میثاق معیشت ۔ وقت کی ضرورت

پاکستان کی تاریخ میں میثاق اور نظریہ ضرورت کے تحت بے شمار معاملات طے ہوتے رہے ۔ غیر قانونی کو نظریہ ضرورت نے قانونی بنادیا،روٹھےب ہوؤں کا ملا دیا، سیاسی دشمنی کو دوستی میں بدل دیا ۔ معروف میثاق تو بے نظیر شہید اور میاں نواز شریف کے درمیان ہوا تھا جس کے تحت دونوں رہنماؤں نے باہم مل کر فوجی حکمران کے خلاف اور جمہوریت کے لیے مل کر کام کرنے کا معاہدہ کیا تھا اور اس پر کاربند بھی رہے، بے نظیر کی شہادت ہوگئی ، پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت قائم ہوئی، آصف زرداری صاحب صدارت کے منصب پر فائز ہوئے، میاں صاحب نے میثاق جمہوریت کا پاس رکھا، اورز رداری صاحب کو مدت پوری کرنے دی، اسے فرینڈلی اپوزیشن کا نام بھی دیا گیا، پھر میاں صاحب کی حکومت آئی تو میثاق جمہوریت نے فرینڈلی اپوزیشن کی راہ ہموار کی اور زرداری صاحب نے میاں صاحب کو مدت پوری کرنے میں تعاون کیا ۔ البتہ میاں صاحب نے اتنا ضرور کیا کہ زردا اری صاحب پر مقدمات قائم کرنے والوں کو نہیں روکا ، انہی مقدمات کا زرداری صاحب آج سامنا کر رہے ہیں ۔ سیاست اسی کھیل تما شے کا نا ہی تو ہے ۔

عمران خان گزشتہ بائیس سال سے سیاست کے گھوڑے پر سوار ملک کا خزانہ لوٹنے والوں کو نہ چھوڑنے کی رٹ لگائے ان دونوں کا تعاقب کرتے رہے، یہاں تک کہ گزشتہ انتخابات میں ان کا گھوڑآگے نکل گیا، کہنے والے کہتے ہیں کسی کی زبان تو نہیں روکی جاسکتی کہ ابھی کل ہی زرداری صاحب نے کہا ’’جو قوتیں انہیں لائیں ہیں انہیں بھی سوچنا چاہیے ‘‘ ، شہباز شریف نے تو قومی اسمبلی کے فلور پر عمران خان کو ’’سیلیکٹ وزیراعظم کہا‘‘، جس پر اسپیکر نے ان کے یہ الفاظ آفیشل کاروائی سے منہا کرادیے ۔ اب کپتان کے حکومت کے خلاف شور شرابا اس قدر بڑھ گیا تھا کہ میڈیا میں ایسی آوزیں آنا شروع ہوگئیں تھیں کہ حکومت اور اپوزیشن میں سنگین قسم کا تصادم ہونے جارہا ہے،شاید جمہوریت خطرہ میں آنے جارہی ہے ۔ مَیں نے اپنے چند روز قبل لکھے گئے کالم ’’ملک میں سیاسی دنگل ‘‘ میں لکھا تھا کہ ’’ یہ شور شرابا ہوتا رہے گا، یہ وقت بتائے گا کہ بجٹ بہت آرام سے اسی شور شرابے اور اپوزیشن کی ہنگامہ آرائی میں پاس ہو جا ئے گا‘‘ اسی میں یہ بھی لکھا تھا کہ’’ ایک اصولی بات ہے ، جب شہباز شریف کو اسمبلی بلوا کر حکومت نے اپنے خلاف تقرریں کروائی اور کروارہی ہے تو زرداری صاحب نے کیا قصور کیا ہے، وہ اسمبلی میں آکر کیا کرلیں گے، انہیں بھی آنے دیا جائے، کوئی فرق نہیں پڑے گا‘‘، اتفاق ہی کہا جائے گا ، اس لیے کہ ہم کیا ہماری آواز کیا اسپیکر نے زرداری صاحب کو کس کے کہنے پر نہ، معلوم نہیں ، اسمبلی میں بلوالیا، نتیجہ یہ ہوا کہ ساری آوازیں جو زرداری صاحب کے لیے پرڈکشن آڈر کے لیے اٹھ رہی تھیں ، پانی کے بلبلے کی مانند بیٹھ گئیں ۔ نون لیگ جو اس ایشو پر پیش پیش تھی وہ بھی خاموش ہوگئی، زرداری صاحب نے اسمبلی میں جو تقریر کی اس کا پوسٹ مارٹم کریں ، مجھے تو ان کی تقریر کا حاصل ’’میثاق ‘‘ نکلتا دکھائی دیتا ہے، وہ میثاق، جمہوریت کے لیے، معیشت کے لیے ہو، جیل سے راہی کے لیے یا کپتان سے دوستی کے لیے ۔ انہوں نے ڈرایا، خوف ذدہ بھی کیا، تحریک کی دھمکی بھی دی، لانے والوں کی بات بھی کی، پھر کہا کہ ’’حساب کتاب اور پکڑ دھکڑ ‘‘ بند کریں ، ’’آگے چلیں ‘‘ ، حکومت کے ساتھ بیٹھ کر معاشی پالیسی پر بات کرنے کو تیار ہیں ، پاکستان ہے تو ہم سب ہیں ‘‘، حالات کا تقاضہ بھی یہی تھا کہ انہیں اسی قسم کی، برد باری ، سوجھ بوجھ والے انسان کی سی باتیں کرنی چاہیے تھیں اور انہوں نے کیں ۔ باتیں تو اور بھی کیں لیکن جو حاصل تقریر ہے وہ یہ کہ وہ کپتان سے ہاتھ ملانے کو تیار ہیں ، جہاں تک زرداری صاحب کے صاحبزادے کا بیان ہے اس کے لیے زرداری صاحب نے ہی کہہ دیا وہ کافی ہے کہ ’’بلاول کی پالیسی ایگریشن (غصے) والی ہے ، میری پالیسی ٹھنڈی ہے‘‘ ۔ یہ سب باتیں کس جانب اشارہ کررہی ہیں میثاق محبت ، میثاق دوستی، نام میثاق معیشت، اچھی بات ہے بری نہیں ، حکومت کی مجبوری بجٹ منظور کرانا ہے ۔ دونوں ضرورت مند ہیں ، یہ ضرورت دونوں کو ایک دوسرے کے قریب لے آئے گی، اس میں کوئی بری بات بھی نہیں ، ملک کے ایک بڑے صوبے میں زرداری صاحب کی حکومت ہے، انہیں مرکز کی ضرورت ہے اور تحریک انصاف کو ملکی حالات کے پیش نظر اپوزیشن میں دراڑیں ڈالنے کی ، نوز شریف سے تو کپتان کی دوستی ہوہی نہیں سکتی، زرداری صاحب سے وقتی دوستی ہوسکتی ہے ۔ بجٹ اہم مجبوری ہے ، اپنے کالم میں یہ لکھ چکا ہوں کہ ’’ اب بجٹ تو پاس ہونا ہی ہے، اگر بجٹ پاس نہ ہوگا تو تصور کریں کہ ملک میں کس خطر ناک قسم کا معاشی بحران جنم لے گا ۔ ملک کا پہیہ جام ہوجائے گا ۔ اپوزیشن کو سوچنا چاہیے، تیسری قوت کے لیے راستہ ہموار نہ کریں ، افہام و تفہیم سے، معاملات کو حل کریں ، جہاں احتجاج کی ضرورت ہے وہاں احتجاج کریں ، جہاں قانونی راستہ اختیار کرنے کی ضرورت ہے وہاں قانونی راستہ ہی اختیار کریں ، حکومت گرا نا اتنا آسان نہیں ۔

زرداری صاحب اسمبلی میں تقریر کر کے گئے دوسرے ہی دن وزیر اعظم عمران خان نے فرمایا ’’حکومت میثاق معیشت پر تیار ہے‘‘ ۔ لیجئے کیا کرے گا مولوی اور کیا کریں گے میاں نوز شریف ، جب دولھا دلھن ہوگئے ہیں رازی ۔ وزیر اعظم کی میثاق کے حوالے سے آمادگی کا اظہار موجودی اسپیکر نے وزیر اعظم سے ملاقات کے بعد کیا، جس جذبے اور وقتی حکمت عملی کا اظہار زرداری صاحب نے کیا تھا جواب میں عمران خان نے ویسے ہی خیالات کا اظہار ہی نہیں کیا بلکہ اپوزیش سے معاملات طے کرنے کے لیے کمیٹی بنانے کے احکامات بھی جاری کردئے گئیں ۔ اس حوالے سے حکومت کی جانب سے اپوزیشن سے ملاقاتیں شروع ہوچکی ہیں ، میثاق معیشت در حقیت سیاسی و معاشی استحکام کی جانب مثبت قدم ہوگا ۔ اس سے معیشت میں تو استحکام آئے گا ، سیاست میں جو آگ کے شعلے بھڑک رہے ہیں ان پر بھی پانی پڑے گا، زرداری صاحب کو چند دنوں میں ضمانت مل جائے گی، فریال تالپور کے گھر سے بہرے دار واپس چلے جائیں گے، پارٹی کی جانب سے بجٹ منظور کرنے کی بات کی جائے گی، جسے ملک کے مفاد میں قبول کر لیا جائے گا، البتہ نواز شریف اور نون لیگ کا کیا بنے گا;238; مولانا صاحب کا کیا ہوگا;238; انہوں نے اور جماعت اسلامی کے سالار نے اے پی سی کی تاریخ کا بھی اعلا ن کردیا ہے، یہ وہ کھلاڑی ہیں جو اس وقت میدان سے باہر بیٹھے ہیں ، چنانچہ باہر بیٹھے ہوئے کیا کچھ کرسکتے ہیں ، وہ بتانے کی ضرورت نہیں ۔ ملک کا مفاد اسی میں ہے کہ سیاسی رنجشیں اپنی جگہ ، اپوزیشن اپنا کام کرتی رہے، اور حکومت کے جو کام ملکی مفاد میں ہوں ان میں معاونت ملک و قوم کے مفاد میں ہوگی ۔ مریم نواز کی پریس کانفرنس سے

معلو م ہوا کہ میثاق معیشت کی تجویز زرداری صاحب سے پہلے میاں شہباز شریف دے چکے ہیں ، لو کر لو گل، حکومت سے باہر ہوں تو اس طرح نکلنے کے لیے آسانیاں پیدا کرنے کے راستے ڈھونڈے جاتے ہیں ۔ اب مریم نے تو صاف کہہ دیا کہ وہ ’’میثاق معیشت پر شہباز سے متفق نہیں ‘‘، قصہ ختم ، مریم اور بلاول میں ابھی ایک ہی ملاقات ہوئی ہے اور دونوں کے خیالات، طریقہ اظہار میں مماثلت پائی جانے لگی ہے، دونوں ہی نے اپنے اپنے اباؤں سے اپنی محبت اور عقیدت کا اظہار کیا ہے، سیاست نہیں کی، بلکہ مریم نے تو واضح کردیا کہ وہ اپنے چچا ابا سے اختلاف رکھتی ہیں ، یہی نہیں بلکہ انہوں نے یہ بھی کہا کہ چچا حضور تو پہلے بھی بعض ایشوز پر مختلف رائے رکھا کرتے تھے ۔ یہی بات احسن اقبال نے بھی کی کہ ’میثاق معیشت کی پیشکش قائد حزب اختلاف نے حکومت کو پیش کی تھی‘‘ ۔ ملکی مفاد میں یہ اچھی بات ہے ۔ اچھی بات ملک و قوم کے مفاد میں جو بھی کرے اسے سراہا جانا چاہیے، عمران خواہ جو کچھ بھی کہیں لیکن یہ کہنے میں تعمل نہیں کہ انہیں حکمرانی کاوہ تجربہ نہیں ،انہیں اندازہ نہیں کہ انہیں کس قدر زیرک ، ہوشیار ، تجربہ کار سیاستدانوں اور سابق حکمرانوں سے واسطہ ہے ۔ حالات کا ادراک کرتے ہوئے انہیں شہباز شریف کی تجویز کو رد نہیں کرنا چاہیے تھا، اس کا مثبت جواب دینا چاہیے تھے، گویا انہیں اس بات کا ادراک نہیں تھا کہ بجٹ صرف بنوالینا ہی کافی نہیں ،اس کا ایوانوں سے پاس کرانا بھی ضروری ہے جب کہ آپ کے پاس منتخب اراکین کی تعداد بھی وہ نہیں کہ آپ تن تنہا کوئی بل بھی منظور کراسکیں ، اس لیے سیاست میں لاکھ دشمنی سہی ایک راستہ ضرور رکھنا چاہیے، سارے ہی سوراخ بند کردیں گے تو ایک وقت آئے گا کہ آپ خود مشکل میں آجائیں گے ۔ وہی ہوا ،جب طوفان سر پر آگیا تو اب ہوش آیا کہ اس کے بغیر گاڑی چلنا مشکل ہوگا، چلیں دیر آید درست آید، اب بھی اگر حالات ساز گار ہوجائیں تو اچھا ہے ۔ حالات اور واقعات یہ بتا رہے ہیں کہ میثاق معیشت طے پاچکا ہے،شیخ رشید نے بھی اس جانب اشارہ کیا ہے، اب جو شور دونوں جانب ہورہا ، وہ شور لیڈروں کے خیر خواہ وزیر، درباری، ماتحت کر رہے ہیں ،مقصد ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لیے،جب کہ سنجیدہ لوگ ایسے باتیں نہیں کر رہے، سابق اسپیکر ایاز صادق نے کہا کہ حالات بہتری کی جانب ہوں تو میثاق معیشت ہوسکتا ہے، خورشید شاہ نے بھی دبے الفاظ میں ، بیس کیڑے نکال کر میشاق کا کہا، اب زرداری صاحب نے یہ نہیں کہا کہ میثاق نہیں ہوسکتا، بلکہ ان کی انا بھی بولی ، کہ’ وزیراعظم خود رابطہ کریں ‘، گویا میشاق تو کرنے کو تیار ہیں ، کپتان ان سے خود رکہے کہ قبلہ زرداری صاحب تشریف لے آئیے کھانے پر یا ناشتہ پر ۔ ساری باتوں کا خلاصہ یہ ہے کہ میثاق معیشت کے نام سے امن میثاق ہوجائے تو یہ ملک و قوم کے مفاد میں ہوگا ۔ اللہ ہمارے ملک کو سلامت رکھے ۔
 

Prof. Dr Rais Ahmed Samdani
About the Author: Prof. Dr Rais Ahmed Samdani Read More Articles by Prof. Dr Rais Ahmed Samdani: 852 Articles with 1280779 views Ph D from Hamdard University on Hakim Muhammad Said . First PhD on Hakim Muhammad Said. topic of thesis was “Role of Hakim Mohammad Said Shaheed in t.. View More