وزیر اعظم صاحب مشیر مروا بھی دیا کرتے ہیں

تاریخ عالم کے اوراق اس بات کے شاہد ہیں کہ بادشاہوں اور حکومتوں کی عظمتوں اور کامرانیوں کا دارومدار مشیروں پر رہا ہے۔مشیرانِ خاص کا مخلص ہونا ہی دراصل حکومت کی کامیابی کا مظہر ہوا کرتی ہے۔وگرنہ یہی مشیر تخت کو تاراج کرنے میں ایک سیکنڈ بھی نہیں لگاتے۔بنیادی طور پر بادشاہ کاروبارِسلطنت چلانے کے لئے مشیروں کی ایک فوج اور پھر ان میں سے مشیرانِ خاص کی تعیناتی اس لئے کرتے ہیں کہ یہ ذہین،فطین،چالاک،عیار،معاملہ فہم اور الجھے ہوئے معاملات کو سلجھانے میں ماہرومشاق ہوتے ہیں۔ان تمام وصف کے ساتھ ساتھ ان کا اپنے ملک اور حکومت کے ساتھ مخلص ہونا از حد ضروری اس لئے ہوتا کہ یہ رازدارانِ سلطنت بھی ہوتے ہیں۔جیسے یہ ایک سیکنڈ میں معاملہ فہمی کرتے ہیں اگر ان کی نیت میں فتور آجائے تو اگلے ہی سیکنڈ میں سلطنت کے حصے بخرے بھی یہی مشیران خاص کروا دینے میں اپنا کوئی ثانی نہیں رکھتے۔لہذا بہتر حکمران وہی ہوتے ہیں جو اپنے مشیران کا انتخاب کرتے وقت سوچ بچار کرتے ہوئے ان لوگوں کا تقرر کرتے ہیں جو بادشاہ وقت کے ساتھ ساتھ ملک و ملت کے بھی خیر خواہاں ہوں۔

تاریخ کے ایک ورق کا مطالعہ کرتے ہوئے مجھے پتہ چلا کہ حضرت علی ؓ کی خلافت کا زمانہ تھا،ان کا ایک مشیر ایک دن کہنے لگا کہ’’اے علیؓ آپ بڑے بہادر ہیں،صاحب حکمت ہیں،علم کا دروازہ ہیں،پھر ایسا کیوں ہے کہ پہلے خلفا کے ادوار پرامن تھے اور آپ کے دور میں ہنگامے ہیں،شورش ہے،بدامنی ہے‘‘مشیر کا یہ سوال سن کر حضرت علیؓ فرمانے لگے کہ ’’ پہلے خلفا کا میں مشیر تھا اور میرے مشیر تم ہو‘‘آپ کا یہ فرمان تب سے اب تک کے حکمرانوں کے لئے ایک پیغام درس ہے۔تاریخ کا ایک اور ورق پلٹتا ہوں تو مجھے اس ورق پر ایک عظیم استاد،فلاسفر،معاشیات دان،جیورسٹ ،سیاسیات اور معاشیات کے ہندوستان میں بانی چانکیہ کوتلیہ کا نام ملتا ہے جو چندر گپت موریہ اور اس کے بیٹے بندو سر کا مشیرِ خاص رہا ہے۔اس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ موریہ سلطنت اور بدھ ازم کی وسعت اور تبلیغ میں ان کا مرکزی کردار رہا ہے۔چندر گپت کو جب مگدھ کے راجہ نے علاقہ بدر کر دیا تو یہ اپنی جان بچاتا ہوا تکسا شیلا (موجودہ ٹیکسلا) کے آس پاس کی پہاڑیوں میں پناہ لینے پرمجبور ہو گیا،یہیں پر ان کی ملاقات چانکیہ کوتلیہ سے ہوئی جو کہ ٹیکسلا یونیورسٹی میں پروفیسر تھا۔ایک روز چندر گپت اور چانکیہ کوتلیہ ایک پہاڑی پر پہاڑے گفت وشنید میں مصروف تھے کہ دامن کوہ میں خانہ بدووں کی ایک بستی میں ایک والدہ اپنی بیٹی کو چاول کی پلیٹ کو درمیان سے کھانا شروع کرنے پر اس کے ہاتھ پر چھڑی سے مار کر اسے منع کر رہی تھی۔چانکیہ نے چندر گپت سے پوچھا کہ آپ نے اس واقعہ سے کیا سیکھا ،انکار میں جواب پر کوتلیہ نے کہا کہ ماں نے بچی کو اس لئے منع کیا کہ درمیان میں چونکہ چاول کی مقدار زیادہ ہوتی ہے اس لئے وہاں چاول گرم ہوتے ہیں جس سے بچی کے ہاتھ اور منہ کے جلنے کا اندیشہ ہو سکتا تھا ،کناروں پر چونکہ ان کی مقدار کم ہوتی ہے اس لئے جلد ٹھنڈے ہونے کے عمل سے بچی ہاتھ اور منہ کے جلنے کے عمل سے بچ سکتی ہے۔لہذا ہمیں بھی اپنی باقی ماندہ فوج کے ساتھ سلطنت کے کناروں پر حملہ آور ہو کر،افواج کو بڑھاتے ہوئے سلطنت کے درمیانی حصہ پر بھر پور حملہ کر کے پوری سلطنت پر قابض ہونا چاہئے۔چشم فلک نے دیکھا اور اوراق تاریخ پہ لکھا گیا کہ ایسا ہی ہوا ور دیکھتے ہی دیکھتے موریہ سلطنت اپنے وقت کی وسیع و عریض سلطنت بن گئی۔اور یہ سب ایک مشیر خاص کی بہتر حکمت عملی،وفاداری اور اخلاص کی بنا پر ممکن ہو سکا۔ایسے ہی شہنشاہ اکبر کے نو رتن کے بارے میں کون نہیں جانتا۔

کچھ زیادہ دور کی بات نہیں ہے جنرل ایوب خان بھی اپنے مشیروں پر بہت بھروسہ کیا کرتے تھے۔خاص کر اشفاق احمد،الطاف گوہر اور قدرت اﷲ شہاب ان کے نفس ناطقہ خیال کئے جاتے تھے۔اپنے بارے میں تو قدرت اﷲ نے اپنی ڈائری شہاب نامہ میں بھی تذکرہ کیا ہے کہ جب کبھی ایوب خان صاحب بہت اچھی تقریر فرماتے تو لوگ مجھے مبارک باد دیا کرتے تھے۔صدر ایوب نے جب اپنے جلسوں میں سوال جواب کا سلسلہ شروع کیا تو اس بارے میں شہاب نے خود اس طرح سے تذکرہ کیا ہے کہ’’صدر ایوب کے زمانے میں انہوں نے جگہ جگہ عام جلسوں میں سوال و جواب کا سلسلہ شروع کیا تو میرے دوست سید محمد جعفری نے اپنے مخصوص اور منفرد رنگ میں پھبتی اڑائی کہ
یہ سوال و جواب کیا کہنا
صدر عالی جناب کیا کہنا
کیا سکھایا ہے ،کیا پڑھایا ہے
قدرت اﷲ شہاب کیا کہنا

بھٹو کے بارے میں تو یہ بات ایک ضرب المثل کی صورت اختیار کر گئی ہے کہ بھٹو کو اس کے مشیروں نے مروایا۔اس بات کا تذکرہ کرنل رفیع الدین نے اپنی مشہور زمانہ کتاب بھٹو کے آخری 323 دن میں بھی کیا ہے کہ بھٹو نے اس بات کو تسلیم کر لیا کہ اب میری رہائی ممکن نہیں تو انہوں نے اظہار تاسف فرماتے ہوئے کہا کہ’’عوام کو زندہ بھٹو نہیں مردہ بھٹو چاہئے تھا‘‘اس تمام تمہید کا مقصد موجودہ حکومت کے متعین کردہ مشیران کی فوج ظفر موج اور نفسِ ناطقہ کو خبردار کرنا ہے کہ آپ سب بھی ہوش کے ناخن لیتے ہوئے ایسے مشیروں والا کردار ادا کرو جوسمجھدار ،ذہین اور جذبہ حب الوطنی سے سرشار ہوتے ہیں۔حالیہ و دیگر ماضی کی تقاریر میں وزیر اعظم عمران خان جس طرح کے الفاظ کا چناؤ کرتے ہیں وہ کسی طور بھی وزیر اعظم کے عہدہ کے شایان شان اور پروٹوکول کے لئے مناسب نہیں ہیں۔ٹھیک ہے کہ ان کی نظر میں اصحاب رسول ﷺ اور اﷲ کے برگزیدہ بندوں سے پیار ان کا ذاتی مسئلہ ہے اور میری دانست میں بھی یہ خالصتا اﷲ اور اس کے بندے کے درمیان معاملہ ہے کیونکہ ہمارے پاس کسی کے ایمان کو پرکھنے کا کوئی پیمانہ نہیں ہے۔تاہم جب آپ عوام الناس سے خطاب کر رہے ہوتے ہیں تو پھر چنیدہ الفاظ۔مناسب استعمال اور لوگوں کے جذبات کا احترام آپ پر بھی فرض خیال ہوتا ہے اور اس پر آپ کو بھی اتنا ہی عمل پیرا ہونا چاہئے جتنا کہ اسلام اور یہ سب اﷲ کے پیارے مستحق ہیں۔میری دانست میں یہ سب کام مشیران کا ہوتا ہے جو تنخواہ ہی اسی بات کی لیتے ہیں اور پھر تقریر بھی ریکارڈڈ تھی جسے کہ دوبارہ سنا جاسکتا تھا ،مناسب الفاظ کا اضافہ کر کے پھر سے ریکارڈ کر لیا جا سکتا تھا،ایسے مشیران خاص کو یاد رکھنا چاہئے کہ کل آپ بھی تاریخ کا حصہ ہوں گے،اعمال صالح آپ کو تاریخ کی کتابوں میں امر اور اعمال بد اور فعل قبیح تاریخ کے صفحات میں کہیں گم کر دیں گے۔فیصلہ آپ پر اور آپ کے اعمال پر ہے۔

Murad Ali Shahid
About the Author: Murad Ali Shahid Read More Articles by Murad Ali Shahid: 100 Articles with 86124 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.