ایک دانشورنے کہا تھا جھوٹ کی تین قسمیں ہوتی ہیں
جھوٹ۔سفید جھوٹ اور اعدادوشمار ۔۔تحریک ِ انصاف کی حکومت نے جو اپنا پہلا
بجٹ پیش کیا ہے اسے اعدادوشمارکا گورکھ دھندہ کہا جا سکتاہے اس بجٹ میں
وفاقی حکومت نے کسی چکرباز حسینہ کی طرح عوام کو چکرپہ چکر دینے کی کامیاب
کوشش کی ہے جس سے عام آدمی چکرا کررہ گیاہے ایک ستم ظریف نے اسے عوام پر
ڈرون حملہ قراردیاہے عام آدمی کیلئے ڈبل مشکل ہے ایک وہ حکومتی پالیسیوں
اوربجٹ کے نتیجہ میں ہونے والی مہنگائی کو Face کررہاہے دوسرا ڈالر
مہنگاہونے اور روپے کی قدرکم ہونے پرجو مہنگائی ،چوربازاری اور مصنوعی
گرانی نے اس کا جوکچومرنکال دیاہے وہ ایک دردبھری الگ داستان ہے لہرحال
وفاقی بجٹ کی خاص خاص باتیں یہ ہیں کہ 300یا اس سے زائد بجلی کے یونٹ
استعمال کرنے والوں پر کئی ٹیکسز لگا دینے کااحتمال ہے، سیمنٹ، دودھ، سگریٹ
سٹیشنری،ڈائپر،ہرقسم کے مشروبات سیمنٹ، سگریٹ، چینی، خوردنی تیل، گھی،
کولڈڈرنکس ،کریم ، خشک دودھ ، زیورات ، ایل این جی ،چکن، مٹن، بیف اور
مچھلی، سونا، چاندی، ہیرے، گاڑیوں پرنئے ٹیکسز لگنے سے وہ مزید مہنگے
ہوجائیں گے اسے کہتے ہیں’’ ہور چوپو‘‘ اس کے علاوہ1500کے قریب ضروری اشیاء
پرکسٹم ڈیوٹی بڑھا دی گئی ہے جس سے لوگ شدید متاثرہونے کااحتمال ہے پھر بھی
کہا جارہاہے کہ غریبوں کو کوئی فرق نہیں پڑے گا ماہرین کہہ رہے ہیں کہ بجٹ
میں بالواسطہ ٹیکسزلگاکر عام آدمی پر بہت زیادہ بوجھ لاددیا گیاہے ایک اہم
بات یہ ہے کہ بہت سے ضروری کام وصولیوں کا ہدف سے مشروط کردئیے ہیں اس کا
مطلب یہ ہے کہ اگر حکومت وصولیوں کا ٹارگٹ پورا نہ کرسکی تو 700ارب ک۔ نئے
ٹیکسز کے علاوہ عوام پر مزید ٹیکس لگائے جا سکتے ہیں یا پھر وہ کام سرے سے
نہیں ہوں گے گذشتہ سال بھی مسلم لیگ ن کی حکومت نے کھربوں کا بجٹ پیش کرکے
عوام کا کچومر نکال دیا تھا آثار بتاتے ہیں ا س سال بھی ایسا ہونا یقینی ہے
کیونکہ کسی حکومت کے پاس الہ دین کا چراغ نہیں جس سے وہ100%وصولیوں کا ہدف
پورا کر سکے یعنی ٹیکس ہی ٹیکس ۔اور ہر چیز مہنگی۔ حالات کا بے لاگ جائزہ
لیا جائے تو معلوم ہوگا تبدیلی سرکار کے ابتدائی 9ماہ دوران ہوشربا مہنگائی
کے سارے ریکارڈ ٹوٹ چکے ہیں اب تو وزیر ِ ِخزانہ نے بھی تسلیم کیا تھا کہ
غربت میں مسلسل اضافہ ہوتا جارہاہے لوڈشیڈنگ کے باوجود بجلی کے بلوں میں
کوئی کمی واقع نہیں ہوئی عام آدمی کا جینا دوبھرہوگیاہے۔ کوئی اس سوال کا
جواب ۔۔۔ہمارے حکمرانوں کے پاس؟؟؟ایک دور تھا جب بجٹ پیش کیا جاتا تو سال
بھر قیمتوں میں استحکام رہتا انتظامیہ اور صوبائی و وفاقی حکومتیں سختی سے
گراں فروشوں کے خلاف ایکشن لینا اپنا فرض مجھتی تھیں اب تو حکومت بجٹ کا تو
تکلف ہی کرتی ہے ورنہ پتہ ہی نہیں چلتا کب بجٹ آیا کب گیا؟نئے مالی سال کا
آغاہو یا معمول کے حالات گرانی ہے کہ بڑھتی ہی چلی جارہی ہے حسب ِ معمول اس
مرتبہ پھر کہا جارہاہے کہ وفاقی بجٹ میں غریبوں پرکوئی نیا ٹیکس نہیں لگایا
جارہا عوام پر کوئی بوجھ نہیں پڑے گا اب توپاکستان کا ہروزیر ِ خرانہ ہر
سال غریب عوام کو خوش کرنے کیلئے ایسے ہی دعوے، ایسے ہی وعدے کرتاہے
۔پاکستان جیسے ملک میں بجٹ کو کوئی خوفناک چیز سمجھا جاتاہے یہ جب بھی
آتاہے ملک میں مہنگائی کا ایک نیا طوفان امڈ آتاہے اب تو بجٹ اعدادو شمارکا
گورکھ دھندا اور الفاظ کی جادو گری کا نام ہے اکثر وزیر ِ خرانہ جب بجٹ پیش
کررہے ہوتے ہیں انہیں خود اندازہ نہیں ہوتاوہ کیا کہہ رہے ہیں۔۔جب سے حکومت
نے اداروں اور محکموں کو خود مختاربنایا ہے انہیں شتربے مہارآزادی مل کئی
ہے ان کا بااثر لوگوں پر تو کوئی زور نہیں چلتا لیکن انہوں نے غریبوں کا
جینا ضرورمشکل کردیا ہے وہ سارا سال مختلف حیلوں بہانوں سے اپنے سروسز
چارجز بڑھاتے رہتے ہیں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں اور بجلی کے نرخوں میں تو
سال بھر کمی بیشی ہوتی رہتی ہے کمی کیا ہونی ہے اکثر ریٹ بڑھا دیئے جاتے
ہیں عوام کی بدقسمتی یہ ہے کہ حکومت ،بڑے بڑے سیاستدانوں حتی کہ اپوزیشن
رہنماؤں نے بھی عوام کی طرف آنکھیں بند کرلی ہیں۔حکمران عوامی مسائل اور
مشکلات سے لاتعلق ہو چکے ہیں جب بھی بجٹ آتا ہے ناقدین، اپوزیشن اور حکومت
مخالف رہنماؤں کو سستی شہرت حاصل کرنے ، دل کا غبار نکالنے یا بیان بازی کا
ایک بہانہ میسر آ جاتاہے بجٹ کے حقیقی خدو خال پر کوئی غور کرنا پسند ہی
نہیں کرتا اس ملک میں ہر روز منی بجٹ آتاہے ،ہرروز چیزوں کے نئے ریٹ عوام
کا منہ چڑارہے ہوتے ہیں بنیادی طورپراس کی ذمہ دار حکومت ہے جس کی کسی بھی
معاملہ پر گرپ نہیں ہے یہی وجہ ہے کہ اب چھوٹے چھوٹے گروپ بھی حکومتی رٹ
کیلئے چیلنج بن گئے ہیں اس ماحول میں بجٹ کا رونا کوئی کب تک سنتا رہے۔بجلی
اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کے اتارچڑھاؤ کی آڑ میں گراں فروشوں کو
چیزیں مہنگی کرنے سے کون روک سکتاہے؟ روزانہ کی بنیاد پر بڑھنے والی
مہنگائی اور پے در پے منی بجٹ سے گھر گھر لڑائی جھگڑے معمول بن گئے ہیں ان
حالات میں یہ کہنا کافی نہیں کہ عوام پر کوئی بوجھ نہیں پڑے گا دعوے کو
حقیقت بنانے کیلئے کچھ نا گزیر اقدامات کرنا پڑتے ہیں کچھ بے رحم فیصلے
بھی۔ اس کیلئے ماحول کو سازگار بنانا بھی حکومتی ذمہ داری ہے عوام کو حالات
کے رحم و کرم پر چھوڑ دینے والی پالیسی زیادہ دیر تک نہیں چل سکتی بجٹ کی
اہمیت اور افادیت تواس صورت ہی ممکن ہے کہ حکومت بالخصوص کھانے پینے
اشیاء،ہر قسم کی یوٹیلٹی سروسز،ادویات کی قیمتیں الغرض ہر چیز کے نرخوں کا
تعین ایک سال کیلئے مقرر کرے،کسی ادارے، محکمے یا نیشنل،ملٹی نیشنل کمپنی
کو ایک سال سے پہلے قیمت بڑھانے کی ہرگز اجازت نہ دی جائے اس پر سختی سے
عمل کروایا جائے تو نہ صرف ملکی معیشت مستحکم ہونے میں مدد ملے گی بلکہ
غریب عوام بھی سکھ کا سانس لے گی ورنہ اس سے بہتر یہ ہے کہ حکومت ہر سال
بجٹ پیش کرنے کا تکلف ہی نہ کرے تو وزیر ِ خرانہ کئی کڑوے کسیلے سوالات سے
بچ سکتے ہیں عوام ہرسال حکومت سے امید کرتے ہیں کہ اب کی بار بجٹ میں
اعدادو شمارکا گورکھ دھندا اور الفاظ کی جادو گری نہیں ہوگی غریبوں کی فلاح
کیلئے حقیقی اقدامات کئے جائیں گے۔یہ ایسا بجٹ ثابت ہوگاجس سے عام آدمی کو
ریلیف ملے گا ہم دعا گو ہیں کہ اﷲ کرے ایسا ہی ہو حکمرانوں سے کوئی امید تو
نہیں لیکن اﷲ کے حضور دعا مانگنے میں ہرج کیاہے ۔ ایک بات ہم کہے بغیر نہیں
رہ سکتے ٹیکس نیٹ میں اضافہ اور ٹیکس چوری کا خاتمہ کئے بغیر معاشی استحکام
ممکن نہیں اسی لئے کہاجارہاہے کہ حکومت نے عوام دوست نہیں آئی ایم ایف کی
سفارشات کی روشنی میں بجٹ پیش کیا جو عوام دشمنی پر مبنی ہے، نئے ٹیکسوں سے
مہنگائی کا سونامی آئے گا پٹرولیم مصنو عات کی قیمتیں ایک سال کے دوران ڈبل
ہوگئی ہیں پھر بھی کہا جارہاہے حکومت خسارے میں جارہی ہے موبائل فون کے ری
چارج سے بھی ہرماہ اربوں منافع لیا جارہاہے جو ٹیکس نیٹ میں نہیں اس سے بھی
ٹیکس لیا جارہاہے یہی حال بجلی کے بلوں کا بھی ہے عوام جائے تو کہاں جائے
کوئی داد فریاد بھی سننے والا نہیں ۔ایک دانشورنے کہا تھا جھوٹ کی تین
قسمیں ہوتی ہیں جھوٹ،سفید جھوٹ اور اعدادوشمار۔ ن لیگی حکومت کے آخری بجٹ
کا بغور جائزہ لیا جائے تو آپ بھی اس دانشور کی بات پر ایمان لے آئیں گے کہ
یہ بجٹ بھی اعدادوشمارکا گورکھ دھندہ ہے۔
|