معمہ تو معمہ ہی ہوتا ہے،جس کے
معنی ہی پیچیدہ بات،مبہم چیز اور پہیلی کے ہوتے ہیں،اگر سمجھ میں آگئی تو
ٹھیک،وگرنہ ذہن کے نہاں خانوں کی دیواروں سے ٹکراتی رہتی ہے اور قلب و روح
کو زخمی کرتی رہتی ہے،بدقسمتی سے ہمارے ملک کی سیاست بھی کسی سمجھ میں نہ
آنے والے معمہ سے کم نہیں ہے،حالات کب کون سا رخ اور رنگ اختیار کرلیں اور
کب سیاسی بساط پر مہرے تبدیل ہوجائیں اور کب جیتی ہوئی بازی ہار میں تبدیل
ہوجائے،یہ کوئی نہیں جانتا اور کوئی یقین سے نہیں کہہ سکتا کہ کب ہونی
انہونی اور انہونی ہونی بن جائے ۔
ہمارے ملک کی سیاست کا ابتداء ہی سے یہ المیہ رہا ہے کہ جب بھی جمہوری
قوتوں کی جانب سے سیاسی استحکام کے اسباب فراہم کئے جاتے ہیں،بے چینی،بے
یقینی اور عدم استحکام کے سائے مزید گہرے سے گہرے ہوتے چلے جاتے ہیں،جیسے
جیسے اقتدار کے تحفظ کیلئے حکمران محل کی فصیلیں بلند کرتے اور دیواریں
مضبوط بناتے ہیں،فصیلوں پر کمندیں ڈالنے والوں کے ارادے اور بھی مضبوط اور
پختہ تر ہوتے چلے جاتے ہیں،جس قدر اقتدار کے دوام کیلئے نئی قلعہ بندیاں کی
جاتی ہیں،اسی قدر سیاسی ماحول میں گھٹن اور کشید گی بھی بڑھتی جاتی
ہے،ہمارے خیال میں اِس کی سب سے بڑی بنیادی وجہ جمہوری اصولوں سے رو
گردانی،آئینی اور قانونی تقاضوں سے انحراف اور اتفاق رائے کے بغیر قومی
معاملات میں فرد واحد کی مرضی و منشاء کا عمل دخل ہے،جبکہ حقیقت یہ ہے کہ
فرد واحد خواہ کتنا ہی مخلص،محب وطن،صاحب بصیرت اوردانا و بینا ہی کیوں نہ
ہو،کبھی بھی آئین اور دستوری اداروں کا نعم البدل نہیں ہوسکتا ۔
ہماری 64سالہ تاریخ میں ہر طالع آزما نے آئین کو ملبوس سمجھ کر اپنے قدو
قامت کے مطابق غیر آئینی اقدامات کے بل پر اپنے تئیں ملک و قوم کے مفاد میں
دوررس اصلاحات کا بیڑہ اٹھایا،لیکن جہاں اُس کی اپنی ذات کا بنیادی پتھر
سرکا،وہیں اس کا اپنا تعمیر کردہ بلند و بالا سیاسی قلعہ اور تحفظ دینے
والے وزراء ومشیروں کی مضبوط دیواریں ریت کے گارے کی طرح زمین پر آگریں اور
پلک جھپکتے ہی تمام انقلابات کے دروازے،اصلاحات کی کھڑکیاں،آئینی ترامیم کے
دریچے اور ڈیمو کریسی کی محرابیں ملبے کا ڈھیر بن گئیں ۔
درحقیقت یہی وہ دیرینہ بیماری ہے جو پچھلے 64 سالوں سے اقتدار کے سنگھاسن
پر بیٹھنے والے ہر حکمران کے رگ و پے میں سرایت کرجاتی ہے،اس وقت بھی یہی
دیرینہ بیماری ہمارے حکمرانوں کے دلوں کے دروازے پر دستک دے رہی ہے،انہیں
یہ یقین دلا رہی ہے کہ ”پاکستان بچانے “کے نعرے کی وجہ سے ملک کی تقدیر
سنبھالنے کا فریضہ قدرت نے انہیں سونپ دیا ہے اوراب صاف ستھری
جمہوریت،اقتصادی انقلاب،ترقی و خوشحالی کے تمام راستے اور عوامی فلاح و
بہبود کے تمام چشمے صرف انہی کی ذات سے پھوٹیں گے،ملک و قوم کا مستقبل اور
قوم کی ترقی و خوشحالی کی ضمانت اور بقاء اب اُن کی ذات سے مشروط ہے ۔
یہی وہ خام خیالی اور خود فریبی ہے،جس نے پیپلز پارٹی اور دیگر حکومتی حلیف
جماعتوں کے درمیان مفاہمت کے پُر امن ماحول میں دراڑ یں ڈال کر اُن کے
راستے جدا جدا کردیئے ہیں ، جس کی وجہ سے مستقبل میں قومی یکجہتی اور باہمی
مفاہمت کے امکانات معدوم ہو گئے ۔
18فروری 2008ءکے اُس عظیم عوامی مینڈیٹ جس کے نتیجے میں قومی سیاست میں
مفاہمت اور مصالحت کی فضا اور جیو اور جینے دو کے جس جذبے اور ولولے نے نمو
پائی تھی،سندھ کے وزیر داخلہ کے تندوتیز بیانات سے ہواؤں میں تحلیل ہوگئی
ہے،جو دونوں بڑی جماعتوں کے درمیان افہام و تفہیم اور باہمی روا داری کی
بنیاد پر پیدا ہوئی تھی اور بالآخر وہی ہونے جارہا ہے جس کا اندیشہ سیاسی
مبصرین ظاہر کررہے تھے ۔
سیاسی کشیدگی اب مفاہمت کے دائروں سے نکل کر سیاسی مصلحتوں ،ٹکراؤ ا ور ایک
دوسرے کو نیچا دکھانے کا چلن بن گئی ہے،یوں لگتا ہے کہ 1990ءوالا محاذ
آرائی کا دور پھر سے شروع ہونے جارہا ہے،اگر ایسا ہوا تو ہماری بہت بڑی
بدقسمتی ہوگی،یہ کتنی عجیب صورتحال ہے کہ تین سال قبل جب عوام ایک آمر مطلق
کے ساتھیوں اور پالیسی کو مسترد کر کے جمہوری قوتوں کو ووٹ دے رہے تھے تو
ان کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ عوام کی عزت و تکریم،ملکی وقار اور
حقیقی جمہورت سمیت کچھ بھی بحال نہیں ہوگا،بلکہ الٹا شرمناک حقیقتیں اور
ملکی سلامتی کے حوالے سے خوفناک نتائج بے نقاب ہونگے اور عوام کا قائدین سے
سیاسی اعتبار ہی اٹھ جائے گا۔
یہ کتنی شرمناک حقیقت ہے کہ ریمنڈ ڈیوس جیسے نہ جانے کتنے امریکی جاسوس
ہماری سرزمین پر دندناتے پھر رہے ہیں، امریکی جاسوس طیاروں کیلئے ہماری ہی
سرزمین استعمال ہورہی ہے،یہ صرف چند مثالیں ہیں جبکہ اس طرح کی کتنی وہ تلخ
حقیقتیں ہیں جو آج بھی پاکستان کی بھولی عوام سے پوشیدہ ہیں اور ارباب
اقتدار عوام کی آنکھوں میں دھول جھونک کر بیرونی قوتوں کی کاسہ لیسی میں
مصروف ہیں،حقیقت یہ ہے کہ ایک منتخب سیاسی عوامی حکومت کا انتخاب عوام نے
اپنی محرومی اور ان جمہوری حقوق کی بازیابی کیلئے کیا تھا جو ایک آمر مطلق
نے آٹھ سال سے سلب کر رکھے تھے،عوام آئین میں نقب لگانے والے اور بیرونی
طاقتوں کے ہاتھوں ملک کے قومی مفادات کا سودا کرنے والوں کا احتساب چاہتے
تھے ۔
لیکن پاکستان کی بھولی عوام کی یہ آرزو اور خواہش برسر اقتدار آنے والوں کے
ایجنڈے کے خلاف تھی،جس کی وجہ سے آئین کو دوبار توڑنے اور عدلیہ و عوام کو
بے توقیر کرنے والوں کو مکمل تحفظ دیکر فوجی اعزاز کے ساتھ رخصت کیا گیا
اوراس دن کے بعد سے تاحال عوام اور اہل اقتدار کی ترجیحات ایک دوسرے کے
خلاف اور متصادم ہیں ۔
یہ حقیقت ہے کہ پاکستان اس وقت اپنی تاریخ کے انتہائی نازک دور سے گزر رہا
ہے،موجودہ ریاستی نظام اپنی اصل جمہوری شکل و صورت کھو چکا ہے،جب تک ہمارے
حکمران ملک و قوم کی مرضی و منشاء کے خلاف بیرونی دباؤ اور مصلحت کے تحت
فیصلے کرنے ختم نہیں کردیتے اُس وقت تک عوامی و تائید و حمایت یافتہ ایک
جمہوری حکومت کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکتا،یاد رکھیں کوئی بھی جماعت
اور حکومت پس پردہ قوتوں کی بدولت حکومت تو کرسکتی ہے لیکن عوامی امنگوں
اور قومی وقار کے منافی طرز عمل کی وجہ سے عوامی جذبات کی ترجمان نہیں بن
سکتی ۔
ایسی حکومت جلد یابدیر اپنے انجام سے دوچار ہوجاتی ہے،لہٰذا ہم ارباب
اقتدار سے گزارش کرتے ہیں کہ وہ جمہوری اصولوں سے رو گردانی،آئینی اور
قانونی تقاضوں سے انحراف اور اتفاق رائے کے بغیر قومی معاملات چلانے کیلئے
اپنی مرضی و منشاء کا عمل دخل اور طاقت وعقل کل کی خود فریبی کی دیرینہ
بیماری کے سحر سے باہر نگلیں اور تمام جمہوری سیاسی قوتوں کو ساتھ لے کر
چلنے کا عزم کریں،ابھی کچھ نہیں بگڑا،ابھی بھی سنبھلنے کا وقت ہے،یاد
رکھیئے فہم و فراست اور سیاسی سوج بوجھ کا عملی مظاہر ہ ہی پاکستان میں
جمہوریت کو دوام اور ملک کے جمہوری مستقبل کو محفوظ رکھ سکتا ہے ۔ |