ملک کا سب سے بڑا صوبہ پنجاب ،جس میں کامیاب ہوئے بغیر
اقتدار کے ایوانوں میں جانا ممکن نہیں ہے ۔اِس صوبہ میں پی ٹی آئی نے مسلم
لیگ (ق) کی مدد سے معمولی اکثریت سے اقتدار حاصل کیا ،جس کا قائد ایوان
سردار عثمان بزدارکو بنا دیاگیا ۔اس ایوان میں حکومت کا باقائدہ پہلا
صوبائی بجٹ تجاویز منظوری کے لئے پیش کیا گیا۔گزشتہ دنوں وفاق میں بھی بجٹ
تجاویز پیش کی گئی تھیں ۔پنجاب بجٹ کو بھی اس کی کاپی پیسٹ کہا جا سکتا ہے
۔لیکن اسباب کچھ ہی کیوں نہ ہوں ، بجٹ تجاویز اگر منظور کر لی گئیں تو یہ
کئی لحاظ سے عوام کے لئے نا قابلِ برداشت ثابت ہوگا۔بنیادی اعتراض یہ ہے کہ
حکمران عوام کے زیر استعمال خردو نوش اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ سے احتراز
ہی نہیں برتتے ہیں،بلکہ انہیں اس چیز کا زرا احساس تک نہیں ۔ماضی میں جتنی
حکومتیں آئیں چاہے وہ مارشل لاء دور ہو یا جمہوری ایسا ظالمانہ رویہ نظر
نہیں آیا۔کسی نے بازاروں دکانوں اور تاجروں پر کبھی نظر نہیں رکھی تھی
۔ڈاکٹر،درزی ،پراپرٹی و کار ڈیلر ،حجام ،حلوائی غرض کسی پر ٹیکس لگانے سے
اجتناب نہیں کیا گیا ۔لیکن جیسے وزیر اعظم نے وفاقی بجٹ کے موقع پر نیم شب
کے خطاب میں کہا تھا کہ یہ بجٹ تحریک انصاف کے ریاستِ مدینہ بنانے کے وعدے
کا عکاس ہے ۔اس کے بعد کا دلاسا اور کڑوے گھونٹ کی کڑواہٹ کی شدت بتائی ۔ان
کے مطابق پاکستان مستحکم ہو چکا ہے ۔اب وزیر اعظم پر کوئی پریشر بھی نہیں
ہے ۔اب وہ اپنی سربراہی میں ہائی پاور کمیشن بنانے جا رہے ہیں ،جس کا مقصد
دس سال میں 24ہزار ارب روپے قرضے کا حساب لینا ہے ۔یہ ملک کے وزیر اعظم کا
انداز اور سنجیدگی ہے۔عمران خان عوام کے سامنے چار برسوں سے جو تماشا لگا
کر دکھا رہے ہیں ،کہ سابق حکمرانوں کی کرپشن کی وجہ سے ملکی معیشت اور ملکی
حالات یہاں تک پہنچے ہیں کہ ملک ڈیفالٹ ہونے پر آ گیا ہے ۔یہ ان کا ایک
’’بندر تماشہ‘‘ہے ۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ کرپشن اور مفادات حاصل کرنے والی حکومت ملکی وسائل
اور ملکی معیشت کو کھوکھلا کر دیتی ہیں۔اس سے پیچیدہ صورت حال اس وقت بنتی
ہے جب مسائل کی جڑ کو نہیں پکڑا جاتا اور اصل جڑ استحصالی نظام ہے ۔جو چار
دہائیوں سے پنپ رہا ہے۔اسی نظام نے مفادپرست طبقے کو جنم دیا ہے ۔جس میں
مختلف شعبہ جات اور سرمایہ کار لاکھوں لوگ شامل ہیں ۔کیونکہ یہ انتخابات کے
دنوں میں اپنی سرمایہ کاری کرتے ہیں اور پھر یہی لوگ حکومتی پالیسیوں اور
لا تعداد ایسے فوائد حاصل کرتے ہیں ۔اس ملک میں معیشت کی بہتری کا رونا
دہائیوں سے رویا جا رہا ہے ۔اس کھیل میں بنیادی کردار تجارتی خسارے کا ہے
برآمدات بڑھنے کا نام نہیں لے رہی اور کسی کو اس جانب توجہ دینے کی ضرورت
بھی محسوس نہیں ہو رہی ۔غیر ضروری معاملات کو چھڑنے اور تجارتی خسارہ
بڑھانے کے علاوہ کیا ہو رہا ہے ․․؟دوسرا انکم ٹیکس کی وصولی کا معاملہ ہے
۔ملک میں صرف آٹھ لاکھ کے قریب لوگ ٹیکس ادا کرتے ہیں ۔کیونکہ ہمارے ہاں
کاروبار غیر دستاویزی انداز میں کیا جاتا ہے ۔اس مسئلہ کو ہمیشہ بغیر مؤثر
حکمت عملی کے کنٹرول کرنے کی کوشش کی گئی ہے ۔جس سے کبھی کامیابی حاصل نہیں
ہوئی ۔
پاکستان کے عوام کی اکثریت دال ،سبزی اور چائے سے روٹی کھاتی ہے ۔جب ان سب
اشیا کی قیمتوں میں اضافہ ہو جائے گا ،ان حالات میں عوام میں حکومت کے
متعلق اچھی سوچ کبھی بھی نہیں آ سکتی ہے ۔پنجاب حکومت نے 388ارب 40 کروڑ
روپے کے ٹیکس عوام سے وصول کرنے کا ہدف بنایا ہے ۔جہاں وفاق کی پیروی کرتے
ہوئے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ کرنے کا انداز اپنایا ہے ،لیکن
نجی کارکنوں اور نجی شعبے میں ملازمت کرنے والے کسی کارکن کے لئے بجٹ میں
کوئی ہدایت نظر نہیں آتیں ۔حالانکہ حکومت نے نجی شعبے سے ہی تمام ٹیکسز اور
محصولات وصول کرنے ہیں ۔جیسے وفاق نے نجی کارکنوں کو اپنا شہری نہ سمجھنے
اور ان کو اہمیت نہ دینے کا تاثر دیا ہے ویسے ہی پنجاب حکومت نے کیا ہے ۔اس
مہنگائی کی لہر میں تعمیراتی شعبے پر 16فیصد ٹیکس کے ساتھ ساتھ کوئی شعبہ
نہیں چھوڑا جس پر ٹیکس نہ بڑھایا گیا ہو۔چھوٹے کاشکاروں کی کمر توڑ کر رکھ
دی ہے ۔کسانوں کے لئے آبیانہ دوگنا کرنے سے پنجاب کا 65فیصد پر پھیلا زرعی
شعبہ متاثر ہو گا۔ اس سے نہ صرف کسان کے اخراجات بڑھیں گے بلکہ غلے کی قیمت
بھی لا محالہ بڑھے گی اور اس کا اثر پورے صوبے کے عوام ہی پر پڑے گا۔بجٹ
میں وسائل فراہمی کے لئے زیادہ تر انحصار عوام سے محصولات وغیرہ سے حاصل
کرنے کا ارادہ ہے ۔لیکن صوبے بھر میں کاروباری معاملات ٹھپ ہو کر رہ گئے
ہیں ، آئندہ کے بجٹ کو دیکھ کر حالات بہتری کی کوئی گنجائش نہیں ہے ۔
حکومت نے عجیب وغریب تجاویز پیش کر کے ثابت کر دیا ہے کہ یہ حکومت عوام
دوست ہی نہیں بلکہ اپنی خود کی دشمن حکومت ہے ۔بجٹ میں پنشن ریفامز کا کہیں
ذکر نہیں کیا گیابلکہ گریجویٹی اور پراویڈنٹ فنڈ کے زمرے میں اٹھنے والے
اربوں روپے کے اخراجات اور ریٹائر ہونے والے سرکاری ملازمین کو ادائیگیوں
کو مؤخر کرنے کے معاملے پر غور شروع کر دیا ہے ۔اس تجویز پر عمل کی صورت
میں مجموعی طور پر بے روزگاروں کی تعداد میں زبردست اضافہ ہو گا۔ترقیاتی
فنڈ میں کمی کر دی گئی ہے ۔
یہ ایک عوام دشمن بجٹ ہے ۔عمران خان جس مخالفانہ اور انتقامانہ روش پر چل
رہے ہیں،اس سے جتنی جلدی ہو اجتناب کر لیں ۔نئے نئے کمشن بنا کر خود ہی
مدعی اور خود ہی منصف بننے کی خواہش ان کے اپنے لئے پریشانی کا باعث بن
سکتی ہے ۔نیا کمیشن ایک لا حاصل مگر مخالفانہ دور کا آغاز ہو سکتا ہے ۔اس
سے بگڑا ہوا نظام ٹھیک نہیں ہو گا۔ بجٹ پاس کروانے اور پھر محصولات کے
ٹارگٹ کو پورا کرنے کے لئے حکومت کو معیشت اور گورننس کی تنظیم نو کی ضرورت
ہے ۔احتساب کے جاری کام کو متعلقہ اداروں کے حوالے رہنے دیں ۔اپنی مداخلت
بند کریں ،اپنی توجہ غریب عوام کی بھلائی کے لئے صرف کریں نہ کہ ان کی
چیخیں نکلوانے کے شوق کا مزہ لیں اور اپنے آپ کو اتنا طاقت ور سمجھتے ہوئے
کہ میں عوام کے ساتھ کچھ بھی زیادتی کر جاؤں گا میرا کچھ نہیں بگڑ سکتا
۔اگر پاکستان میں بڑے بڑے برج مٹی کے ڈھیر بن سکتے ہیں تو عمران خان کچھ
چیز نہیں ہے ۔ |