دیدار شاہ کا معاملہ، عدلیہ کا فیصلہ، پی پی پی کا احتجاج یا سندھ کارڈ

صدر زردازری ،قوم ،جمہوریت اور مَصنوعی تنفس ....!!!
حکمرانوں اور سیاست دانوں کے سیاسی مفادات ......؟؟؟
حکمرانوں!اور سیاستدانو کی نورا کشتی میں کُچلتی اور تالیاں بجاتی بے بس عوام.....؟؟

یہ بات سمجھ نہیں آرہی ہے کہ چیئرمین نیب جسٹس (ر)دیدار حُسین شاہ کی تقرری کو جب سُپریم کورٹ نے کالعدم قرار دیا تو پاکستان پیپلز پارٹی نے سُپریم کورٹ کے اِس فیصلے کے خلاف احتجاج کیو ں کیا....؟؟اور یہ کہ پاکستان پیپلز پارٹی جس کی تاریخ گواہ ہے کہ یہ وہ جماعت ہے جس نے ہمیشہ ملک کی اعلیٰ عدلیہ کے ہر فیصلے کو احترام کی نگاہ سے دیکھا ہے مگر آج اعلی ٰ عدالتوں کا احترام کرنے والی اِس جماعت کو یوں اچانک بیٹھے بیٹھائے اُس وقت اِسے کیا ہوگیا .....؟؟اور اِس نے ماضی کی اپنی اُن تمام اچھی روایات کو کیوں پسِ پست ڈال دیا....؟؟ جس سے متعلق آج بھی اِس کی مثالیں دی جاتی تھیں یعنی اُس وقت اِس میں برداشت کیوں بلکل ختم ہوگیا....؟؟جب سُپریم کورٹ کے جسٹس جاوید اقبال کی سربراہی میں جسٹس راجہ فیاض احمد اور جسٹس آصف سعید کھوسہ پر مُشتمل بنچ نے چیئرمین نیب جسٹس (ر) دیدار حُسین شاہ کی تقرری کو کالعدم قرار دیتے ہوئے اِنہیں حُکم دیا کہ یہ فوری طور پر چئیرمین نیب کا عہدہ چھوڑ دیں جس کے بعد چیئرمین نیب جسٹس (ر) دیدار حُسین شاہ نے اپنا عہدہ چھوڑ دیا اور اِن کی جگہ جاوید ضیاء نیب کے قائم مقام سربراہ مقرر دیئے گئے۔اگرچہ اِس سارے پس منظر میں دیکھا جائے تو ایک حقیقت کچھ اِس طرح سے عیاں ہو گی کہ آج جسٹس (ر) دیدار حُسین شاہ کو چیئر مین نیب سے ہٹانے کی جو وجہ بنی وہ قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر چوہدری نثار علی خان اور شاہد اورکزئی کی وہ آئینی درخواستیں تھیں جن میں یہ موقف اختیار کیا گیا تھا کہ چیئرمین نیب کی تقرری کے عمل میں مشاورت کے قانونی تقاضے پورے نہیں کئے گئے جس پر اپوزیشن لیڈر کے وکیل اکرم شیخ نے موقف اختیار کیا تھا کہ جب آرڈیننس کی دفعہ 6 کے تحت اپوزیشن لیڈر سے مشاورت کا عمل نہیں کیا گیا جس پر اپوزیشن لیڈر نے جسٹس (ر) دیدار حُسین شاہ کی بطور چیئرمین نیب تقرری کے حوالے سے وزیراعظم کی جانب سے ٹیلی فونک کال پر اپنی عدم رضامندی ظاہر کی تھی جس میں اپوزیشن لیڈر کا ایک موقف یہ بھی تھا کہ چوں کہ جسٹس دیدار حُسین شاہ کا ایک سیاسی پس منظرہے اور وہ پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر سندھ اسمبلی کے رُکن بھی منتخب ہوچکے ہیں جبکہ اکرم شیخ نے اپنے دلائل میں یہ موقف بھی اختیار کیا تھا کہ تقرری میں وزیراعظم کی ایڈوائس بھی لازمی تھی لیکن اِس امر کو بھی نظر انداز کیا گیا جبکہ صدر آئین کے آرٹیکل48کے تحت کوئی بھی عمل وزیراعظم کی ایڈوائس کے بغیر نہیں کرسکتے جس کے بعد یہ سُپریم کورٹ سے یہ فیصلہ آیا جِسے آج حکمران جماعت پاکستان پیپلز پارٹی ماننے کو تیار نہیں ہے اور اِس حوالے سے بعض اطلاعات یہ آرہی ہیں کہ حکمران جماعت نے سُپریم کورٹ کا فیصلہ مسترد کرتے ہوئے اپوزیشن کے تمام تحفظات دور کرنے کے بعد دیدار حُسین شاہ کو دوبارہ چیئرمین نیب بنانے کا فیصلہ کیا ہے اِس حوالے سے پاکستان پیپلز پارٹی سندھ کے سیکریٹری جنرل اور سندھ حکومت کے میڈیا کو آرڈینیٹر تاج حیدر نے اپنے دفتر میں ایک پریس کانفرنس کرتے ہو یہ موقف اختیار کیا کہ جسٹس (ر) دیدار حُسین شاہ کی بطور چیئرمین نیب تقرری کے خلاف سُپریم کورٹ نے جو فیصلہ دیا ہے اِس پر سندھ میں یہ اِحساس بڑی شدت سے پیدا ہوا ہے کہ جسٹس (ر) دیدار حُسین شا ہ کا تعلق چوں کہ سندھ سے ہے لٰہذا سُپریم کورٹ کی طرف سے اِس طرح کا فیصلہ آیا ہے اِن کا یہ بھی کہنا تھا کہ کون اِس بات کو کُھلے دل سے تسلیم کرتے ہوئے یہ یقین کر لے گا کہ اِس تقرری میں وزیراعظم سے مشاورت نہیں کی گئی اور شائد اِس بات پر کوئی سو فیصد یقین بھی نہ کرے کہ اِس اہم عہدے پر تقرری کے لئے وزیراعظم کو اعتماد میں نہیں لیا گیا اور اُنہوں نے اپنی پریس کانفرنس میں یہ بھی کہا کہ سُپریم کورٹ نے وزیراعظم سے بھی یہ نہیں پوچھا کہ آیا اِنہیں اِس تقرری پر اعتراض ہے یا نہیں .....اور اِس کے ساتھ ہی تاج حیدر نے یہ بھی کہا کہ جسٹس (ر) دیدار حُسین شاہ کی غیر جانبداری اور دیانتداری مُسلم ہے کسی نے اِن کی تقرری پر انگلی نہیں اُٹھائی....اور اِس کے باوجود اِن کے خلاف یہ فیصلہ آنا جو ہر باشعور پاکستانی کے دل و دماغ پر یقیناً ایک ہتھوڑے کی طرح کاری ضرب لگاتے ہوئے گزر گیا ہے اِس موقع پر میں یہ سمجھتا ہوں کہ ملک میں پیداہونے والی اِس ساری نئی سیاسی صُورتِ حال کے حوالے سے اَب دیکھنا یہ ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی سندھ نے سُپریم کورٹ کی جانب سے چیئرمین نیب جسٹس(ر) دیدار حُسین کی تقرری کالعدم قرار دیے جانے کے اِس اُصولی فیصلے کے خلاف گزشتہ جمعہ کو جو یوم احتجاج منایا کیا اِس کا یہ یوم احتجاج درست تھا....؟اور کیا اِس کے اِس طرح غیر ضروری اور اشتعال انگیز اقدامات اِس جانب واضح اشارہ نہیں دے رہے ہیں کہ اَب حکمران جماعت سیاسی مصالحتوں کا شکار ہوکر اعلی ٰ عدالتوں سے ٹکراؤ کی حد تک اُتر آئی ہے .....؟؟جس کے لئے یہ اَب سندھ کارڈ استعمال کرنے سے بھی دریغ نہیں کررہی ہے.....؟آخر ایسا کیوں ہے اِن محرکات کا پتہ لگانا اور اِس کے آئندہ ہونے والے نقصانات سے قوم کو آگاہ کرنے اور کرانے کی ذمہ داری جہاں اہلِ سیاست پر عائد ہوتی ہے تو وہیں اُن لوگوں کا بھی یہ کام ہے کہ وہ بھی اِس بات کو اچھی طرح سے واضح کریں کہ اپوزیشن لیڈر نے کہیں کوئی سیاسی بازی تو نہیں کھیلی جس کی وجہ سے اتنا بڑا المیہ گزر گیا۔آج ملک کی سیاسی اور معاشی لحاظ سے بد سے بدترین ہوتی ہوئی صُورتِ حال کو دیکھتے ہوئے یقینی طور پر ہر پاکستانی یہ ضرور سوچ رہا ہوگا کہ جیسے صدر زرداری ، اپوزیشن ،قوم اور جمہوریت سب کے سب مُصنوعی تنفس سے چل رہے ہیں اور نہ ہی کسی میں اَب اتنی سکت کہاں باقی رہ گئی ہے کہ کوئی سیاسی اور معاشی طور پر کمزرو ہوتے ملک کی حالت کو سنبھال لے کیونکہ ہم دیکھ رہے ہیں کہ اِس حوالے سے نہ تو صدر زرداری ہی کچھ کرنے اور کرانے کی پوزیشن میں نظر آتے ہیں اور نہ ہی ملک کو بحرانوں اور سیاسی تناؤ سے نجات دلانے کے لئے اپوزیشن سمیت قوم ہی میں کوئی ایسی بیتابی اور اضطرب کا عنصر پیدا ہو رہا ہے کہ جِسے دیکھ کر یہ کہا جاسکے کہ حکمران تو بے حس ہو ہی گئے ہیں مگر قوم اور سیاست دانوں میں تو ملک اور قوم کو سنبھالنے کے لئے ابھی جان باقی ہے اور اِس جمہوریت کا کیا ہے....؟؟ جس میں لوگ اِس کی پوجا تو کرتے رہیں مگر یہ اِن کے کوئی ایک ڈھلے کی بھی کام نہ آسکے تو ایسی جمہوریت کا کیا فائدہ جو آمر یت سے بھی گئی گزری ہو یہاں میں نے بدترین جمہوریت سے اُس بدترین آمریت کو اچھی قرار دیا ہے جس میں کم ازکم سیاست دان تو قوم کو بے وقوف نہیں بنا پاتے ہیں......!! جیسے کہ اِن دنوں ہمارے حکمران اور اکثر سیاستدان جمہوریت کا لبادہ اُوڑھ کر قوم کو بے وقوف بنارہے ہیں کیونکہ آج ملک کو جمہوریت کے راگ گانے والوں نے اِسے اِس نہج پر پہنچا دیا ہے کہ یہ سیاسی اور معاشی اعتبار سے تباہ وبرباد ہو کر رہ گیا ہے اور اِن ہی جمہوری لوگوں کی مسلسل غلط کاریوں کے باعث ملک کے سیاسی اور معاشی حالات اِس قابل نہیں رہے ہیں کہ اِسے سنبھلنے کی کوئی اُمید کی جاسکتی ہوں اور اَب اِن حالات میں تو کوئی بھی یہ نہیں کہہ سکتا ہے کہ اپنے اندورنی اور بیرونی طور پر گھمبیر مسائل میں اُلجھی یہ موجودہ حکومت ملک کے حالات سُدھار پائے گی....؟ کیونکہ یہ بات اَب کثرت سے اہلِ دانش کے مشاہدات میں آنے لگی ہے کہ جیسے جیسے یہ حکومت اپنی مدت پوری کرنے کی جانب بڑھ رہی ہے ویسے ویسے ملک کی ایک بڑی حزب اختلاف کی جماعت (پی ایم ایل ن) اپنے سیاسی مفادات کے حُصول کے خاطر اِس حکومت کے لئے مشکلات اور پریشانیوں میں اضافہ کرتے جارہی ہے اور اِن حالات میں کہ جب اُوپر سے لے کر نیچے تک سب کے سب سیاسی مفادات اور آئی ایم ایف سمیت ورلڈ بینک کے شکنجوں میں جکڑے جاچکے ہوں تو پھر ایسے میں ملک میں جاری سیاسی مفادات کے حُصول کے خاطر ہونے والی نورا کُشتی کے تناظر میں شاعر نے جو کہا ہے وہ ہر لحاظ سے درست کہا جاسکتا ہے تو عرض ہے کہ:-
لڑتے ہیں آج منصب وکُرسی کے واسطے مِٹتے تھے کل جو جادہِ عشقِ جہاد میں
قُوم و وطن کا آج کسی کو نہیں خیال ڈوبی ہوئی ہے قُوم سِیاسی مفاد میں

اِن دنوں ملک میں ہونے والی سیاسی کشمکش اور تناؤ جیسی پیدا ہونے والی غیر یقینی صُورت حال کے حوالے سے بھی اگر موجودہ حکومت کی گزشتہ تین سالہ کارکردگی کا بغور جائزہ لیا جائے تو ہر خاص وعام کی زبان پر یہ ایک ہی جملہ تُرنت آجائے گا کہ یہ حکومت مکمل طور پر ایک ناکام اور نااہل حکمرانوں پر مشتمل ایک ایسی حکومت ثابت ہوئی ہے جس کی مثال ملک کی 63سالہ تاریخ میں کہیں نہیں ملتی ہے اِس لئے کہ یہ حکومت شائد دیدہ و دانستہ طور پر اپنے اقتدار کے پہلے دن سے لے کر اَب تک ملک و قوم کے استحکام اور ملک سے مہنگائی کے خاتمے سے لے کر آٹے ، چینی اور توانائی کے بحرانوں سے نمٹنے سمیت دیگر دوسرے مسائل کے حل کے لئے کوئی ایک بھی ایسا تسلی بخش کام انجام نہیں دے پائی ہے کہ جس سے قوم کا اِس حکومت پر اعتماد بحال ہوا ہو اور یہ کہہ اُٹھی ہو کہ ہماری یہ موجودہ حکومت عوامی توقعات پر پوری اُتری ہے اِن حالات میں کہ جب قوم کو روٹی ،کپڑا اور مکان کا نعرہ دینے والی پاکستان پیپلزپارٹی کی حُکمرانی قائم ہو اور اِس پارٹی کی حکومت کے تین سال کے ایک طویل عرصے کے دوران قوم روٹی ، کپڑا اور مکان سے یوں محروم ہوگئی ہو جیسے موسمِ خزاں میں درخت اپنے پتوں سے محروم ہوجاتے ہیں مگر آج باغ کے خزاں زدہ اُن درختوں جن کے پتے اِن کی شاخوں سے جھڑ چکے ہوں اور ہمارے ملک کی مفلوک الحال قوم میں صرف یہی تو فرق باقی رہ گیا ہے کہ درختوں کو یہ تو یقین ہوتا ہے کہ موسمِ بہار میں اِن کی شاخوں پر نئے پتے آجائیں گے اور یہ رفتہ رفتہ پھر اپنی اُسی حالت میں دوبارہ آجائیں گے جیسے یہ موسمِ خزاں سے پہلے تھے مگر پاکستانی قوم آج جِسے سیاسی موسمِ خزاں کا سامنا ہے اِسے یہ یقین اَبھی تک نہیں آ پایا ہے کہ اِس سے اِس عوامی اور جمہوری حکومت نے گزشتہ تین سالوں کے دوران روٹی ، کپڑا اور مکان سے جس طرح محروم کیا ہے ....!!کیا یہ حکومت اپنے کسی اچھے اور قابلِ تعریف فعل یا کسی اچھے منصوبے سے دوبارہ اِسے روٹی ،کپڑا اور مکان دے پائے گی.....؟جو اِس عوامی اور جمہوری حکومت نے ملک میں بے تحاشہ مہنگائی کر کے ملک کی مفلوک الحال عوام کو سیاسی خزاں زدہ کر کے یہ ساری چیزیں(روٹی ، کپڑا اور مکان ) اِس سے چھین لی ہیں اِس موقع پر کہنے والے توآج یہ تک بھی کہہ رہے ہیں کہ ملک کی موجودہ سیاسی صُورتِ حال کے تناظر میں اگر دوسری جانب دیکھا جائے تو یوں لگتا ہے کہ جیسے ہمارے ملک کے موجودہ حکمران جنہوں نے نہ صرف اپنی نااہلی کی بِنا پر ملک کا بیڑاغرق کردیا ہے بلکہ اُنہوں نے اپنی اِسی نااہلی اور ناتجربہ کاری کی وجہ سے اِس کی رہی سہی ساکھ کا بھی ستیاناس کرنے کا بیڑا اُٹھا رکھا ہے اور اِس میں کوئی شک نہیں کہ صدر زرداری جو بڑی حد تک تو ایک سیاسی تدبر اور فہم وفراست کے مالک ضرور ہیں مگر یہ بیچارے بھی اکیلے بھلا کیا کرسکتے ہیں جب تک اِن کے ساتھ کام کرنے والے سارے کے سارے لوگ بھی حکومتی اُمور کی انجام دہی کے لئے اہل اور تجربہ کار نہ ہوں بہرکیف!معاف کیجئے گا!کہ آج کہنے والے تو یہ تک بھی کہہ رہے ہیں کہ قوم کو یہ احساس بھی بڑی شدت سے ہونے لگا ہے کہ صدر زرداری جو ملک اور قوم کے لئے بہت کچھ کرنے کا خیالی ارادہ اور عزم تو ضرور رکھتے ہیں مگر یہ عملی طور پر کچھ کرنے سے قطعاَ َقاصر ہیں کیونکہ یہ اپنے اردگرد منڈلاتے نااہل اور ناتجربہ افراد کے نرغے میں کچھ ایسے پھنس چکے ہیں جن سے اَب یہ نکلنا بھی چاہیں تو شائد نہ نکل سکیں اور اِس کے ساتھ ہی یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ گزشتہ جمعہ کو پی پی پی کی جانب سے جسٹس (ر) دیدار حُسین شاہ کے خلاف آنے والے سُپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف کراچی سمیت سندھ بھر میں اچانک ہونے والے احتجاج اور ہڑتال سے ملکی معیشت کا جو نقصان ہوا سو ُہوا ہوگا جس کی تو شائد احتجاج اور ہڑتال کرنے والوں کو کوئی فکر بھی نہ ہو مگر کم ازکم اپنے کسی بھی سیاسی معاملے میں ہڑتال اور احتجاج کرنے کی کال دینے والوں کو یہ ضرور سوچ لینا چاہئے کہ اِن کی اِس ہڑتال اور احتجاج کی کال سے سب سے زیادہ نقصان روزانہ کی اُجرت پر کام کرنے ، ٹھیلا لگانے اور مزدوری کرنے والوں کا ہی ہوگا اور سب سے زیادہ یہی لوگ متاثر ہوں گے ....؟؟جن کی اہمیت نہ تو سیاست دانوں کی ہی نظر میں کچھ ہوتی ہے اور نہ ہی حکمران ہی اِنہیں کچھ سمجھتے ہیں جبکہ ہر سیاستدان اِن ہی کی وجہ سے اپنی سیاست چمکا رہا ہوتا ہے اور ہر حکمران اپنی حکمرانی کے غیض وغضب کے پہاڑ بھی ملک کے اِن ہی غریب اور کمزرو مزدور لوگوں پر ڈھا رہا ہوتا ہے یہ لوگ کیا یہ سمجھتے ہیں کہ حکمرانوں اور سیاستدانوں کی اِس سیاسی لڑائی جِسے نورا کُشتی بھی کہا جاتا ہے یہ غریب لوگ نہیں سمجھتے ....؟؟سمجھتے ہیں اور سب اچھی طرح سے سمجھتے ہیں مگر یہ غریب لوگ حکمرانوں اور سیاستدانوں کی سیاسی نورا کُشتی میں کُچلے جانے کے باوجود بھی اِن کی جیت کے لئے تالیاں بھی بجاتے ہیں اور ڈنڈے بھی کھاتے ہیں جِسے جمعہ کو ہونے والی ہڑتال میں یہی غریب طبقہ سب سے زیادہ پسا بھی اور متاثر بھی ہوا اور اِسی کے املاک کو شرپسندوں نے نذرِ آتش بھی کیا....اور اِن کے ہاتھوں مارا بھی یہی گیا۔ مگر پھر خوش رہا اور ہڑتال کو کامیاب ثابت کر گیا۔(ختم شد)
Muhammad Azim Azam Azam
About the Author: Muhammad Azim Azam Azam Read More Articles by Muhammad Azim Azam Azam: 1230 Articles with 971209 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.