نئی حکومت نے اقتدار میں آنے سے پہلے تبدیلی کے بڑے
بڑے بھاشن دے رکھے تھے۔ اقتدار میں آتے ہی سارے بھاشن دم توڑگئے۔ عمران خان
کے بڑے بڑے دعوے محض دعوے ہی رہے۔ حقیقت کا روپ نہیں دھارسکے۔ عمران خان ہر
چند دنوں بعد میڈیا پر آکر قوم سے خطاب کررہے ہیں اور کہہ رہے ہیں گھبرانے
کی ضرورت نہیں ہے ، بس آپ ٹیکس دیں، ملک ترقی کرے گا۔ جو قوم ٹیکس نہیں
دیتی وہ قوم دوسروں پر انحصار کرتی ہے اور کبھی بھی ترقی نہیں پاسکتی۔ بہت
اچھی بات ہے کہ ٹیکس دینا چاہیے تاکہ ملک کا انتظام و انصرام درست طریقے سے
چل سکے اور ملک کا انحصار کسی اور پر نہ رہے اور قرضے بھی اتر سکیں۔ لیکن
یہاں بات یہ ہے کہ ٹیکس دینے کی ذمہ داری کس کی ہے؟ حکمرانوں کی ؟ بڑے بڑے
تاجروں کی؟ چھوٹا موٹا کاروبار کرنے والوں کی؟ یا تنخواہ دار شخص کی؟ اگر
پاکستان کی تاریخ کے تناظر میں دیکھا جائے تو یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ
ہمارے ملک میں صرف وہی ٹیکس دینے کا پابند ہے جو کسی سے قرضہ لیے بغیر اپنے
تئیں صرف دو وقت کی روٹی اور اپنے بیوی بچوں کی بنیادی ضروریات پوری کرنے
کے لیے چھوٹا موٹا کاروبار لے کر بیٹھاہوا ہے۔ اس کی ذمہ داری ہے کہ وہ
اپنی کمائی ہوئی ایک ایک پائی کا آڈٹ کروائے اور آمدنی پر پورا پورا ٹیکس
دے بلکہ کچھ ایکسٹرا بھی دے کیونکہ اس کا تعلق کسی بھی سیاسی جماعت سے نہیں
ہے اور اس کی پشت پر کسی منسٹر یا سیاستدان کا ہاتھ نہیں ہے۔ اس کے علاوہ
جو بڑے بڑے تاجر ہیں اور بڑی بڑی فیکٹریاں لے کر بیٹھے ہوئے ہیں، ان کے لیے
مکمل ٹیکس دینا ضروری نہیں ہے کیونکہ ہر بڑے کاروبار کرنے والے شخص کا کوئی
نہ کوئی سیاسی تعلق نکل آتا ہے اور وہ آٹے میں نمک کے برابر ٹیکس دے کر
اپنی جان چھڑالیتا ہے۔ اربوں اور کروڑوں کا کاروبار کرنے والے چند ہزار
روپے ٹیکس دے کر اپنے آپ کو بہت بڑے محب وطن ظاہر کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
اسی طرح سیاستدان اور حکمران طبقہ تو اپنے آپ کو ٹیکس سمیت اپنے آپ کو ہر
قانون سے بالاتر سمجھتا ہے۔ یہ وہ طبقہ ہے جس کی آمدن کا کوئی حساب ہی نہیں
ہے۔ اس طبقہ کی جائیداد نہ صرف ملک تک محدود ہے بلکہ بیرونِ ملک میں بھی ان
کے اثاثے موجود ہوتے ہیں۔ یہ طبقہ اپنے آپ کو ٹیکس دینے والوں میں نہیں
بلکہ ٹیکس لینے والوں میں شمار کرتا ہے اور عوام کا خون چوسنے میں کوئی کسر
نہیں چھوڑتا۔ سب سے بڑی مثال موجودہ وزیرِ اعظم کی ہے جو اپنی تقاریر میں
مستقل عوام کو ٹیکس دینے کا سبق دے رہے ہیں اور اس کے فائدے بتارہے
ہیں۔وزیر اعظم عمران خان نے اپنے ایک خطاب میں کہا کہ ’’ جب تک ایف بی آر
میں اصلاحات نہیں ہو ں گی ہم ٹیکس اکٹھا نہیں کرسکیں گے جو ہماری ضروریات
پوری کرنے کے لیے کافی ہو ، ہمارا ٹیکس جواکٹھا ہوتاہے وہ ساڑھے چارہزار
ارب ہے اور اس میں سے جو قرضوں کی قسطیں ادا کرنی ہیں وہ دوہزار ارب ہیں
اور باقی ڈھائی ہزار ارب رہ جاتاہے ، ہمارا وفاقی بجٹ ہی خسارے سے شروع
ہوتاہے ۔ ٹیکس بڑھانے تک خسارہ ختم نہیں ہوسکتا ، ہم نے ایف بی آر کوٹھیک
کرنے کے لیے پورا زور لگاناہے لیکن بزنس کمیونٹی نے بھی مدد کرنی ہے ، میرے
لیے نہیں بلکہ اپنے ملک کے لیے ، ہم نے پوری ایک مہم چلانی ہے کہ ٹیکس دینے
والے سمجھیں کہ ہم نے قوم کے لیے ٹیکس دیناہے ‘‘۔ وزیر اعظم کی اس تقریر کے
تناظر میں ملک کے سابق حکمرانوں اور موجودہ حکمرانوں کی فہرست اٹھا کر دیکھ
لیں کہ وہ کتنا ٹیکس اداکرتے ہیں، اربوں اور کھربوں روپے کا کاروبار کرنے
والے چند ہزار ٹیکس دے کر جان چھڑالیتے ہیں اور کوئی انہیں پکڑنے کی جسارت
بھی نہیں کرتا۔ بدقسمتی سے اس میں کوئی شک نہیں کہ یہاں قانون صرف عوام کے
لیے ہے ، خواص ہر جگہ اپنے لیے استثنا ڈھونڈ لیتے ہیں ۔ عمران خان ہی کی
بات کرلیتے ہیں جو خود کئی ایکڑ ارضی زمین کے مالک ہیں اور بینک اکاؤنٹ میں
کروڑوں روپے ہیں۔ قیمتی زرعی اراضی رکھنے اور سینکڑوں ایکڑ زراعتی رقبہ
رکھنے اور بینک اکاؤنٹس میں کروڑوں روپے موجود ہونے کے باوجود عمران خان نے
2015ء میں 73ہزار روپے ٹیکس ادا کیا ۔ گذشتہ سال الیکشن کمیشن میں جمع
کرائی گئی اثاثوں اور ٹیکس ریٹرن کی تفصیلات کے مطابق عمران خان 168ایکڑ
زرعی زمین کے مالک تھے اور پاکستان میں14مختلف مقامات پر جائیدادیں تھی۔
اثاثہ جات کی تفصیل کے مطابق زرعی زمین پر 23لاکھ ساٹھ ہزار روپے کی آمدن
ہوئی جس پر تین لاکھ انیس ہزار پانچ سو روپے ٹیکس ادا کیا گیا۔ ذراسوچیے!
بلکہ ذرا نہیں پورا سوچیے! 168ایکڑ زرعی زمین پر صرف 23لاکھ آمدن؟ معمولی
سی عقل رکھنے والا کوئی بھی شخص یہ ماننے پر آمادہ نہیں ہوسکتا۔ ایک بات
اور ہے ، وہ یہ کہ اس ٹیکس میں بطورِ ایم این اے ان کی تنخواہ سے کٹنے والا
ٹیکس ، بطورِ کرکٹر ان کو ملنے والی پینشن سے کٹنے والا ٹیکس بھی شامل ہے ۔
اگر تنخواہ اور پینشن سے کٹنے والی ٹیکس کی رقم نکال دیں تو خود اندازہ
لگائیں کہ انہوں نے اپنی جیب سے کتنا ٹیکس ادا کیا ہوگا؟ مزید یہ کہ یہ
حکومت میں آنے سے پہلے کی وہ تفصیل ہے جو ظاہر کی گئی ہے، اس کے علاوہ جو
ظاہر نہیں کیا گیا وہ کتنا ہو گا؟ اندازہ بھی نہیں لگایا جاسکتا۔ الغرض
کہنے کا مقصد یہ ہے کہ ٹیکس دینے پر ابھارنے والے اور ٹیکس کے فوائد بتانے
والے وزیرِ اعظم صاحب کا خود کیا حال ہے؟ آپ نے دیکھ لیا ۔ کم و بیش یہی
حال ہر تقریبا ًتمام سیاستدانوں اور حکمرانوں کا ہے۔
حکمران طبقہ بڑے زور و شور سے دوسرے ممالک کی مثالیں دے رہا ہے کہ فلاں ملک
میں عوام اتنا ٹیکس دیتی ہے ۔ پاکستان میں بھی عوام کو ٹیکس دینا چاہیے۔ ان
سے گزارش ہے کہ دوسرے ملکوں میں ٹیکس ریٹ اور اس کی شرح کی مثالیں دینے کے
ساتھ ساتھ ذرا یہ بھی بتائیں کہ اس ملک نے عوام کو کیا کیا سہولیات دی ہیں۔
اور پھر یہ بھی بتائیں کہ ہم نے کیا کیا سہولیات چھینی ہیں اور کن بنیادی
ضروریات سے محروم کیا ہے۔ یہاں نہ پانی ہے، نہ بجلی ہے، نہ گیس ہے، نہ جان
، مال اور عزت کی حفاظت ہے۔ اس ملک میں عوام کے لیے کچھ بھی نہیں بچا ۔ اس
کے باوجود ٹیکس کے انبار لگادینا کہاں کا قانون ہے؟ حالانکہ عوام اپنی
تنخواہ سے لے کر ضرورت کی ہر چیز یہاں تک کہ ماچس کی ڈبیہ پر بھی ٹیکس دیتی
ہے ، اس کے باوجود ہ راگ الاپنا کہ عوام ٹیکس نہیں دیتی یا عوام ٹیکس چور
ہے، کیسے درست ہوسکتا ہے؟ سوال یہ ہے کہ جو ٹیکس ہر چیز پر لیاجارہا ہے وہ
کہاں جارہا ہے؟ ہر خریدی گئی چیز پر ٹیکس لاگو ہوتا ہے۔ اس کا کوئی حساب
ہے؟
سیدھی سی بات یہ ہے کہ عوام کو ریاست پر اعتماد نہیں ہے ۔ عوام کئی بار
ریاست سے دھوکہ کھا چکی ہے۔ عوام وہ وقت بھی نہیں بھولی جب ’’ قرضہ اتارو
ملک سنوارو‘‘ کا نعرہ لگایا گیا تھا۔ اس نعرہ پر عوام نے خوب پیسہ دیا لیکن
اس کے بعد کیا ہوا؟ وہ پیسہکہاں گیا؟ کچھ نہیں معلوم۔ دور نہ جائیں چند ماہ
پہلے دیامیر بھاشا اور مہمند ڈیم فنڈ کی آواز لگائی گئی،چیف جسٹس نے خود اس
کی حفاظت کا ڈھونگ رچایا ، لوگوں نے خوب چندہ دیا، دس ارب سے زیادہ جمع
ہوئے ۔ وہ سب کہاں گئے؟ کچھ اتا پتا نہیں۔ اب عمران خان ٹیکس کی رقم کی
حفاظت کے بھاشن دے رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ٹیکس کی رقم عوام اور ملک پر
خرچ کی جائے گی ۔ انہوں نے یقین دلایا کہ یہ رقم چوری نہیں ہوگی کیونکہ وہ
خود اس کی نگرانی کریں گے۔ عمران خان اس بات پر کیا ضمانت دیں گے یہ پیسہ
ملک پر ہی خرچ ہوگا اور اس کی حفاظت ہوگی؟ کیونکہ آج تک کوئی بھلائی کا کام
نظر نہیں آیا۔ ہمیشہ لوٹ مار کا بازار ہی گرم رہاہے ۔عوام کا سوال پھر وہی
ہے کہ جب ہمیں بنیادی سہولیات ہی میسر نہیں ہیں تو ہم ٹیکس کیوں دیں؟
|