کیا جسٹس ڈوگر معافی کے حقدار تھے؟

سپریم کورٹ نے پی سی او چیف جسٹس عبدالحمید ڈوگر کی معافی قبول کرتے ہوئے ان کے خلاف توہین عدالت کی کاروائی روک دی ہے اور ڈوگر صاحب کو معاف کردیا ہے۔ چند دن قبل عبدالحمید ڈوگر نے سپریم کورٹ سے استدعا کی تھی کہ 2 نومبر 2007ء کو پرویز مشرف سے پی سی او چیف جسٹس کا حلف لینا ان کی غلطی تھی اور ایسا لاعلمی کی وجہ سے ہوا کیونکہ ان تک سپریم کورٹ کے سات رکنی بنچ کا دو نومبر کا حکمنامہ نہیں پہنچا تھا اور اسی وجہ سے وہ لاعلمی کی بنیاد پر پی سی او کا حلف اٹھا بیٹھے، چنانچہ ان کا معافی نامہ قبول کرتے ہوئے ان کو معاف کردیا جائے اور ان کے خلاف توہین عدالت کا نوٹس واپس لے لیا جائے جس پر عدالت عظمیٰ کے بنچ، جو جناب چیف جسٹس صاحب کی سربراہی میں قائم تھا، نے جسٹس ڈوگر کو معافی دیدی اور ان کے خلاف توہین عدالت کا نوٹس واپس لے لیا۔

عدلیہ بحالی تحریک کے دوران وکلاء اور معزول ججز (بشمول چیف جسٹس صاحب) اکثر جنرل مشرف کے ساتھ ساتھ جسٹس ڈوگر کو بھی سخت تنقید کا نشانہ بنایا کرتے تھے، پاکستان کی دو تین سیاسی جماعتوں کو چھوڑ کر پورے پاکستان میں کسی نے بھی جسٹس ڈوگر کی عدالت کو تسلیم نہیں کیا تھا حتیٰ کہ مشرف کی رخصتی کے بعد بھی لوگ انہیں مشرف کی باقیات میں سے سمجھا کرتے تھے۔ اس دور میں جتنے غیر آئینی افعال کئے گئے ان میں جنرل مشرف اور ان کے حواریوں کے ساتھ جسٹس ڈوگر بھی شامل تھے کیونکہ انہوں نے پی سی او کا حلف لے کر نہ صرف آئین کی صریح خلاف ورزی کی تھی بلکہ سپریم کورٹ کے سات رکنی بنچ کا فیصلہ بھی ہوا میں اڑا دیا تھا، اسے ایک ٹشو پیپر سے بھی زیادہ اہمیت نہیں دی تھی۔ اگر جنرل مشرف غیر آئینی اور غیر قانونی احکامات صادر کرنے اور پاکستان کو تباہی کے دھانے پر پہنچانے میں کامیاب ہوسکا تو اس میں یقیناً جسٹس ڈوگر کا بھی ایک ”معقول“ حصہ تھا۔ اگر جسٹس ڈوگر اس وقت مشرف کو بیساکھیاں فراہم نہ کرتے تو مشرف پاکستان کا یہ حال نہ کر پاتا اور اسی وقت باوردی ہونے کی وجہ سے نااہل قرار پا جاتا لیکن یہ پاکستان کی بدقسمتی تھی کہ اس وقت جسٹس ڈوگر نے اس بغاوت کو اپنے کندھے پیش کئے جس کی بناء پر پاکستان میں وہ کچھ ہوا جس کی مثال موجودہ دنیا میں شائد ہی مل سکے۔ عوام سپریم کورٹ سے یہ سوال پوچھنے میں حق بجانب ہیں کہ اگر جنرل مشرف کے خلاف آرٹیکل 6 کا مقدمہ چلانے کی باتیں ابھی تک ہورہی ہیں تو جسٹس ڈوگر کو کیوں معاف کردیا گیا، صرف اس لئے کہ وہ ججوں کی برادری سے تعلق رکھتے ہیں؟

معافی یقیناً ایک اچھا عمل ہے لیکن کیا قومیں اپنے مجرموں کو ایسے ہی معاف کردیا کرتی ہیں؟ اگر معافی ہی دینی تھی تو توہین عدالت کی کاروائی شروع کرنے کا اور اتنا وقت ضائع کرنے کی کیا منطق تھی؟ کیا صرف سپریم کورٹ کی بالادستی قائم کرنا مقصود تھا یا اخلاقیات اور آئین کی بھی کوئی بات پیش نظر تھی؟ اگر جسٹس ڈوگر معافی کے حقدار ہیں تو باقی ججوں کا کیا قصور ہے؟ ججز، وکلاء اور پاکستان کے عوام کی ان قربانیوں کا کیا ہوا جو اس دور استبداد میں دی گئی تھیں، کیا ان وکلاء کا لہو اور جانیں اتنی ہی ارزاں تھیں جنہیں کراچی کے طاہر پلازہ میں دن دیہاڑے شہید کردیا گیا، کیا ساہیوال کے وکلاء کو آگ لگانے ، لاہور ہائی کورٹ میں وکلاء پر بکتر بند گاڑیوں کے ذریعے آنسو گیس کا بے دریغ استعمال اور ان پر تاریخ کا بدترین تشدد جسٹس ڈوگر کی مرضی کے بغیر کیا گیا تھا، کیا بارہ مئی کے واقعات اور قتل عام کی ذمہ داری جسٹس ڈوگر پر بھی عائد نہیں ہوتی؟کیا پاکستان کا ایک بچہ بھی اس بات پر ایمان لا سکتا ہے کہ جسٹس ڈوگر،سپریم کورٹ کے احکامات اور حکم امتناعی سے لاعلم تھے اور انہیں یہ معلوم ہی نہیں تھا کہ سپریم کورٹ نے ایسا کوئی حکم جاری کردیا ہے جبکہ اس وقت میڈیا پر پل پل کی خبریں چل رہی تھیں، اگر بلفرض محال یہ مان بھی لیا جائے کہ جسٹس ڈوگر کو سپریم کورٹ کے احکامات کا بروقت علم نہیں ہوسکا تھا تو کیا انہوں نے آئین اور اس کا آرٹیکل 6 نہیں پڑھا ہوا تھا؟

اگر آزاد عدلیہ اس طرح کی ہی ہونی تھی، اگر وکلا، ججز اور عوام کی قربانیوں کے صلہ میں بحال ہونے والی عدلیہ ایسی ہی ہونی چاہئے تو مجھے معاف کردیجئے کہ شائد میں نے اس تحریک میں شامل ہوکر گناہ کا ارتکاب کیا تھا، اس سے تو اچھا تھا کہ عدلیہ آزاد نہ ہوتی، بے حال ہی رہتی تاکہ مجھ سمیت سارے پاکستان کے عوام کو اس سے اچھائی کی امیدیں اور توقعات تو نہ ہوتیں۔ اب ان وکیلوں کے چہروں کی چمک دمک میں اور اضافہ ہوگیا ہے جو اس وقت جسٹس ڈوگر کے ساتھ کھڑے تھے اور وہ وکیل جنہوں نے بے شمار قربانیاں اس لئے دی تھیں کہ جنرل مشرف کے ساتھ اس کے حواریوں کو بھی عدالت کے کٹہرے میں کھڑا کیا جائے گا اور انہیں ان کے جرائم کی کڑی سزا بھی دی جائے، وہ وکیل آج شرمندہ ہیں، اپنے آپ سے اور خصوصاً ان لوگوں سے منہ چھپائے پھرتے ہیں جو عدلیہ کی بحالی اور آزادی کے خلاف صف آراء تھے۔اگر جسٹس ڈوگر جیسے شخص کو معافی مل سکتی ہے تو پاکستان بھر کی جیلوں میں قید اور حوالات میں بند لوگ انتہائی پاکباز ہیں، ان کو ایک سیکنڈ بھی مزید قید میں نہیں رکھنا چاہئے اور فی الفور باعزت طور پر رہا کردینا چاہئے، نہ صرف پاکستانی قیدیوں کو بلکہ ریمنڈ ڈیوس کو بھی از خود معافی دے کر باعزت طور پر رہا کردینا چاہئے، سینیٹر جان کیری بھی تو ریمنڈ ڈیوس اور امریکہ کی جانب سے معذرت کرچکا ہے۔ جس طرح وکیل اپنی جانوں سے گئے، جس طرح بارہ مئی کو خون کی ہولی کھیلی گئی، جس طرح سرعام وکلاء اور عام لوگوں کو مارا پیٹا گیا اور لہو لہان کیا گیا کیا ان جرائم میں جسٹس ڈوگر شامل نہیں رہے؟ اور اب ان جرائم کے مرتکب افراد کو معافیاں ملنا شروع ہوگئی ہیں، اسی طرح عوام ریمنڈ ڈیوس کے عمل کو بھی ایک غلطی اور اس کی لاعلمی سمجھ لیں گے کہ شائد اس کے بھی علم میں نہیں تھا کہ اس کی فائرنگ سے جاں بحق ہونے والے انسان ہیں، شائد وہ نہیں جانتا تھا کہ اس کو سفارتی استثنیٰ حاصل نہیں ہے....! سپریم کورٹ نے تو جسٹس ڈوگر کو معاف کردیا لیکن کیا ماریں کھانے اور قیدو بند کی صعوبتیں برداشت کرنے والے وکلاء اور شہید ہونے والوں کے لواحقین کسی کو معافی دے سکیں گے؟ شائد، بلکہ یقیناً نہیں، ان کی فریاد ”اوپر“ پہنچ چکی ہے، انہوں نے اللہ کے رجسٹر میں ”ایف آئی آر“ کٹوا دی ہے، انہیں یقین ہے کہ اگر زمین پر موجود عدالتیں عدل وانصاف نہیں کریں گی تو اللہ کی عدالت ضرور کرے گی، اللہ کبھی کسی کے ساتھ بے عدلی اور بے انصافی نہیں کرتا۔
Mudassar Faizi
About the Author: Mudassar Faizi Read More Articles by Mudassar Faizi: 212 Articles with 207462 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.