ذرائع ابلاغ میں فی الحال ہر طرف کمل کی باغبانی ہورہی
ہے۔ حب علی میں کام کرنے والوں کا یہ حق ہے لیکن کچھ لوگ مایوسی کا شکار
ہوکر یا ملت کی غفلت کو دور کرنے کے نیک جذبہ سے بھی ایک کمل کے پھول کو دس
گننے میں جٹے ہوئے ہیں ۔ ایسے میں جبکہ مختلف انداز میں حزب اختلاف کا
تعزیت نامہ رقم کیا جارہا ہے کرناٹک سے آنے والے بلدیاتی انتخاب کے نتائج
حیرت کا خوشگوار جھونکا ثابت ہوئے ۔ انتخابی نتائج چونکہ عوام کی رائے کو
متاثر کرتے ہیں اس لیے رائے دہندگی کے خاتمے تک اندازوں یعنی ایکزٹ پول تک
پر پابندی ہوتی ہے لیکن یہ انتخاب تو قومی نتائج کا اعلان ہونے کے دو دن
بعد یعنی ۲۹ مئی کو ہوئے اس کے باوجود تعجب ہے کہ رائے دہندگان پر ان کا
اثر دکھائی نہیں دیا۔ مذکورہ الیکشن کانگریس اور جنتا دل (ایس) نے ایک
دوسرے کے ساتھ نہیں بلکہ خلاف لڑا ۔ اس کے چلتے بی جے پی کی زبردست کامیابی
کے امکانات روشن ہوگئے لیکن ایسا نہیں ہوا ۔ سچ تو یہ ہے کہ سارے سیاسی
پنڈت چونکہ اس کا جواز فراہم کرنے میں ناکام ہیں اس لیے انہیں نظر انداز
کیا جارہاہے ۔
کرناٹک میں ایوان زیریں کی جملہ ۲۸ نشستیں ہیں ۔ ان میں سے ۲۵ پر بی جے پی
نے کامیابی درج کرائی اور کانگریس، جے ڈی ایس و آزاد امیدوار کو ایک ایک
نشست پر اکتفاء کرنا پڑا۔ ووٹ کی تقسیم دیکھیں تو بی جے پی کو ۵۱ فیصد سے
زیادہ اور کانگریس کو ۳۲ فیصد نیز جے ڈی ایس کو ۱۰ فیصد ووٹ ملے ۔ اس طرح
کانگریس و جے ڈی ایس سے ۹ فیصد زیادہ ووٹ پانے والی بی جے پی نے سب کا سپڑا
صاف کردیا ۔ ان غیر معمولی نتائج کے بعد ۶۱ شہری بلدیاتی انتخابات ہوئے ۔
بی جے پی چونکہ شہروں کی جماعت سمجھی جاتی ہے اس لیے ان میں اس کی کارکردگی
میں بہتر ہونی چاہیے تھی لیکن ایسا نہیں ہوا۔ قومی سطح پر ساتھ میں لڑنے
والی جے ڈی ایس کی مخالفت کا نقصان ہونا چاہیے تھا ۔ ایسا بھی نہیں ہوا
بلکہ جملہ ۱۳۰۰ نشستوں میں سے کانگریس کو ۵۰۹ مقامات پر کامیابی ملی اور بی
جے پی کو ۳۶۶ پر سمٹ جانا پڑا ۔ جنتا دل ایس نے کانگریس کی مدد کے بغیر
اپنے بل بوتے پر ۱۷۴ مقامات پر پرچم لہرا دیا۔ یہ پہلو بھی قابلِ ذکر ہے کہ
گزشتہ سال جب ۱۰۵ شہروں میں بلدیاتی انتخاب ہوئے تھے تو اس وقت کانگریس کے
حصے میں ۹۸۲ اور بی جے پی کو ۹۲۹ نشستوں پر کامیابی ملی تھی یعنی فرق بہت
معمولی تھا جبکہ جنتا دل ایس نے ۳۷۵مقامات پر اپنا جھنڈا گاڑ دیا تھا ۔
قومی انتخاب کے نتائج کا اعلان ہونے کے بعد پہلے تو یہ اٹکل لگائی گئی کہ
اب جنتا دل ایس اپنی وفاداری بدل کر بی جے پی کے خیمہ میں چلی جائے گی۔اس
میں کامیابی نہیں ملی تو کانگریس میں پھوٹ ڈالنے کی ناکام کوشش ہوئی لیکن
جب کانگریس لیجسلیچر پارٹی کے اجلاس میں دو کے علاوہ سارے ارکان اسمبلی
حاضر ہوگئے تو یدورپاّ نے اعلان کیا کہ اب ہم تازہ انتخابات کروا کر حکومت
بنائیں گے۔ بلدیاتی انتخاب کے نتائج دیکھنے کے بعد یدورپاّ کو پھر سے
انتخاب کرانے کی اپنی تجویز پر نظر ثانی کرنی ہوگی۔ ایک بات یہ سمجھ میں
نہیں آتی کہ اقتدار کی خاطر بی جے پی والے اس قدر اتاولے کیوں ہوجاتے ہیں؟
اس میں شک نہیں کہ قومی سطح پر ان کی پارٹی جیت گئی ۔ حکومت بھی بناڈالی
اور سارے اہم وزارتوں کو اپنے قبضے میں بھی لے لیا لیکن کیا اس کا مطلب یہ
ہے دیگر جماعتوں کے ارکان کو خرید کر مخالفین کی ریاستی سرکاریں گرائی
جائیں؟بنگال سے لے کر مدھیہ پردیش ، راجستھان اور کرناٹک تک یہی کھیل جاری
ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ اقتدار کے بغیر بی جے پی کی حالت ’جل بن مچھلی ‘ جیسی
ہوجاتی ہے۔
ان انتخابی نتائج کا پارٹی سیاست سے اٹھ کر موجودہ سیاسی نظام کی سطح پر
گہرائی سے جائزہ لیاجانا چاہیے۔ جمہوریت صرف عوام کی رائے سے حکومت سازی تک
محدود نظام سیاست نہیں ہے۔ اس میں عوام کی حکومت ،عوام کے ذریعہ اور عوام
کے لیے قائم کی جاتی ہے۔ یہ ایک نہایت دلفریب نعرہ ہے کہ لوگ اسے سنتے ہی
اس پر لٹوّ ہوجاتے ہیں۔ملوکیت میں سارے اختیارات ایک فرد کے ہاتھوں میں
ہوتے تھے اور وہ اپنی من مانی کرتا تھا ۔ بدقسمتی سے جمہوریت میں بھی یہ
ہوتا ہے کہ کوئی مودی یا ٹرمپ سارے اختیارات اپنے ہاتھوں میں لے کر بلا
شرکت غیرے اپنی مرضی چلانے لگتا ہے لیکن ملوکیت میں حکمراں کو اقتدار سے بے
دخل کرنے کا اختیار عوام کو حاصل نہیں ہوتا ۔ جمہوریت میں عوام کو وقفہ
وقفہ سے اس کا موقع ملتا ہے اور وہ حکمراں کو ہٹا کر اس سے نجات حاصل
کرسکتے ہیں لیکن پھر نئے حکمراں کے مظالم سہنے پر مجبور ہوجاتے ہیں اور ایک
خاص وقفہ تک ان کے پاس اپنے آپ کو کوسنے اور انتظار کرنے کے سوا چارۂ کار
نہیں ہوتا ہے۔ افسوس کہ اس کھیل میں شاذو ناد ہی اچھے لوگ اقتدار میں
آتےہیں اکثر بدمعاشوں سے سابقہ پیش آتا ہے۔ ملوکیت میں بھی چند ایک اچھے
بادشاہ گزرے ہیں ۔ یہ تحقیق کا موضوع ہے کہ کس نظام میں اچھے بروں کا تناسب
کیا رہا ہے؟
جمہوریت میں عوام کو مقتدر اعلیٰ اس لیے سمجھا جاتا ہے کہ ایک فرد سے تو
بھول چوک ہوسکتی ہے مگر جمہور غلطی نہیں کرسکتے ۔ یہاں پر مسئلہ یہ ہے کہ
سارے لوگ ہر معاملے میں بلکہ حکمراں کو منتخب کرنے کی بابت بھی متفق نہیں
ہوسکتے ۔ امیت شاہ نے ۲۰۲۴ میں بی جے پی کے لیے ۳۳۳ کا ہدف رکھا ہے یعنی
۲۲۰ارکان غیر بی جے پی کے ہوں گے اور تقریباً ۲۰۰ یوپی اے کے مخالفین ہوں
گے ۔ ایسے میں اکثریت پر اکتفاء کرنا پڑتا ہے۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ کیا
اکثریت سے غلطی نہیں کرسکتی ۔ کرناٹک کے نتائج بتاتے ہیں کہ وہاں کے لوگوں
نے ایک ہی وقت میں دو متضاد فیصلے سنائے اس لیے دونوں تودرست نہیں ہوسکتے ۔
یہ دلیل بھی صحیح نہیں ہے کہ جس جماعت کےلوگ مقامی سطح پر نااہل ہیں وہ
قومی مسائل کو ہر کرلیں گے یا چونکہ مرکزمیں نریندرمودی ہیں اس لیے سارے
مسائل حل ہوجائیں گے۔ ایسے میں انتخاب کے بعد جمہوریت اور ملوکیت کی شخصیت
پرستی میں فرق ہی کیا رہ جاتا ہے؟ بات دراصل یہ ہے کہ عوام کنفیوز ہیں۔ وہ
کبھی کچھ تو کبھی کچھ فیصلے سناتے ہیں نیز میڈیا کی مدد سے انہیں بہ آسانی
ورغلایا جاسکتا ہے۔ ایسے میں الہامی ہدایات کو پسِ پشت ڈال کر حرام و حلال
یا حق و باطل طے کرنے کی ذمہ داری عوام کو یا اس کے نمائندوں کو سونپ
دیناغیر دانشمندی ہے؟ یہ سوال افراد کی نہیں بلکہ فکر کی تبدیلی کا مطالبہ
کرتا ہے اور اقتدار اعلیٰ کے مقام بلند سے جمہور کو ہٹا کر رب کائنات کو
فائز کرنے کی دعوت دیتا ہے۔ |