کہتے ہیں کہ وقت کبھی نہیں ٹھہرتا۔دن اور تاریخ بدلتے ہیں
،زمانے کے طور طریقے بدل جاتے ہیں ۔اس اصول کے تحت پاکستانی سیاست بھی
تبدیل ہو چکی ہے۔کل ہم بلند فکری اور بلند پروازی کی سوچ رکھتے تھے ،مگر آج
سطحی سوچ سے باہر نہیں نکل پا رہے ۔جو لوگ وقت کے ساتھ نہیں چلتے وہ داستان
بن جاتے ہیں ۔
ہم آج وقت کے ساتھ نہیں چل رہے ۔دنیا کہاں سے کہاں پہنچ گئی ۔ہم ابھی تک
درست راستے کی تلاش میں بھٹک رہے ہیں ۔ہمیں ابھی تک احتساب کرنا نہیں آ
رہا۔اجتماعی سوچ کی بجائے انفرادی سوچ پر عمل پیرا ہیں ۔اپنے آپ کو محبّ
الوطن اور دوسروں کو غدار سمجھتے ہیں ۔اپوزیشن حکومت سے ہاتھ ملانا چاہیں
تو انہیں این آر او کا طعنہ دے کرمذاق اڑایا جاتا ہے ۔اگر احتجاج کریں تو
دھمکیاں دی جاتی ہیں ۔حکمرانوں کا طرز حکمرانی نرالا ہے ۔اس میں شک نہیں کہ
انسان کی سوچ اور فکر کا اختلاف پیدائش کے ساتھ ساتھ ماحول سے بھی نسبت
رکھتا ہے ۔تحریک انصاف نے صرف کنٹینر پر سیاست کی ہے ۔حکومت چلانا کیا ہوتا
ہے ،اس بات سے باخبر نہیں ،مگر یہ کوئی کرکٹ میچ نہیں کہ ہار گئے تو کوئی
بات نہیں ،دوبارہ جیت جائیں گے ۔22کروڑ عوام کی جان ومال کے تحفظ اورملک
وقوم کی بقا کا مسئلہ ہے ،مگر حکومت کسی طور سنجیدہ ہونے کا نام نہیں لے
رہی ۔
میاں شہباز شریف اور آصف علی زرداری پرانے سیاست دان ہیں۔ان سے ہزار اختلاف
کر لیں ،مگر انہوں نے اپنے اپنے دور میں ملک کو چلایا ہے۔کروڑو ں عوام ان
کی پارٹی کو ووٹ دیتے ہے ۔اگر وہ ملک کے مفاد میں اپنا ہاتھ بڑھاتے ہیں تو
اسے پکڑنا چاہیے ۔اگر وہ مل بیٹھ کر ملکی مفادات میں کوئی منصوبہ سازی کرتے
ہیں ،اس میں کیا حرج ہے ۔اگر عمران خان ان لیڈران سے ملتے ہیں تو کیا ہو
جائے گا؟وہ ان سے زبردستی این آر او لے لیں گے ․․عمران خان کو انہیں چھوڑنا
پڑ جائے گا․․!ڈر کس بات کا ہے ․․؟سیاست دان مصلحت کی جانب قدم بڑھاتا ہے ۔ڈکٹیٹر
لڑائی،مارکٹائی ،گالی گلوچ اور دباؤ کی پالیسی کو اپناتا ہے ۔وہ میز پرنہیں
بیٹھتا بلکہ ڈنڈے کی زبان اورانتشار کا ماحول پسند کرتا ہے۔
اپوزیشن نے مشترکہ طور پرحکومت کو میثاق معیشت کرنے کی آفر دی ،مگر اس کا
جواب وزراء نے سینئر سیاست دانوں کا مذاق اڑا کر دیا۔یہی وجہ بنی مسلم لیگ
(ن) کی نائب صدر مریم نواز کا حکومت سے میثاق معیشت کو مسترد کرنے کا ۔ان
کا خیال تھا کہ مینڈیٹ چرانے والوں سے میثاق کیسے کیا جا سکتا ہے ۔اگر ان
کی حکومت کی ساکھ کو سہارا دینے میں مدد دی گئی تو یہ ایک بڑا جرم ہو
گا۔مریم نواز مقابلہ کرنے کی ہمت رکھتی ہیں ۔انہوں نے طاقت ور لوگوں کے
سامنے جنگ کا اعلان کر کے اپنا آپ منوایا ہے ۔بلاول بھٹو اور مریم نواز
مستقبل میں پاکستان کو نئے انداز میں چلتا دیکھ رہے ہیں ،مگر دوسری جانب
میاں شہباز شریف اور آصف علی زرداری کا انداز سیاست مختلف ہے۔لیکن جہاں
اپوزیشن حکومت سے دس ماہ میں 5ہزار ارب روپے کے قرض کا حساب مانگتی ہے تو
حکومت دس سالہ قرضوں کی تحقیقات کا کمیشن بنا کر دباؤ ڈالنا شروع کر دیتی
ہے ۔اس کمیشن میں نیب،ایجنسیز اور چیف آف آرمی سٹاف کو بھی حصہ بنایا جاتا
ہے ۔لیکن مشرف دور کے قرضوں کا حساب نہیں لیا جاتا۔
میاں شہباز شریف مصالحت کے دروازے کھلے رکھ کر سیاست کرنا چاہتے ہیں ،مگر
مریم نواز اور بلاول ایسا ہر گز نہیں چاہتے ۔وہ دلیرانہ سیاست پر یقین
رکھتے ہیں ۔دلیرانہ سیاست میں نقصان زیادہ ہوتا ہے ،مگر تاریخ رقم ہو جاتی
ہے۔مصالحت بزدلانہ طرز عمل ہے جس سے وقتی طور پر کامیابی ممکن ہے ،نقصان
بھی کم ہوتا ہے ،لیکن تاریخ ایسے لیڈروں کو جلد بھلا دیتی ہے ۔
پی ٹی آئی احتجاج ،بلند آہنگ الزامات اور نہ پورے ہونے والے وعدوں کے ذریعے
حکومت میں آئی ہے ۔بدقسمتی سے نا تجربہ کاری اور نا اہلی کی وجہ سے حکومت
ابھی تک اپنے مزاج کو بدلے ہوئے حقائق سے آشنا نہیں کر سکی ہے ۔وہ خود کو
اپوزیشن سمجھ کر معاملات چلانے کی روش پر گامزن ہے ۔مسلم لیگ اور پیپلز
پارٹی نے ماضی میں اپنی ذمہ داریاں نہ نبھا کر جمہوریت اور ملک کو بہت
نقصان دیا ۔ان کی غلطیوں کی وجہ سے آج عمران خان اقتدار پر براجمان ہوئے
ہیں ۔دو جماعتی نظام کو پروان چڑھاتے یہ بھول گئے کہ تیسری قوت جس کا مذاق
اڑا رہے ہیں وہ حقیقت بن رہی ہے اور پھر تیسری قوت کو اقتدار کے مسند پر
پہنچا دیا گیا ۔یہ انہونی اپوزیشن کی جانب سے اپنا کردار ادا نہ کرنے کی
وجہ سے ہوئی۔پارلیمنٹ کے مقاصد کو بھلا دیا گیا۔اپنے ہاتھوں سے پارلیمنٹ کے
وجود کا جواز کھو دیا۔میاں نواز شریف کے دور میں انہوں نے پارلیمنٹ کو کوئی
اہمیت نہ دی ۔یہی وجہ بنی پارلیمانی نظام کو دھچکا لگنے کی ۔کیا آج ملک میں
پارلیمانی نظام ہے ؟اب نئے انداز نئے سیٹ اَپ کے ساتھ نظام چلایا جارہا ہے
۔یہ دوسری بات ہے کہ اس نئے تجرباتی نظام سے ملک چلتا ہے یا نہیں ۔اب ملکی
سیاست یکسر تبدیل ہو چکی ہے ۔یوٹرن معمول کا حصہ بن چکا ہے ۔ایک دن عمران
خان نے مخالفوں کے پروڈکشن آرڈر جاری نہ کرنے کا کہا ،پھر جاری کروا دیئے
۔وزراء کہتے ہیں کہ آصف علی زرداری ہم سے این آر او مانگ رہا ہے پھر وزیر
اعظم میثاق معیشت پر راضی ہو جاتے ہیں ۔
اس ساری کہانی کا اختتام یہ ہو گا کہ میثاق کے نام پر بجٹ میں چند تبدیلیاں
کی جائیں گی ۔چندٹیکس اور اشیاء کی قیمتیں کم کر دی جائیں گی۔بجٹ پاس ہو
جائے گا۔اس کے عوض اپوزیشن کو کیا ملتا ہے وہ کسی سے چھپا نہیں رہے
گا۔کیونکہ یہ پارلیمنٹ میں بیٹھے لوگوں نے نہیں دینا ۔حکمران طبقہ بیچارا
مزدور لوگ ہیں ۔یہ ہر دور میں کسی نہ کسی طرح حکومت کا حصہ بنتے ہیں یہ
ٹولہ اپنی خدمات دے کر ذاتی مفادات حاصل کرتا ہے ۔آج ملک و قوم جن بد ترین
حالات سے گزر رہے ہیں،وہ اسی ٹولے کی وجہ سے ہے ۔مضبوط اپوزیشن ملک کے مفاد
میں ہے ۔بڑھتی آبادی نے مسائل سنگین کر دیئے ہیں ۔حکومت کی ترجیحات مسائل
حل کرنے کی بجائے غیر ضروری معاملات ہیں۔ اگرانڈسٹری اور زراعت پر پوری طرح
توجہ دے دی جائے تو ملک کو قرضے لینے کی ضرورت پیش نہ آئے ۔حکومت کو یہ
باتیں کون سمجھائے ․․!! |