پاکستان میں یہ سمجھا جا رہا تھا کہ بھارت میں عام
انتخابات کے فوری بعد نئی دہلی اسلام آباد کے درمیان تعطل کا شکار بات چیت
دوبارہ شروع ہو جائے گی۔ وزیراعظم عمران خان بھیکسی امید کا اظہار کر رہے
تھے۔ شاید انھوں نے حالات کی نزاکت بھی بھانپ لی تھی۔ اسی وجہ سے نریندر
مودی کے لئے نیک خواہشات کا ظہار کیا گیا۔انھوں نے یہ تک کہا کہ وہ سمجھتے
ہیں کہ اگر مودی کی پارٹی بی جے پی نے عان انتخابات میں کامیابی حاصل کی تو
امن بات چیت کا بہتر موقع میسر آسکتا ہے۔عمران خان نے دو ماہ قبل اپریل کے
پہلے ہفتہ کو کہا تھا کہ اگر اپوزیشن کانگریس کی حکومت قائم ہوئی تو وہ
پاکستان کے ساتھ کسی تصفیہ سے خوف محسوس کرے گی کیوں کہ اسے دائیں بازو کی
پارٹیوں کے ردعمل کا ڈر ہو گا۔ غیر ملکی صحافیوں کے ایک گروپ کے ساتھ انٹر
ویو میں عمران خان نے واضح کیا تھا کہ دائیں بازو کی بھاجپا کی جیت سے
کشمیر کے کسی حل تک پہنچا جا سکے گا۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ اسلام آباد
ملک میں تمام ملیشیا کو ختم کرنے کے لئے پرعزم ہے۔ اس کے لئے پاک فوج کی
مکمل حمایت حاصل ہے۔ مودی دوسری بار برسر اقتدار آئے تو انھوں نے اسلام
آباد کی توقعات کے برعکس پالیسی اپنا رکھی ہے۔ وہ جیسے عمران خان کو مایوس
کر رہے ہیں۔ ابھی مودی انتخابی نفرت اور تعصب کے سحر میں مبتلا ہیں۔
پاکستان اور اسلام دشمنی کے چنگل میں وہ پھنسے ہیں۔ جیسے ابھی مودی کو مزید
کئی انتخابات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ انتخابات میں کامیابی کے لئے پاکستان
دشمنی اور سرجیکل سٹرائیکس بھی جیسے انتخابی مہم کا حصہ ہو۔ شاید ابھی
چیلنجز ختم نہیں ہوئے۔ بی جے پی اور دیگر ہندو انتہا پسندوں کو متحد کرنے
کے لئے پاکستان سے دوستی کام نہیں آتی۔ ابھی بی جے پی صدر امیت شاہ اور
سابق صدر راج ناتھ سنگھ کی باہمی دشمنی پیدا ہوئی ہے۔ ایسے میں عوام کو
پاکستان سے ڈرانے اور اپنا کام چلانے پرتوجہ دی جا رہی ہے۔
بشکیک میں بھی یہی تاثر ظاہر کیا گیا۔ نریندر مودی نے عمران خان کو نظر
انداز کرنے کا رویہ اپنایا۔ باڈی لنگویج بھی ایسی ہی رکھی۔ گروپ فوٹو کے
لئے دونوں ایک دوسرے سے دور دکھائی دیئے۔ یا یہ دوری بنائے رکھنا ہندو شدت
پسندوں کو پیغام تھا۔ فوٹو سیشن میں عمران خان ایک کونے پر اور مودی دوسرے
کونے پر تھے۔ روس اور چین کے صدور کا کوئی کردار بھی بظاہر نظر نہ آیا۔
نریندر مودی کے خطاب کا محور بھی دہشگردی تھا۔ وہ دنیا کو دہشگردی کے خلاف
متحد ہونے کی تلقین کرتے رہے۔ جب کہ عمران خان ریاستی دہشگردی سمیت دہشگردی
کی تمام اقسام کی مخالفت کرنے پر زور ڈالتے رہے۔ پاکستان اور بھارت کے
وزرائے اعظم کے درمیان بشکیک میں مختصر سے گپ شپ ہوئی۔ شنگھائی تعاون تنظیم
کے سربراہ اجلاس میں نریندر مودی نے اپنی روایتی ہٹ دھرمی ترک نہ کی۔ یہی
وجہ ہے کہ لیڈرز لانج میں برائے نام دنیاداری کے لئے ہیلو ہائی ہوا۔ اسے
دونوں ممالک میں برف پگھلنے سے تعبیر نہیں کیا جا سکتا۔
مودی کے سر پر سوار انتخابی بخار ابھی نہیں اترا ہے۔ ابھی وہ عمران خان سے
مسکرانے یا کسی دوستانہ گپ شپ کا خطرہ مول نہیں لے سکتے۔ شاید وہ سمجھتے
ہیں کہ جس بنیاد پر ہندو شدت پسندوں کو اشتعال دلا کر ووٹ لئے گئے۔ وہ اتنے
جلد ختم ہو گیا تو وہ بے نقاب ہو جائیں گے۔ ان کی سیاست ختم ہو جائے گی۔
بھاجپا اور آر ایس ایس اصولوں کی سیاست سے نا آشنا ہیں۔ وہ پاکستان سے
دشمنی اور اسلام سے نفرت کی سیاست کر رہے ہیں۔ قوم پرستی اور ہندوتوا کے
تحت بھارت کو اکھنڈ بنانے کے خواب دکھانے کے بعد اس کا الٹ ہو گیا تو کیا
ہو گا۔ بھاجپا ترقی اور دوستی کا ووٹ لینے کی روادار نہیں۔ اس نے ہندو ووٹر
کی رگ رگ میں اسلام سے نفرت کوٹ کوٹ کر بھر دی ہے۔ جب ہندو قوم پرست کو
اکھنڈ بھارت سے مسلم ، سکھ، عیسائی اور تمام غیر ہندوؤں کو مار بھگانے کے
خواب دکھائے گئے ہوں تو وہ فی الوقت کیسے بات چیت کے جھانسے میں آئے گا۔ جو
دنیا بھاجپا کے ساتھ تعاون جاری رکھنا چاہتی ہے وہ حقیقت میں بھارت میں
ہندو قوم پرستی اور نسل کشی کی حمایت کر رہی ہے۔ بابری مسجد کی شہادت،
ہزاروں مسلمانوں کا قتل عام، سکھ یاتریوں کو پاکستان آنے سے روکنا مودی
حکومت کے کارنامے ہیں۔
جو بھارت چاند پر خلائی مشن بھیجنے اور خلائی سٹیشن قائم کرنے کی تیاری کر
رہا ہے، اس کی سیاست کروڑوں کی آبادی کو نفرت، عدم مساوات، حقوق کی پامالی،
امتیازی سلوک کا نشانہ بنا رہی ہے۔ وزیراعظم عمران خان کے ٹیلیفون، خطوط،
سفارتی رابطے بھی نتیجہ خیز ثابت نہیں ہو سکے ہیں۔ اس کے باوجود پاک بھارت
بات چیت اور دوستی کے لئے کوششیں جاری رہنی چاہیئے۔ بھارت کی ہٹ دھرمی کے
باوجود پہل پاکستان کی جانب سے ہی ہو سکتی ہے۔ تشدد کے خاتمے کی سب سے
زیادہ ضرورت پاکستان کو ہے۔ مگر اس سے بھی زیادہ ضرورت بھارت کو ہے۔ بھارت
کی ریاستی دہشتگردی سے تشدد بڑھ رہا ہے۔ فاصلے بھی بڑھ رہے ہیں۔ مگر بات
چیت برابری کی بنیاد پر ہی آگے برح سکتی ہے۔ بھارت کو اپنی طاقت کا غرور
اور نشہ ہے۔ چھوٹے زخم لگانے کی پالیسی سے بھارت کو مزید طاقتور بننے کا
بہانہ میسر آرہا ہے۔ وہ مزید چوکنا ہو رہا ہے۔ دفاعی لائن مستحکم کر رہا ہے۔
دوستی اور امن بھیک اور درخواستوں سے نہیں مل سکتا۔ بھارت میں جاری موجودہ
عسکریت اور مزاحمتی تحریکوں سے دہلی کی معیشت کو کوئی نقصان نہیں ہو رہا
ہے۔اگر ایسا ہوتا تو بھارت ہی بات چیت اور دوستی کی بھیک مانگنے پر مجبور
ہوتا۔ اگر ایسا ہوتا تو بھارت تنازعات کیحل کے لئے میز پر آنے کے لئے تڑپتا۔
اگر دہلی کی معیشت، سفارت یا سیاست کو سنگین خطرہ ہو تو بھارتی حکمران بات
چیت کے لئے ذہن بنا سکتے ہیں۔ ورنہ سٹیٹس کو برقرار رہے گا۔ |