عام آدمی کی تلاش کا غلغلہ ہر سال جون کے مہینے میں
اٹھتا ہے، جب حکومت کی طرف سے قوم کو بتایا جاتا ہے کہ ’’بجٹ سے ’عام آدمی‘
متاثر نہیں ہوگا‘‘۔ جواب آں غزل کے طور پر میڈیا اور دانشور نہایت یکسوئی
کے ساتھ ’’عام آدمی‘‘ کی کھوج میں نکل کھڑے ہوتے ہیں، یہاں تک کہ بجٹ
ہنگامے کی دھول بیٹھنے لگتی ہے اور معاملہ ٹھنڈا پڑنے لگتا ہے۔ تمام
کاوشوں، محنتوں اور باریک بینیوں کے باوجود عام آدمی کو تلاش کرنے والے لوگ
مایوسی کا اظہار کر دیتے ہیں۔ کہنے کو تو پورے ملک میں لوگ بستے ہیں اور وہ
عوام ہونے کے ناطے ’عام آدمی‘ ہی ہیں۔ اس ایشو پر میں نے بھی بہت غور کیا ،
میں آخر کار اس نتیجے پر پہنچا کہ دیگر الجھنوں کی طرح حکومتیں اس معاملے
میں بھی لوگوں کو چکر دینے میں کامیاب رہتی ہیں، کیونکہ پاکستان میں ’’عام
آدمی‘‘ کا کہیں وجود ہی نہیں، تو عام آدمی متاثر کہاں سے ہوگا؟ حالیہ بجٹ
میں چونکہ ٹیکسوں میں اضافہ کا زیادہ شور شرابہ ہے، اس لئے تقریباً ہر طبقہ
کار پر ٹیکس عاید کرنے کی تجاویز پیش کر دی گئی ہیں، اپوزیشن وغیرہ چند روز
جذباتی خطاب کر کے اپنا حقِ نمائندگی جتا دے گی اور قوم کو باور کروانے کی
کوشش کی جائے کہ ہم نے اپنی استعداد کے مطابق اپنا فریضہ نبھا دیا ہے، باقی
قوم کی قسمت۔
گزشتہ روز میں بریڈ خریدنے بیکری پر گیا تو کاؤنٹر پر کھڑے صاحب نے بجٹ پر
سیر حاصل تبصرہ کیا ، اسے غریب دشمن اور ظلم قرار دیا، بریڈ خرید کر جب میں
نے اپنے اندازے (یا پچھلے حساب )کے مطابق پیسے اُس کی طرف بڑھائے تو موصوف
نے انہیں میرے ہاتھ میں ہی مسترد کرتے ہوئے ان میں اضافے کی نوید سنا دی،
وجہ بھی ساتھ ہی بتا دی کہ اب ہمارے ہر آئٹم پر بھی ٹیکس لگے گا۔ یوں اُس
نے اپنے ہر گاہک سے ٹیکس کے نام پر رقم وصول کر لینی ہے۔ اگر ایک بریڈ پر
دو روپے ٹیکس لگا یا گیا ہے تو دکاندار نے گاہک سے پانچ روپے وصول کر لینا
ہے۔ میں واپسی پر سوچتا گیا کہ اگر اس نے اپنے اوپر لاگو ہونے والے ٹیکس سے
زیادہ رقم کما لی ہے تو اس کا احتجاج کیا معانی؟ اس نے اپنے پلّے سے تو
حکومت کو ایک پیسہ مزید ٹیکس نہیں دیا، گاہک سے وصول کیا۔ یہ ایک مثال ہی
ہے، ہم میں سے کوئی بھی ، کسی بھی دکان وغیرہ پر جا کر جب چیز خریدتا ہے،
تو دکاندار ٹیکس کو جواز بنا کر زیادہ قیمت وصول کرلیتا ہے اور دل کا غبار
ہلکا کرنے کو حکومت کو کوسنے بھی دے لیتا ہے، اور ٹیکس کا بوجھ بہت ہی
بھولپن سے گاہک کے توانا کندھوں پر ڈال کے اس کی جیب کا وزن ہلکا کردیتا
ہے۔
ٹیکس کے بغیر تو کاروبارِ حکومت نہیں چل سکتا، مگر ٹیکس کس سے وصول کیا
جائے اور کس کو اِس نیٹ ورک میں شامل کیا جائے؟ یہ ذرا مشکل فیصلہ ہے۔ اپنے
ہاں آمدنیوں سے زائد اثاثوں کا شور اٹھتا رہتا ہے، یہی بہترین طریقہ ہے ،
پانچ یا دس برس پہلے کسی کے کیا اثاثے تھے اورا ب وہ کہاں تک پہنچ گیا ہے،
اگر بہت زیادہ فرق ہے تو اس سے حساب مانگنا یقینا حکومت کا فرض ہے، مگر ستم
یہ ہے کہ بے شمار کروڑوں پتی لوگ ٹیکس ادا نہیں کرتے اور اُن سے بہت کم
آمدنی والے لوگ جو ’’ٹیکس جال‘‘ میں پھنس گئے ان کی گردن مستقل دبوچ لی
گئی، ان کی آمدنی خواہ اُن کی ضرورتیں پوری کرنے تک ہی محدود کیوں نہ ہو،
ٹیکس نچوڑ بے حس محکمے وہاں سے غاصبانہ حصہ وصول کر کے ہی دم لیتے ہیں۔ جن
کا رہن سہن، گھر، گاڑی وغیرہ بھی سب کے سامنے ظاہر ہے، وہ محکمہ جات کی ملی
بھگت سے میز کے نیچے سے اہلکاروں کی خدمت کر دیتے ہیں، اور مزے کی نیند
سوتے ہیں۔ اس ضمن میں ٹیکس وصول کرنے والے دفاتر کے افسران اور اہلکاران کے
اثاثہ جات کی چھان بین کی بھی سخت ضرورت ہے، کیونکہ ایسے تمام محکموں کے
ملازمین کی بھاری اکثریت میز کے نیچے سے آنے والی آمدنی سے کروڑ پتی بن چکی
ہے۔
المیہ یہ تو ہے ہی کہ یا تو ٹیکس چوری ہو تا ہے، یا ادا نہیں ہوتا، مگر
لوگوں کی ایک بڑی پریشانی یہ بھی ہے کہ عوام سے ٹیکس لے کر حکمران اپنی
عیاشیوں اور مراعات پر خرچ کردیتے ہیں۔ اب تک تو کوئی حکومت بھی عوام کو یہ
باور کرانے میں کامیاب نہیں ہو سکی کہ حکومت سادگی اپنا رہی ہے، یا بچت کر
رہی ہے، یا ٹیکسوں (اور قرضوں) کا بہتر استعمال کر رہی ہے، بس یہی ہوتا ہے
کہ ہر آنے والا وہی باتیں کرتا ہے جو ہم کم وبیش گزشتہ چار دہائیوں سے سنتے
چلے آرہے ہیں، لوگوں کو جملے اور الفاظ تک ازبر ہو چکے ہیں، مگر بہتری ہے
کہ آنے کا نام نہیں لے رہی۔ ایوانِ صدر کی طرف ہی ایک نظر دیکھ لیں، چھتیس
لاکھ کا مشاعرہ، بیس لاکھ کا پنجرہ اور بھی نہ جانے کیا کیا کچھ۔ یہ تو وہ
چیزیں ہیں جو وقت گزرنے کے بعد یا قبل عوام کی نگاہ میں آگئیں، ورنہ یہاں
تو ایک تصویر اور فریم وغیرہ پر بھی لاکھوں ہی خرچ ہوتے ہیں۔ دراصل ایوانِ
صدر ایسا قید خانہ ہے جہاں قیدیوں کا ایک ایک لمحہ’’ آئینی زنجیروں ‘‘سے
جکڑا ہوا ہے۔ صرف صدر ہی کیا ہمارے وزیراعظم، وزرائے اعلیٰ اور دیگر حکومتی
عمائدین ’’آئینی زنجیروں‘‘ کے ہاتھوں مجبور ہیں، وہ تو ’آزادی‘ چاہتے ہیں
مگر کیا کریں آئین کی پاسداری کا حلف انہوں نے اٹھا رکھا ہوتا ہے۔ بہرحال
حکمران اگر یہ کہتے ہیں کہ بجٹ میں اشیا کی قیمتیں وغیرہ بڑھنے سے ’’عام
آدمی‘‘ متاثر نہیں ہوگا تو وہ درست ہی کہتے ہیں، کیونکہ یہاں ’عام آدمی‘ کا
کوئی وجود نہیں، یہاں کوئی تاجر ہے، کوئی زمیندار ہے، کوئی ہنر مند ہے،
کوئی ڈاکٹر اور کوئی استاد ہے۔ یہاں ہر کوئی کچھ نہ کچھ ہے، حتیٰ کہ اب
ٹیکس جال میں لائے جانے والے لوگوں میں حکیم اور حجام وغیرہ بھی شامل ہو
گئے ہیں۔ چونکہ ہر طبقہ کو کوئی نہ کوئی نام دیا جاتا ہے، اس لئے سب ہیں
عام آدمی نہیں ہے، اکثریت ایک دوسرے سے ٹیکس وصول کر کے حکومت کے حوالے کر
رہے ہیں تاکہ حکمران یکسوئی کے ساتھ مراعات حاصل کریں اور قوم کے سینے پر
بہترین انداز میں مونگ دَل سکیں۔
|