وزیر اعظم نے کہا ہے کہ ڈی جی
ایف آئی اے کو فوری طور پر نہیں ہٹا سکتے ۔ اور بھی بہت کچھ ارشاد فرمایا ،
ذرا وہ بھی سن لیجئے ! ( لیکن صرف اسی قدر ، جس قدر موضوع زیر بحث سے متعلق
ہے ) وزیر اعظم نے ۶ ایڈ ہاک ججوں کے حوالے سے حکومتی مؤقف کا بھی دفاع کیا
اور کہا کہ پارلیمنٹ کے سوا کسی ادارے کو آئین دوبارہ لکھنے ( ترمیم کرنے )
کا کوئی اختیار حاصل نہیں ہے ، حکومت کا اس حوالے سے موقف بالکل واضح ہے ،
آئین میں تمام اداروں کا دائرہ کار متعین ہے اور تمام ادارے اپنی آئینی
حدود میں رہ کر کام کرنے کے پابند ہیں ۔۔۔ گفتگو میں ہمارے آئین دان ( ہمہ
دان ہونا اور بات ہے ، کیونکہ گیلانی صاحب نے ابھی تک ہمہ دانی کا کوئی
دعویٰ نہیں کیا ) وزیر اعظم نے اصل میں آئین لکھنے کے الفاظ استعمال کئے
تھے اس لئے بعض اخبارات میں یوں بھی رپورٹنگ ہوئی ہے ، اب آئین سے واقف
وزیر اعظم سے کچھ کہنا ، سورج کو چراغ دکھانے کے مترادف ہے لیکن خاموش رہنا
تو بھی مجرمانہ خاموشی ہوگی ۔
وزیر اعظم کی گفتگو کیا ہے ؟
دمادم مست قلندر !
آئیے ، وزیر اعظم کے الفاظ کا مطلب ( جن کا کوئی مطلب ماسوائے اس کے جو
الفاظ سے ظاہر و باہر ہے ، نکل ہی نہیں سکتا ) نکالنے کی کوشش کرتے ہیں ۔۔
ہم بالکل شروع ہیں اپنی ناکامی اور شکست کا اعتراف کرتے ہیں ، وزیر اعظم کا
وہی مطلب ہے جو ان الفاظ سے ظاہر ہے ، البتہ سیاق و سباق میں یہ الفاظ یوں
ہوں گے کہ ا گر سپریم کورٹ نے ڈی جی ایف آئی اے کو ہٹانے کا حکم دیا ہے ،
تو بے شک دیتی رہے ، اس کا کام حکم دینا اور ہمارا کام ماننا یا نہ ماننا
ہے ، کس حکم کو ماننا ہے اور کس کو نہیں ماننا ، یہ فیصلہ کرنا ہمارا کام
ہے ، سپپریم کورٹ کا نہیں !
کیوں ؟
اس لئے کہ پارلیمنٹ کے سوا کسی ادارے کو آئین لکھنے کا اختیار نہیں ہے !
لیکن آئین لکھنے کے ساتھ ، سپریم کورٹ کے حکم کو ماننے نہ ماننے کا کیا
تعلق ؟
اس لئے کہ تمام اداروں کا دائرہ کار متعین ہے اور تمام ادارے اپنی آئینی
حدود میں رہ کر کام کرنے کے پابند ہیں ۔
تو سپریم کورٹ نے اپنے دائرہ کار میں رہ کر یہ کام نہیں کیا ؟
ارے بھئی کیا ہوگا ، ضرور کیا ہوگا ، لیکن انتظامیہ اور مقننہ کا اپنا
دائرہ کار ہے !
کوئی ہے جو ان دائرہ ہائے کا ر کی وضاحت کردے ؟
چلو ، ہم اس ضمن میں گیلانی صاحب یا کسی اور کو تکلیف نہیں دیتے ، یہ بوجھ
بھی ہم خود اٹھا لیتے ہیں ( اگرچہ بوجھ اٹھانے والا وزیر اور سب سے زیادہ
بوجھ اٹھانے والا وزیر اعظم ہوتا ہے )
ہم یہ کام ذرا ترتیب وار کریں گے ، پہلے ، مقننہ !
مقننہ ، آئین نہیں ، قانون بناتی ہے ۔ آئین سازی ، آئین ساز اسمبلی کا کام
ہے ، آئین روز روز نہیں لکھا جاتا اور نہ ہر روز اس میں ترمیم ہوتی ہے ۔
دستور ساز اسمبلی نے آئین میں جو لکھ دیا ، قانون ساز اسمبلی اسے ماننے کی
پابند ہے ، قانون ساز اسمبلی کسی ترمیم کے لئے دستور ساز اسمبلی کا روپ
نہیں دھارے گی کوئی ترمیم نہیں کرسکتی ۔۔۔۔ مقننہ کا یہ تو وہ کام یا دائرہ
ہے جو آئین نے متعین کیا ہے لیکن اپنے مخدوم صاحب کے ذہن میں جو دائرہ ہے
اور جس دائرے میں رہ کر مقننہ پاکستان بننے کے بعد سے لے کر اب تک کام کرتی
رہی ہے ، وہ یہ ہے کہ ( ۱ ) مقننہ ، آئین کی نہیں ، انتظامیہ ( یعنی حکومت
۔۔ اور حکومت بھی صرف فرد واحد کی ! ) کی مرضی کی پابند ہے ، ( ۲ ) اس کا
کام ہاتھ اٹھا کر حکمرانوں کی مرضی کے مطابق ہاں یا ناں کرنا ( ۳ ) بل کی
صورت میں پیش کئے جانے والے آرڈیننسوں پر بغیر دیکھے اور بغیر سوچے سمجھے
دستخط کرنا ہے ، اور ( ۴ ) قانون وہ ہے جو انتظامیہ ( فرد واحد ) کی مرضی
ہو اور مققنہ اسے ماننے اور قانون کا درجہ دینے کی پابند ہے ( ۵ ) قانون
میں فی الفور وہ ترمیم کردینا جو انتظامیہ کو سوٹ کرتی ہو ۔۔۔۔ اور ان
کارناموں کے عوض ، پانچ سال کے عرصے میں جو جی چاہے ، وہ کرنا اور کسی کو
خاطر میں نہ لانا ! ( اگر پاکستان بننے کے بعد سے لے کر اب تک اس ادارے نے
کوئی اور فرض بھی سرانجام دیا ہو تو مخدوم صاحب اپنی پہلی فرصت میں اس سے
ہمیں اور بےچاری قوم کو بھی آگاہ کریں ! )
انتظامیہ ۔۔ ایک فرد کی مرضی پر ناچنے والے مٹھی بھر افراد کا ایک ٹولہ ہے
جو یا تو جمہوریت کے نام پر عوام کو الو بنا کر اور یا ڈنڈے والے کے ڈنڈے
کے زور سے اقتدار میں آتے اور ہوتے ہیں ۔ سارے اختیارات کا اجتماع ان کی
ذات میں ہوتا ہے ۔ قانون کی مرضی کا اور مرضی سے ۔۔ قانون کا نفاذ ان کی
مرضی کے مطابق اور منظوری سے ۔۔ اور قانون کی تشریح ، ان کی ضرورت اور مفاد
کے مطابق !
آئین کے تحت یہ وہی پریکٹیکل دائرے ہیں جن میں رہتے ہوئے مقننہ ، انتظامیہ
اور عدلیہ کو کام کرنا چاہئیے ! ۔۔ اب مقننہ اور انتظامیہ تو یک جان دو
قالب ہیں اور قیام پاکستان کے بعد سے اب تک ( ماسوائے قائد اعظم کے مختصر
سے عرصے کے ) ایسا ہی رہا ہے ۔ ریاست کے تیسری ستون نے ان کی توقعات اور
خواہشات سے بڑھ کر ان کی خیر خواہی ، ہمدردی ، تابعداری بلکہ غلامی کی ہے ،
کبھی یہ مسئلہ ہی پیدا نہ ہوتا ہے کہ کسی ادارے کی حدود کہاں ختم ہوتی اور
دوسرے کی کہاں سے شروع ہوتی ہیں ، پاکستان کی تاریخ میں اگر ۹ مارچ تین
نومبر ۷۰۰۲ نہ آتے تو آج گیلانی صاحب کو کوئی مسئلہ ہی پیدا نہ ہوتا ۔۔ یہ
تینوں ادارے جن دائروں میں چل رہے تھے ، انہیں میں چلتے رہتے ، لیکن ایک
شخص کے حرف انکار نے ان دائروں کا مسئلہ پیدا کردیا ۔
مخدوم صاحب وزیر اعظم ہیں ، ان سمیت جتنے بھی وزیر اعظم اس سے پہلے گزرے ،
ان سب نے عدلیہ کو اپنی باندی سمجھا ، اور عدلیہ نے ( جس کا پاکستان کی
تباہی و بربادی میں سب اداروں سے زیادہ ہاتھ ہے ) منیر سے لے کر ڈوگر تکTHE
MOST OBEDIENT and THE HUMBLEST SRVANT کا انتہائی شرمناک کردار ادا کیا ،
اگر افتخار چوہدری والا حرف انکار ، وہ بد بخت منیر ادا کرتا تو آج پاکستان
وہ نہ ہوتا ، جو ہے ) باندی کا کردار ادا کرنے میں فخر محسوس کیا اور اسے
اپنی عزت افزائی سمجھا ۔۔ میری لغت میں تو اتنا بھی جائز نہیں کہ کوئی
تیسرے درجے کا سول جج کسی مقامی ایم پی اے یا ایم این اے کے پاس سلام کرنے
جائے یا اس کی غیر معمولی تعظیم کرے ، چہ جائیکہ ملک کا کسی صوبے کا چیف
جسٹس ہمہ وقت حکومت کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے کوشاں رہے ۔
پارلیمنٹ نے کیا آئین لکھا ؟ اس سے قطع نظر ، وزیر اعظم صاحب کا مطلب واضع
ہے کہ جو جو کچھ اب تک عملی طور پر اب تک ہوتا رہا ہے ، وہی ہونا چاہیے ،
یہی آئین کی عملی تشریح ہے ! سپریم کورٹ اپنے دائرے میں رہے ! ورنہ وزیر
اعظم صاحب یا ان کی حکومت اس تشریح کو قبول نہیں کرے گی ، کسے رکھنا ہے ،
کسے نہیں رکھنا ، یا کسے ہٹانا ہے ، یہ بقول مخدوم صاحب حکومت کا کام ہے !
ایسا کرنے اور کہنے والے وہ لوگ ہیں ، جو آرٹیکل ۲۶ اور ۳۶ کے نصب کردہ
دروازوں کی بجائے ، گیٹ اور دیواریں پھلانگ کر اندر آئے تھے ، آرٹیکل ۲۶
اور ۳۶ کے گیٹ پھلانگ کر اندر آنے والوں کو سپریم کورٹ کیسے روک سکتی ہے ؟
اور یہ آخری بات ہی ہر مسئلے کا حل ہے ! اگر پارلیمنٹ کا ہر رکن ان آرٹیکلز
کے واک تھرو گیٹس سے گزرا ہوتا تو آج نہ صرف یہ کہ انتظامیہ کی یہ دہشت
گردی ( آئین اور قانون کی پامالی ہی کو دہشت گردی کہا جاتا ہے ) نہ ہوتی
۔۔۔ بلکہ ۔۔ حقیقت یہ ہے کہ دہشت گردی کا کہیں وجود ہی نہ ہوتا ! ۔۔ آئین
کی ہر قیمت پر بالا دستی ! آئین کے بنیادی ڈھانچے کا تحفط ۔۔ اور ہمیشہ
ہمیشہ کے لئے یہ طے کرلینا کہ دین سے بیزاری چلے گی یا دلداری ؟ |