ٹائی فائڈ ایک متعدی بخار ہے جو
”سالمونیلا ٹائی فی“ نامی جرثومے سے پھیلتا ہے۔ سالمونیلا نامی جرثومے کی
کئی اور اقسام بھی ہوتی ہیں جو انسانی آنتوں کو نشانہ بناتی ہیں اور ان کی
وجہ سے جو بخار ہوتا ہے اسے امعائی یعنی آنتوں کا بخار کہتے ہیں۔
سو سال پہلے دنیا بھر میں یہ مرض ہر سال بے شمار اموات کا سبب بنتا تھا،
لیکن اب جن ملکوں میں معیار زندگی بہتر ہو گیا ہے،لوگوں میں صحت کا شعور
پیدا ہو گیا ہے،صحت و صفائی کے انتظامات بہتر ہو گئے ہیں اور صاف پانی کی
فراہمی ہو گئی ہے وہاں اس کا زور بہت کم ہو گیا ہے۔
ٹائی فائڈ جراثیم کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ یہ صرف انسانوں میں پھلتے پھولتے
ہیں اور ایک انسان ہی سے دوسرے کو لگتے ہیں۔ اس طرح انسان ہی اس مرض کو
پھیلاتے ہیں۔ جن لوگوں کو یہ بخار ہوا ہو‘ ان میں صحت یابی کے بعد بھی یہ
جراثیم کم ازکم ایک سال تک موجود رہتے ہیں۔
اس بخار کے جراثیم ہمارے جسم میں جراثیم سے آلودہ غذا‘ دودھ اور پانی کے
ذریعے سے داخل ہو تے ہیں۔ ٹائی فائڈ سے متاثر افراد اور وہ بھی جن کے جسم
میں یہ جراثیم عرصہ سے پل رہے ہوں‘ لاکھوں کی تعداد میں انہیں اپنے فضلے
میں خارج کرتے ہیں۔ یہ جراثیم مریض کے خون، بلغم، قے اور جسم سے خارج ہونے
والے دیگر سیالات میں موجود ہوتے ہیں۔ ان اشیاء پر بیٹھنے والی مکھیاں اور
دیگر کیڑے مکوڑے کھانے پینے کی اشیا میں یہ جراثیم پہنچاتے ہیں جن کے کھانے
سے دوسرے افراد بھی اس مرض کا شکار ہو سکتے ہیں۔
سمندری کستورا مچھلی اور دیگر صدفیہ (سیپی والی) مچھلیوں میں یہ جراثیم
سمندر میں شامل ہونے والے گٹر کے اور ڈرینج کے گندے پانی سے داخل ہو کر
انہیں بھی آلودہ کر دیتے ہیں۔
ٹائی فائڈ سے متاثر شخص سے دوسرے شخص میں داخل ہونے کے بعد یہ جراثیم بعض
کے جسم میں تین دن، دس دن اور ساٹھ روز تک خاموش رہتے ہیں، یعنی اس مدت تک
یہ لوگ بیمار نہیں پڑتے۔ یہ عرصہ ان کی حضانت کی مدت کہلاتا ہے۔ اس عرصہ
میں یہ جسم میں اپنی تعداد میں اضافہ کرتے ہیں۔ حضانت کی مدت کا تعلق
جراثیم کی مقدار سے ہوتا ہے۔ یہ کم ہوں گے تو دیر سے اور زیادہ ہوئے تو
جلدی بیمار ڈال دیں گے۔
بخار کا آغاز
ٹائی فائڈ کی جسے عرف عام میں میعادی بخار بھی کہتے ہیں، ابتدائی علامات
فلو یعنی نزلہ وبائی جیسی ہوتی ہیں۔ مریض سر میں د رد، تھکن اور بھوک نہ
لگنے کی شکایت کر سکتا ہے۔ اس کے علاوہ سردی کے ساتھ بخار بھی رہتا ہے،
لیکن فلو کے برخلاف یہ بخار عام طور پر تیز رہتا ہے جو روزانہ بڑھتا جاتا
ہے۔ یہ بخار ۲۰۱سے ۴۰۱ تک پہنچ جاتا ہے۔ جراثیم کا حملہ کمزور ہو تو بخار
کا سلسلہ عموماً ایک ہفتے تک اور زیادہ ہو تو آٹھ ہفتوں تک جاری رہتا ہے۔
اس بخار کی ایک خاص علامت یہ بھی ہوتی ہے کہ تیز ہونے کے باوجود نبض کی
رفتار سست رہتی ہے۔ مرض بڑھنے کے ساتھ مریض زیادہ بیمار اور نڈھال ہوتا
جاتا ہے اور دوسرے ہفتے میں اس کی ناک سے خون بہنے کا امکان پیدا ہو جاتا
ہے۔ ٹائی فائڈ کے جراثیم چوں کہ آنتوں کو نقصان پہنچاتے ہیں، اس لیے مریض
پیٹ میں تکلیف محسوس کرتا ہے۔ پیٹ پھول جاتا ہے اور قبض کی شکایت ہو جاتی
ہے۔ بعض مریضوں کو دورانِ مرض اسہال کی شکایت بھی ہو سکتی ہے اور پہلے ہفتے
کے ختم یا دوسرے کی ابتدا میں اس کے سینے اور پیٹ کے بالائی حصے پر گلابی
رنگ کے دھبے نمودار ہو سکتے ہیں۔ ٹائی فائڈ سے مریض کا دماغ اور اعصاب بھی
متاثر ہو سکتے ہیں جس کی وجہ سے وہ سر میں سخت درد کی شکایت کرتا ہے اور
بحرانی کیفیت بھی طاری ہو سکتی ہے۔ معائنہ کرنے سے اس کا جگر اور تلی بھی
بڑھی ہوئی ہو سکتی ہے۔ تیسرے یا چوتھے ہفتے تک بخار دھیرے دھیرے کم ہو کر
دیگر علامات اور دھبے غائب ہو جاتے ہیں۔
پیچیدگیاں
بیسویں صدی میں ٹائی فائڈ کی جو مؤثر اینٹی بایوٹک دوا تیار ہوئی وہ ”کلورم
فینی کول“ ہے۔ اس سے پہلے ٹائی فائڈ سے ہلاکتوں کی شرح ۲۱ سے ۲۳ فی صد ہوتی
تھی اور زیادہ تر اس مرض کی جن دو اہم پیچیدگیوں سے مریض ہلاک ہوتے تھے وہ
تھیں:آنتوں سے خون کا اخراج اور آنتوں میں ہونے والے سوراخ۔ مؤثر اینٹی
بایوٹک دواؤں کی وجہ سے یہ خطرہ اب ۲ فیصد بلکہ اس سے بھی کم ہو گیا ہے۔
آنتوں سے جریان خون:
ٹائی فائڈ کے جراثیم کی وجہ سے آنتوں کے لمفی ریشے پھول جاتے ہیں جن کی وجہ
سے آنتوں کی اندرونی دیوار یا حصے خون کی رگیں چھلنے لگتی ہیں اور ان سے
خون رسنے لگتا ہے۔ بعض اوقات بہت زیادہ خون بہہ نکلتا ہے جس سے مریض کو سخت
نقصان پہنچتا ہے۔ یہ شکایت عام طور پر مرض کے دوسرے ہفتے میں لاحق ہوتی ہے۔
مریض کے درجہ حرارت اور بلڈپریشر میں بھی یکایک کمی ہو جاتی ہے۔
آنتوں میں سوراخ:
آنتوں کو پہنچنے والا صدمہ گہرا ہو کر آنتوں کی آخری سطح یا پرت تک جا
پہنچتا ہے جس سے بالآخر ان میں سوراخ ہو جاتے ہیں۔ یہ عام طور پر تیسرے
ہفتے میں ہوتا ہے۔ ایسی صورت میں مریض کے پیٹ میں سخت درد ہوتا ہے اور اسے
دبانے سے اسے بڑی تکلیف ہوتی ہے۔
دوسری پیچیدگیاں
ان جراثیم سے جسم کے دوسرے ریشے یا بافتیں بھی متاثر ہوسکتی ہیں جس کی وجہ
سے ان میں پیپ دار زخم بن جاتے ہیں۔ یہ بھی اس مرض کی بڑی سنگین پیچیدگی
ہوتی ہے جو عموماً جگر، پتے، جوڑوں، دماغ اور پھیپھڑوں میں واقع ہوتی ہے۔
سالمونیلا ٹائی فی جراثیم پتے میں داخل ہو کر بخار کے ختم ہونے کے بعد بھی
اس چھوت کا اہم ذریعہ بنے رہتے ہیں۔ یوں سمجھیے کہ مریض کا پِتّا ان جراثیم
کا ذخیرہ گاہ بن جاتا ہے اور ایسے لوگ یہ جراثیم دوسروں کو پھیلانے کا ایک
ذریعہ بنے رہتے ہیں۔ اعصابی نقصانات میں بہرا پن قابل ذکر ہے۔ یہ اس بخار
کی بہت بعد میں ظاہر ہونے والی پیچیدگی ہوتی ہے۔
کیرئیر:
پتے کے ٹائی فائڈ کے جراثیم کی زد میں آنے کے بعد مریض صحت یابی کے باوجود
ان سے نجات نہیں پاتا، اس لیے وہ ان جراثیم کا چلتا پھرتا ذریعہ بن کر رہ
جاتا ہے اور اس کی اجابت کے ساتھ یہ جراثیم برسوں بلکہ عمر بھر خارج ہوتے
رہتے ہیں۔ اندازاً ۳ فی صد مریض اس کے پرانے جراثیم بردار بن جاتے ہیں اور
ان میں زیادہ تعداد خواتین اور بوڑھوں کی ہوتی ہے۔ ان سب میں بہت سوں کو یہ
یاد بھی نہیں ہوتا کہ انہیں کبھی ٹائی فائیڈ بھی ہوا تھا۔ ایسے افراد
انسانی صحت کے لیے خطرہ بنے رہتے ہیں خاص طور پر اگر کھانے پینے کی چیزیں
فراہم کرنے کا کام کرتے ہوں تو انجانے میں یہ جراثیم اپنے گاہکوں کو
پہنچاتے رہتے ہیں، اس لیے یہ بہت ضروری ہے کہ ایسے تمام افراد کا باقاعدہ
طبی معائنہ ہو۔ گرما گرم اشیاء تو ان جراثیم سے محفوظ ہو سکتی ہیں لیکن
کھانے پینے کی ایسی بے شمار اشیاء ہوتی ہیں جن میں ان افراد کے ذریعے سے یہ
جراثیم داخل ہو سکتے ہیں۔
مریض کی صحت یابی کے بعد سکھ کا سانس لے کر نہیں بیٹھنا چاہیے بلکہ دورانِ
مرض کے علاوہ صحت یابی کے بعد بھی مریض کے خون اور پیشاب کا معائنہ کرواتے
رہنا چاہیے۔
وائڈل ٹیسٹ:
بخار کے دوران مریض کا جسم جراثیم کا مقابلہ کرنے کے لیے بڑی تعداد میں
دافع اجسام (اینٹی باڈیز) تیار کرتا ہے۔ ان کی تعداد کا کھوج جس ٹیسٹ سے
لگایا جاتا ہے وہ وائڈل ٹیسٹ کہلاتا ہے۔ اس سے مرض کی تشخیص میں بھی مدد
ملتی ہے اور پتا چلتا ہے کہ جسم میں ان کی تیاری کی رفتار تیز ہے یا سست۔
اب کئی نئی اینٹی بایوٹک دوائیں دستیاب ہیں جو ماہر ڈاکٹر اپنے مریض کی بلڈ
ٹیسٹ رپورٹ دیکھ کر تجویز کر سکتا ہے۔ عموماً دیکھا گیا ہے کہ ان دواؤں کے
خون اور جگر پر خراب اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ مریض
ان دواؤں کے ذیلی اثرات سے سخت خارش میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ ایسی حالت میں
خود سے دوا بند کرنے کی بجائے اپنے ڈاکٹر سے رجوع کرنا چاہیے۔
بہتر تیمارداری:
دوائی علاج کے علاوہ ٹائی فائڈ کے مریض کی سب سے اہم ضرورت بہتر تیمارداری
ہے جس میں اس کے آرام کے علاوہ صحیح اور مناسب غذاؤں کے ذریعے سے اس کے جسم
کی قوت مدافعت کو مستحکم رکھنا بہت ضروری ہے۔ مریض کی دیکھ بھال بڑی توجہ
سے ہونی چاہیے تا کہ وہ اوپر بیان کی ہوئی پیچیدگیوں سے محفوظ رہے اور
علامات جیسے ہی ظاہر ہوں، ضروری معالجاتی اقدامات میں بالکل دیر نہیں ہونی
چاہیے۔
چوں کہ یہ ایک انتہائی متعدی مرض ہے، اس لیے مریض کو آرام سے بالکل الگ
تھلگ رکھنا چاہیے۔ اس کے کپڑے، برتن، تولیے وغیرہ کھولتے پانی سے صاف کرنے
کے علاوہ پیشاب، اجابت وغیرہ کو بڑی احتیاط سے ٹھکانے لگانا چاہیے بلکہ ان
کا ٹیسٹ کروا کر پوری طرح اطمینان کر لینا چاہیے کہ ان میں جراثیم ختم ہو
گئے ہیں۔ یہ کام ہر ہفتے ہونا چاہیے یہاں تک کہ بالکل کلیئر رپورٹ آ جائے۔
احتیاطی تدابیر:
ٹائی فائڈ یا دوسرے انفیکشنز جب کبھی محدود پیمانے پر لاحق ہو یا وسیع
پیمانے پر، درج ذیل احتیاطی تدابیر بہت مفید ثابت ہوتی ہیں:
٭گھر کے علاوہ محلے اور بستیوں میں صحت و صفائی کے انتظامات بہتر کیے
جائیں۔ صاف اور ابلا ہوا پانی ہی استعمال ہو۔
٭کھانے پینے کی اشیاء مکھیوں وغیرہ سے محفوظ رکھی جائیں اور انہیں تیار
کرنے والوں کو پوری احتیاط سے کام لینا چاہیے۔
٭بازاری کھلی اشیاء ہرگز استعمال نہ کی جائیں اور صرف خوب گرم کی ہوئی
چیزیں ہی کھائی جائیں۔ خاص طور پر دودھ اچھی طرح ابلا ہوا ہونا چاہیے۔
٭وبا پھوٹ پڑے تو ایسے افراد کا کھوج ضرور لگانا چاہیے جن میں اس کے جراثیم
موجود ہوں۔ یہ کھوج ان کے فضلات کے ٹیسٹ سے لگایا جا سکتا ہے۔
٭ٹائی فائڈ کے حفاظتی ٹیکے بھی لگوائے جا سکتے ہیں، لیکن سب سے بہتر یہی ہے
کہ احتیاط کی جائے۔ اس کا ٹیکا دو ہفتوں کے وقفے سے لگتا ہے جس کا اثر
برقرار رکھنے کے لیے ہر تین سال بعد یہ لگوانا پڑتا ہے۔ اس سے مقامی طور پر
درد کے علاوہ بخار بھی ہوسکتا ہے۔ بارہ سال سے کم عمر بچوں کو اس کی آدھی
خوراک دی جا سکتی ہے لیکن دوسا ل سے کم عمر بچوں کے لیے یہ ضروری نہیں
ہوتا۔
دوران سفر احتیاط:
٭ صرف احتیاط سے تیار کردہ محفوظ غذائیں کھانی چاہئیں۔
٭چھلکے والے پھل ہی استعمال کیے جائیں۔ ان کا چھلکا اتارنے سے پہلے انہیں
خوب اچھی طرح دھو لینا چاہیے۔ بازاروں میں کھلی بکنے والی گنڈیریاں،
مٹھائیاں، کٹے ہوئے پھل اور ان کے رس بالکل استعمال نہ کیے جائیں۔
٭اگر ہوٹل میں کھانا بہت زیادہ مجبوری ہو تو کھانا تازہ اور خوب گرم کیا
ہوا کھائیے کیوں کہ تازہ اور گرم خوراک میں جراثیم ختم ہو جاتے ہیں۔ ٹھنڈی
اور کھلی چیزوں کو ہاتھ نہ لگائیے۔
٭کوشش کیجیے کہ اپنے ساتھ ابلے ہوئے پانی کی بوتل رکھیے اور اسے ہی استعمال
کیجئے۔بوتل بند پانی سے بھی حتی الامکان احتراز کیجیے کیوں کہ اِن میں بھی
بہت کم معیاری ہوتی ہیں۔ |