ایک ایسے وقت میں جبکہ ہندوستان کی جی ڈی پی پچھلے پانچ
سالوں میں سب سے کم اور بیروزگاری گزشتہ ۴۵ سالوں میں سب سے زیادہ ہوچکی
ہےٹرمپ انتظامیہ نےنئی مودی سرکار کو ایک حیرت انگیز تحفہ دے کر چونکا دیا
ہے۔ دنیا کے جن سربراہان کے درمیان غیر معمولی مشابہت پائی جاتی ہے ان میں
سے وزیراعظم نریندر مودی اور امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کی رام ملائی جوڑی ہے
مگر فطرت کا قانون ہے کہ کشش تو مخالف قطب کے درمیان ہی ہوتی ہے۔ یہی وجہ
ہے کہ دوسری بار اقتدار سنبھالنے کے بعد مودی جی کو سب بڑاجھٹکا ان کی
قریبی دوست ٹرمپ نے دے دیا ۔ انہوں نے ۵ جون سے ہندوستان کے خصوصی’ٹیکس
فری‘درجہ کو ختم کر نے کا اعلان کردیا ۔ امریکی کانگریس (پارلیمنٹ) کو ایک
خط میں ٹرمپ نےلکھا کہ ’’میں عمو می ترجیحاتی نظام (جی ایس پی) پروگرام کے
تحت ترقی پذیر ملک کے طور پر ہندوستان کو حاصل درجہ ختم کرنے کی ا طلاع دے
رہا ہوں۔ یہ قدم اس لیے اٹھا رہا ہوں ،کیونکہ امریکہ اور ہند ستان حکومت کے
درمیان مضبوط تعلقات کے باوجود میں نے یہ محسوس کیا ہے کہ ہندوستان نے
امریکہ کو اپنے بازاروں میں منصفانہ اور مناسب رسائی فراہم کرنے کی یقین
دہانی نہیں کرائی ‘‘۔
ٹرمپ نے یہی سلوک ترکی کے ساتھ بھی کیا لیکن اس کی وجہ اقتصادی ترقی بتائی
گئی ہے یعنی اب ترکی کا شمار ترقی پذیر کے بجائے ترقی یافتہ ممالک میں ہوگا
اس لیے اس کو اس سہولت سے محروم ہونا پڑے گا۔ ایک معنیٰ میں ترکی کے لیے یہ
خبر باعثِ اعزاز ہے۔ ویسے بھی امریکہ کے ساتھ اس کے تعلقات سرد گرم رہے ہیں
جبکہ مودی جی کی قیادت میں ہندوستان اور امریکہ بالکل شیرو شکر بنے ہوئے
ہیں ۔انتخابی مہم کے دوران ڈونالڈ ٹرمپ کی مسلم دشمنی نے انہیں سنگھ پریوار
کی آنکھوں کا تارہ بنا دیا تھایہاں تک کہ سنگھ سیوک اس کا بت بناکر آرتی
اتارنے لگے تھے۔ نومبر ۲۰۱۶ میں ٹرمپ کے صدر منتخب ہونے پر نریندر مودی نے
ٹویٹر پر مبارکبادینے کے بعد لکھا ’’وہ دونوں ممالک کے تعلقات كو نئی
بلندیوں پر لے جانے کے لئے مسٹر ٹرمپ کے ساتھ کام کرنے کے خواہاں ہیں
اورانتخابی مہم کے دوران ہندوستان کے ساتھ دوستی مضبوط بنانے کا عزم ظاہر
کرنے کے لئے ان کی تحسین کرتے ہیں"۔ کسے پتہ تھا کہ بہت جلد یہ بلندی پستی
میں بدل جائے گی ۔ بہتر ہوتا کہ اس وقت صدر ٹرمپ سے وزیراعظم مودی کہہ
دیتے؎
مجھے چھوڑ دے مرے حال پر ،ترا کیا بھروسہ ہے چارہ گر
یہ تری نوازش مختصر مرا درد اور بڑھا نہ دے
مودی کے دوبارہ انتخاب جیتنے پر ٹرمپ نے مبارکباد لوٹاتے ہوئے لکھا کہ مودی
اور بی جے پی کو عظیم فتح مبارک ہو ۔ پی ایم مودی کے دوبارہ اقتدار
سنبھالنے سے امریکہ ہند اشتراک میں عظیم امکانات روشن ہوئے ہیں۔ہم آگے بھی
مل جل اس اہم کام کو آگے بڑھانے کا عزم کرتے ہیں۔ اب کوئی ٹرمپ سے پوچھے
کہ کیا اشتراک عمل کو خصوصی درجہ منسوخ کرکے آگے بڑھایا جاتا ہے؟ ویسے
ٹرمپ کا ذہنی توازن ہمیشہ ہی مشکوک رہا ہے۔ انہوں نے تو ۲۰۱۷ میں مودی جی
کو چار صوبوں میں کامیابی پر مضحکہ خیز مبارکباد دے دی تھی جبکہ بین
الاقوامی امور سے اس کا کوئی تعلق نہیں تھا۔ پچھلے سال اگست میں امریکی
انتطامیہ نےچین کے خلاف لام بندی کرتے ہوئے ہندوستان کو ایس ٹی اے ،فہرست
میں شامل کرلیا تھا ۔ یہ اس بات کا اعتراف تھا کہ ہندوستان این ایس جی کے
اصول وضوابط پر عمل پیرا ہے۔ اس سے ہندوستان کے لیے امریکہ سے اعلیٰ ترین
ٹیکنالوجی اور اس کی تیار کردہ مصنوعات درآمد کرنے کی راہ ہموار ہوگئی ۔
ہندوستان واحد ایٹمی ملک تھا جسے یہ اعزاز بخشا گیا جبکہ اسرائیل بھی ہنوز
اس سے محروم ہے۔ اس طرح نیٹو سے باہر جاپان اور جنوبی کوریا کے بعد
ہندوستان کو ایک ممتاز مقام مل گیا۔ کو حاصل کرنے والا تیسرا ملک بن گیا
اور ہند امریکہ تعلقات بامِ عروج پر پہنچ گئے۔ ان تعلقات کو نظر بد سے
بچانے کے لیے کلیم عاجز کا یہ شعر پڑھا گیا؎
تب و تاب عشق کا ہے کرم کہ جمی ہے محفل چشمِ نم
ذرا دیکھیو اے ہوائے غم یہ چراغ کوئی بجھا نہ دے
۲۰۱۷ میں اقتدار سنبھالنے کے بعد ٹرمپ نے کناڈا، میکسیکو، اسرائیل
اورمصرکے بعد مودی جی کو فون پر گفتگو کا شرف بخشا۔ انہوں نے بھارت کو سچا
دوست اور شریک کار قرار دیتے ہوئے دہشت گردی کے خلاف جنگ اور اقتصادی تعاون
کو بہتر بنانے کے سلسلے میں ایک دوسرے کے دوش بہ دوش کھڑے ر ہنے کا عہد
کیا۔اسی کے ساتھ باہمی اقتصادی اور دفاعی شعبوں میں شراکت داری کو مستحکم
بنانےپر تبادلہ خیال کیا۔اس سے خوش ہوکر مودی جی ٹرمپ کو دورے کی دعوت دے
دی۔ مودی جی کو امید تھی کہ۲۰۱۸ میں ٹرمپ یوم جمہوریہ کی پریڈ میں شرکت
کریں گے لیکن انہوں نے مصروفیت کا بہانہ بناکر انکار کردیا ۔ اس پر معروف
صحافی ناگیندر شرما نے ٹویٹ کیا کہ 'کیا آزاد ہندوستان میں ایسی کوئی مثال
ملتی ہے جب ہماری حکومت نے فخریہ انداز میں یوم جمہوریہ کے مہمان خصوصی کا
نام لیک کیا ہو اور اس نےدعوت کو ٹھکرا کر ذلیل کیا ہو؟''آور ٹائم ہیز کم'
نامی کتاب کی مصنف الیسا آئرس نے لکھا کہ 'ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ٹرمپ یوم
جمہوریہ کی دعوت کی اہمیت کو نہیں سمجھتے ۔'ولسر سینٹر کے ڈائریکٹر مائیکل
نے ٹویٹ کیا 'ٹرمپ نے باوقار دعوت کو ٹھکرا دیا۔ اس سے باہمی رشتے کو ایک
اور دھچکہ لگا ۔'ناول نگار کرشن پرتاپ سنگھ نے لکھا: 'یہ منہ پر زور دار
تھپڑ ہے‘۔
ہندوستان اور امریکہ کے باہمی تعلقات میں سرد مہری کی دو بنیادی وجوہات ہیں
۔ پہلی یہ کہ روس کے ساتھ میزائل سسٹم کا سمجھوتہ کرنے سےامریکہ نے
ہندوستان کو منع کیا تھا لیکن صدر پوتن کے ہندوستانی دورے پر پانچ ایس ،
۴۰۰ میزائل نظام کا معاہدہ ہوگیا ۔ رشتوں کے درمیان یہ پہلی دراڑ تھی ۔ اس
کے علاوہ ایران پر امریکی پابندیوں کے بعد بھی امریکہ نے ایران سے تیل نہ
خریدنے کی خاطر دباؤ بنایا لیکن وہ کارگر ثابت نہیں ہوا ۔ ایران سے
ہندوستان بدستور تیل خریدتا رہا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ہندوستان کو جی
ایس پی سے محروم ہونا پڑا۔ حکومت ہند نے ٹرمپ انتظامیہ کے اس فیصلے کو
’افسوس ناک‘ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ وہ ہمیشہ اپنے قومی مفادات پیش نظر
رکھے گا۔ایسی کسی حیثیت کے خاتمے کے لیے عام طور پر دو ماہ کا نوٹس درکار
ہوتا ہے۔ اس لیے فیصلہ تو اپریل کے اوائل میں کردیا گیا تھالیکن انتخاب کو
اس کے منفی اثرات سے بچانے کے لیے اس کو صیغۂ راز میں رکھا گیا اور اب اس
کا اعلان کردیا گیا۔
ہندوستانی وزارت تجارت نے اپنے بیان میں یہ بھی کہا ہے کہ ''امریکہ کے ساتھ
دوطرفہ تجارتی مذاکرات میں بھارت نے واشنگٹن کو یہ پیشکش کی ہے کہ وہ اہم
معاملات میں باہمی اختلاف رائے ختم کرنے پر رضامندہے، تاکہ ان معاملات
کاقابل قبول حل نکالا جا سکے‘‘۔ ویسے بھارت امریکہ سے درآمد کی جانے والی
بیس سے زائد مصنوعات پر درآمدی محصولات بڑھا نے پر بھی غور کر رہا ہے ۔ یہ
فیصلہ بہت آسان نہیں ہوگاکیونکہ جی ایس پی کا مقصد ترقی پذیر ممالک میں
اقتصادی ترقی کی رفتار کو بڑھانا ہے۔ اس ترجیحی حیثیت کے تحت امریکہ جی ایس
پی میں شامل ممالک سے ۲ ہزار سے زائد صنعتی اور ٹیکسٹائل مصنوعات پر درآمدی
ٹیکس عائد نہیں کرتا۔ اس کے منسوخ ہوجانے سے ظاہر ہےکی بھارت کو بہت زیادہ
مالی نقصان ہوگا ۔ایک ایسے وقت میں جبکہ جنوبی ایشیائی ملک میں اقتصادی
ترقی کی شرح ہونے کے سبب روز گار کے مواقع کم ہورہے ہیں یہ بہت بڑی مصیبت
بن سکتا ہے۔ نوٹ بندی اور جی ایس ٹی کی مار سے ابھرنے کی سعی کرنے والے
چھوٹے اور درمیانے درجے کے صنعتی اداروں کی برآمدات پر اس کا یقیناً منفی
اثر پڑے گا ۔
نریندر مودی حکومت کے سامنے فی الحال کوئی سیاسی چیلنج نہیں ہے مگر اقتصادی
مورچے پر اسے بہت کچھ کرکے دکھانا ہوگا کیونکہ ۲۰۱۸ کی چوتھی سہ ماہی میں
اقتصادی شرح نمو گھٹ کر ۵ عشاریہ ۹ فیصدپرپہنچ گئی جو پچھلے پانچ سال میں
سب سےنچلی سطح پر ہےجس کےسبب ہندوستان اقتصادی مورچے پر چین سے پیچھے
ہوگیا۔سی ایس او کےمطابق ۲۰۱۸ اور ۲۰۱۹ کے مالی سال کی اوسط جی ڈی پی کی
شرح نمو ۶ عشاریہ ۸ پر رہی جو سال ۲۰۱۱ تا ۲۰۱۲ کے برابر ہے۔ اس سےپہلے
والے مالی سال میں جی ڈی پی شرح نمو ۷ عشاریہ ۲ فیصد تھی۔ماہِ اپریل میں
جبکہ جمہوریت کا جشن بپا تھا آٹھ بنیادی صنعتوں میں بھی شرح نمو صرف ۲
عشاریہ ۶ فیصد پر آخر رک گئی۔ مالی سال ۲۰۱۸ تا ۲۰۱۹ کے لئےسرکاری
خزانےکا خسارہ جی ڈی پی کا ۳ عشاریہ ۳۹ فیصد رہا جوتوقع کے مطابق تھا ۔ویسے
اقتصادی تیزی کا امکان جون کے بعد ہی ہے۔
معاشی بدحالی کا براہ راست اثر روزگار کے مواقع پر پڑتا ہے۔ قومی انتخاب سے
قبل بےروزگاری سےمتعلق اعداد و شمار ظاہر ہوئے تو ہنگامہ مچ گیا لیکن حکومت
نے اس کی تردید کرکے معاملہ رفع دفع کردیالیکن مرغے کی اماں کب تک خیر
مناتی بالآخر اس کی تصدیق ہو گئی۔پی ایل ایف ایس کی رپورٹ کے مطابق جولائی
۲۰۱۷ سے جون ۲۰۱۸ کے درمیان بےروزگاری شرح پچھلے ۴۵ سالوں میں سب سے
زیادہ تھی ۔۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق شہری علاقے میں روزگار کے اہل
نوجوانوں میں ۷ عشاریہ ۸ فیصد بےروزگار رہیں جبکہ دیہی علاقوں میں یہ تناسب
۵ عشاریہ ۳فیصد رہا۔ راہل گاندھی نے اس صورتحال کو ’قومی تباہی‘ قرار دیا
تھا لیکن دیش بھکتی کے نشے میں چور قوم اسے نظر انداز کردیا ۔ جیسے جیسے
نشہ اتر رہا روزگار کا بحران چہار جانب نظر آرہا ہے۔معروف اقتسادی دانشور
ہمانشو کےمطابق ملک کے اقتصادی دارالخلافہ کہلانے والےممبئی میں پی ایچ ڈی
افراد کا ویٹر بننا یا گجرات میں چند ہزار روپے کی نوکری کے لیے لاکھوں
افراد کا درخواست دینا یا ریلوے کی کچھ آسامیوں پر ایک کروڑ افراد کا لائن
میں لگ جانا اس مسئلہ کی سنگینی کابین ثبوت ہے‘۔این ڈی اے میں بی جے پی کے
بعد سب سے بڑی پارٹی شیوسینا کا کہنا ہے کہ مودی کی پچھلی حکومت دس کروڑ
نوکریاں پیدا کرنے میں ناکام رہی اس کے لیے کانگریس کے سابق وزیر اعظم
جواہر لعل نہرو یا اندرا گاندھی کو قصوروار نہیں ٹھہرایا جاسکتا۔ شیو سینا
کے ترجمان سامنا نے یہ بھی لکھا کہ محض لفظوں کے کھیل یا اشتہارات سے بڑھتی
بے روزگاری کا مدعا حل نہیں ہونے والا۔اقتصادی بحران کی اس آگ پر تیل
ڈالنے کاکام امریکہ کے ڈونالڈ ٹرمپ کررہے ہیں ۔ وزیراعظم مودی کی حالت پر
شکیل بدایونی کا یہ شعر(ترتیب کی ترمیم کے ساتھ) صادق آتا ہے؎
مرے ہم نفس مرے ہمنوا مجھے دوست بن کے دغا نہ دے
مجھے ڈر ہے اے مرے چارہ گر یہ چراغ تو ہی بجھا نہ دے
|