامی مقامات کے نام بدلنا گاے ماتا! سے
محبت میں مسلمانوں اور دلتوں کو ہجومی تشدد کے ذریعے ختم کرنا۔ یہ سب کچھ
بی جے پی کے ''پرایوجک دھرم'' کی محبت میں ہی تو ہوتا رہا ہے ان کٹر
پنتھیوں کی سوچ کہ پاکستان مسلمانوں کا ملک، گلف کے ممالک مسلمانوں کے تو
پھر یہ بھارت جو پانچ ہزار سال کی ہندو تہذیب رکھتا ہے آخر یہ ملک صرف ہم
ہندوؤں کا کیوں نہیں ہوسکتا؟ آزادی کے بعد کی اس تیسری نسل تک یہی ساری سوچ
اُنکے لڑیچر اوربھگوا میڈیا کے ذریعے متواتر ڈالی جاتی رہی. یہ کسی بھی طرح
سے بھارت میں ایسی حکومت چاہتے ہیں جو انکی ہو۔ جہاں انکے نظریات کی راہ
میں کسی طرح کی سیکولرو مسلم حمایتی سوچ روڑے نہ اَٹکا سکے۔ مسلمانوں سے
نفرت اور اس نفرت کے جواز میں تقویت انہیں گذشتہ دو دہائیوں میں ہوے آتنک
وادی حملوں میں مسلمانوں کے ملوث ہونے کی وجہ سے ملتی گئی (ان حملوں میں
مسلمانوں کی گرفتاریاں کتنی صحیح تھیں یہ سبھی جانتے ہیں) آج ایک بڑے طبقے
کو انصاف پسندانہ قدروں پر منحصر غیر تعصبی ٹی وی مباحثوں کی سنجیدگی سے
کچھ لینا دینا نہیں اس طبقے کو ہر صورت اپنی حکومت چاہیے انہیں رام راجیہ
چاہیے اور مودی کی صورت آج دور دور تک کوئی ایسا متبادل موجود بھی نہیں۔
غیرجانبداری پر منحصرمساوات، سیاسی ایمانداری، کرپشن، کسانوں اور بے
روزگاروں کے مسائل، تعلیم، صحت و ملکی معیشت نیز بنیادی انفراسٹرکچر میں
سدھار و ترقی جیسے موضوعات پر ان مذہبی جنونیوں کو کچھ لینا دینا نہیں ان
کروڑوں بھکتوں کو امیت شاہ کے سنگٹھن کی حکمت عملیوں نے لاکھوں شاکھاوں کے
کروڑوں لوگوں کے ذریعے ایک بار پھر منظم طریقے سے ''جیت کی ووٹ'' میں بدل
دیا گیا۔ اس بار مودی سرکار، وزراء اور کروڑوں بھاجپائی لوگوں کا اعتماد
اور خود سری یقیناً پہلے سے بڑھی ہوئی رہیگی یہ بھی ممکن ہیکہ EVM مشین کے
تعلق سے UNO میں منظم طریقے سے شکایتی اندراج ہو۔ممکن ہیکہ EVM مشین کی
شفافیت پر پُر زور طریقے سے احتجاج بھی ہو۔EVM مشین کی غیرجانبداری بھی
یقینا شک کے دائرے میں ہے۔ یہ سارے کام حکومت اور اپوزیشن کو کرنے دیجیے۔
ہم بھارتی مسلمانوں کو اب پوری شدت کے ساتھ تعلیم پر تجارت پر صحت و دھندے
بیوپار پر اُخلاقیات و معیشت پر اور آپسی اتحاد پر پوری لگن کے ساتھ محنت
کرنا پڑیگا۔ کل بھی ہمیں کسی بھی حکومت سے کوئی خاطرخواہ فائدہ نہیں تھا
اور آج بھی ہم اپنی اپنی محنت اور تقدیر کا کھا رہے ہیں ہمیں بالکل بھی
مایوس نہ ہوتے ہوئے اﷲ پر یقین رکھنا چاہیے کہ تاریخ گواہ ہیکہ ظالموں کو
اگر کسی نے سبق سکھایا ہے تو مظلوم عوام نے ہی ہمیں عوام کے ذریعے کروڑوں
کی تعداد میں ہوئے تختہ پلٹ مظاہرہ یاد رہنا چاہئیے جو مصر کے تحریر
اسکوائر چوک پر ہوا تھا۔ وہ دن دور نہیں ہوگا جب معیشت کے ستون چُرمرائیں
گے، جب بیروزگاری کا عفریت انہیں نگلنا شروع کریگا، جب روپیہ اور مودی کا
وقار گرنا شروع ہوگا تب بی جے پی کو جیت دلانے والے یہی ''مذہبی جنونی''
اپنے فیصلے پر پچھتائیں گے۔ ہمیں کسی کو نیست و نابود کرنے کی دعائیں کرنے
کی بجائے مستقل مزاجی سے خود کو مضبوط کرنے کی راہوں پر چلتے جانا ہے۔ |