اسرائیلی وزیر اعظم بن یامین نیتن یاہو نے سب سے پہلے
مودی جی کو کامیابی کی مبارکباد روانہ کی ۔ انہیں توقع رہی ہوگی کہ مودی
این ڈی اے کے فاضل ارکان اسرائیل روانہ کردیں گے اس طرح وہ بھی حکومت سازی
میں کامیاب ہوجائیں گے لیکن ابھی عالمی جمہوری نظام نے اس قدر ترقی نہیں کہ
ارکان پارلیمان کے بھی دیگر مال و اسباب کی مانند درآمد و برآمد ممکن
ہوسکے۔ اس میں شک نہیں کہ نوٹ کے بل پر ووٹ حاصل کرنے والے سیاسی رہنماوں
کی حیثیت ’متاع کوچہ و بازار‘ سے زیادہ نہیں ہے۔ مقامی سیاسی منڈی میں جب
ان کی سرِ عام نیلامی ہوتی ہے تو عالمی بازار کے اندر کیا قباحت ہے خیر۔
یاہو کی جماعت 'لیکوڈ نے' ۹ اپریل ۲۰۱۹ کو منعقد ہونے والےپارلیمانی
انتخابات میں گزشتہ مرتبہ کی بہ نسبت ۲۰ فیصد زیادہ نشستوں پر کامیابی حاصل
کی ۔ اس کے باوجود ڈیڑھ ماہ کی اٹھا پٹخ کے بعد وہ پانچویں بار وزیراعظم
بننے میں ناکام رہے اور ان پر قائم چاندپوری کا یہ شعر صادق آگیا ؎
قسمت تو دیکھ ٹوٹی ہے جا کر کہاں کمند
کچھ دُور اپنے ہاتھ سے جب بام رہ گیا
اسرائیل میں کل ۱۲۰ ارکان پارلیمان ہیں ۔ انتخابات میں حزب اختلاف بلیو
وائٹ محاذ کو ۳۵ حلقوں میں کامیابی ملی جبکہ بن یامین نیتن یاہو کی
لیکودپارٹی نے ۳۶ نشستوں پر جیت درج کرائی۔ ان کی حامی انتہائی دائیں
بازوکی جماعتوں کے ۶۵ ارکان کامیاب ہوئے اس لیے یاہو کے دوبارہ اقتدار
سنبھالنے کے امکانات روشن تھے۔ اس کامیابی میں یروشلم کے اندر امریکی
سفارتخانے کی منتقلی کا بڑا حصہ تھا جس کو یاہو نے انتخابی مہم میں اسی طرح
بھنایا جیسے مودی جی نے بالا کوٹ کے ائیر اسٹرائیک کا استعمال کیا۔ انتخاب
جیت لینے کے باوجود حکومت سازی میں ناکامی کی وجہ سابق وزیر دفاع اور شدت
پسند سیاست دان آوی گیڈور لائبرمین' کی جماعت 'یسرائیل بیتنا' کے ذریعہ پیش
کی جانے والی ناقابل ِتسلیم شرائط تھیں ۔ اسرائیل میں فوج کے اندر محدود
مدت کے لیے شرکت لازم ہے ۔ لائیبرمین حریدیم مذہبی یہودیوں کی خاطر اس
معاملے میں استثناء چاہتے تھے۔ یاہو نےاس موقف کو تسلیم کرنے سے انکار
کردیا تو لائبرمین نے حمایت سے منہ پھیر لیا اور دیگر حلیفوں نے بھی نیتن
یاہو کو منہ نہیں لگایا ۔
نیتنیاہو اور لائبرمین کے درمیان دوسرا تنازع غزہ کی پٹی کو لے کر تھا۔
لائبرمین غزہ میں فلسطینی مزاحمت کاروںکے خلاف سختی برتنے اور ان کو آہنی
ہاتھوں سے نمٹنے پر اصرار کررہے تھے جبکہ یاہو حماس کی حربی صلاحیت کے پیش
نظر احتیاط کے قائل ہیں ۔ اس میں شک نہیں کہ اسرائیلی ریاست جنگی وسائل سے
لیس ہے مگر چونکہ یہودی قوم موت سے بے حد خوفزدہ ہے اس لیے نہیں چاہتی کہ
جنگ میں اس کا ایک بھی فوج فوت ہو۔ غزہ سے جنگ چھیڑ کر اسرائیلی فوجیوں اور
یہودی آباد کاروں کی کی زندگیوں کو خطرے میں ڈالنے سے ملنے والی ناراضگی کا
نیتنیاہو کو خوف ہے۔ اس کے برعکس لائبرمین غزہ پر ایک اور جنگ مسلط کرنے کا
مطالبہ کر رہے ہیں۔ اس کے علاوہ نیتن یاہو کے خلاف بدعنوانی کے الزامات بھی
ان کے گلے کی ہڈی بنے ہوئے ہیں ۔ اس سال فروری میں نیتن یاہوکے خلاف ،
دھوکہ دہی اور رشوت خوری کےتین مقدمات میں فرد جرم عائد ہوچکی ہے۔ اس کو لے
کر ۸۰ ہزار لوگ سڑکوں پر اتر کر احتجاج کر چکے ہیں۔ حکومت کی تشکیل میں
ناکامی کے بعد ایک ہی محاذ کی دو نوں بڑی جماعتوں ایک دوسرے پر حکومت سازی
میں رکاوٹ ڈالنے کا الزام عائد کیا جس سے آئندہ ستمبر کے الیکشن میں اتحاد
کا امکان بھی ختم ہوگیا ۔اس طرح اسرائیل کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ہے
پارلیمانی انتخاب کے بعد دو ماہ سے بھی کم عرصے میں حکومت تحلیل کردی گئی ۔جمہوریت
کو اقتدار کی منتقلی کا سب سے موثر طریقہ سمجھنے والوں کے لیے مشرق وسطیٰ
کی اس نام نہاد جمہوری حکومت کی پسپائی میں درسِ عبرت ہے۔
نیتن یاہو کی اس قابلِ رحم حالت پر انگریزی میں ادب اطفال کی نظم ’ہمپٹی
ڈمپٹی‘ یاد آ جاتی ہے۔ انگریزی ادب میں اسے ’لب پہ آتی ہے دعا‘ جیسی
مقبولیت حاصل ہے۔ ۷۰ سے زائد ممالک کے اندر یہ نظم بچوں کو مدارس میں
پڑھائی جاتی ہے اور ۲۵ ممالک میں اس کاترجمہ کرکے نصاب میں شامل کیا گیا۔
اس شہرہ آفاق نظم کا ترجمہ اس طرح کیا گیا ہے کہ :
ہمپٹی ڈمپٹی ایک دیوار پر بیٹھا تھا
ہمپٹی ڈمپٹی بہت زور سے گرا(ٹوٹ گیا)
بادشاہ کے تمام گھوڑے اور تمام کارندے بھی مل کر
ہمپٹی ڈمپٹی کو جوڑ کر پہلے جیسا نہیں کرسکے
ہمپٹی ڈمپٹی ویسے تو ایک پہیلی کے صورت وارد ہوا لیکن وقت کے ساتھ اس نے
کئی روپ دھار لیے ۔ انگریزی ادب میں اس پر بڑی تحقیقی ہوئی کہ وہ کون ہے؟
انسانی کردار ہےیا جیسا کہ تصویر میں نظر آنے والا ایک انڈا ہے؟وہ قلعہ کی
فصیل سے گرا یا انا دیوار سے؟ ایک دلچسپ سوال یہ بھی ہے کہ آخر وہ دیوار
پر چڑھ کیسے گیا؟ نیز اس کے گرنے کا سبب کیا بنا؟ لوگ ’ہمپٹی ڈمپٹی‘ اس توپ
سے بھی منسوب کرتے ہیں جسے بغاوت کو کچلنے کے شہر کی فصیل پر چڑھایا گیا
لیکن جب فصیل ڈھائے جانے کے بعد وہ توپ گر کر ایسے ٹوٹی کہ پھر ہزار کوشش
کے بعد بھی اسے جوڑا نہ جاسکا۔ ہمپٹی ڈمپٹی کو برطانیہ کا شاہ رچرڈ سوئم کی
علامت بھی سمجھا جاتا ہے جو اپنی زبردست فوج کے باوجود بری طرح شکست کھا
گیا تھا۔ خیر وہ کردار جو بھی تھا فی الحال وہ علامت نیتن یاہو اور اسرائیل
پر ہو بہوچسپاں ہو رہی ہے۔ غاصب صہیو نی ریاست کا کل وہی انجام ہوگاجویاہو
کاجو حشر آج یاہوکاہوا ہے ۔ جس طرحانتہائی دائیں بازوکی جماعتیں انا دیوار
سے گر کر پاش پاش ہوجا نے والے یاہو کا اقتدار نہیں بچا سکیں اسی طرح
امریکہ بہادر اور سارے چیلے چاپڑ اسے مجتمع نہیں کرسکیں گے ۔ اس وقت راندۂ
درگاہ صہیونی رہنما جون ایلیا کے انداز میں سوال کریں گے ؎
میں اس دیوار پر چڑھ تو گیا ہوں
اتارے کون اب دیوار پر سے؟
|