خبریں وبریں

پاکستان میں جہاں دوسرے شعبوں کا حال بیان سے باہر ہوچکا ہے اسی طرح عوام کے لیے خوراک کے حوالے سے جو کچھ صورت حال ہے اس کی کچھ جھلک پچھلے دنوں چند خبروں کے آئینے میں دیکھی جاسکتی ہے جو ہمارے اخلاقی نظام کے ساتھ خوفِ خدا کے حوالے سے بھی اپنے اندر بعض سوالات رکھتی ہے۔ تینوں خبروں کا خلاصہ چند الفاظ میں یوں بیان کیا جاسکتا ہے کہ اب ہمارے لیے ہر چیز ”جائز“ اور ”حلال“ ہوچکی ہے، چاہے وہ جو بھی اور جیسی بھی ہو اور صرف ”پیسے“ کے حصول کے لیے ہر اقدام درست ہے۔ چاہے اس کے نتیجے میں کسی کی جان ہی کیوں نہ چلی جائے۔ ویسے تو ان تین رپورٹوں ہی پر سب کچھ منحصر نہیں اس حوالے سے اور بھی بہت کچھ سامنے آتا رہتا ہے لیکن ان خبروں کو وضاحت سے پیش کرنے کا مقصد صرف یہ ہے کہ اگر صاحبان اختیار میں کوئی خدا کا خوف رکھنے والا بندہ باقی رہ گیا ہے تو وہی اس کے لیے کچھ کرے۔ کیونکہ ممکن ہے کہ کل اس کا یہی ایک اقدام خود اس کے کسی اپنے پیارے کی جان بچانے کا سبب بھی بن جائے کہ نیکی رائیگاں نہیں جاتی۔ تو پڑھیے پاکستان کے تین بڑے شہروں کی عوام کی صحت کے حوالے سے عبرت ناک رپورٹیں .... جوبلاشبہ پوری قوم کے لیے بھی لمحہ فکریہ ہیں ، پہلی خبر کچھ اس طرح سے ہے:

”پشاور (نمایندہ ایکسپریس) یورپ میں پالتو کتوں کے لیے تیار کردہ K9 کے نام سے چپس پشاور میں سر عام فروخت کیے جارہے ہیں اور اس معاملے پر صوبائی حکومت اور محکمہ صحت نے چپ سادھ رکھی ہے، پشاور سمیت دیگر اضلاع میں گلی گلی دکانوں پر 5روپے فی پیکٹ دستیاب ہیں، یہ چپس مختلف نجی اسکولوں میں بھی بچوں کو فراہم کیے جارہے ہیں، دکانداروں کے مطابق یہ چپس انہیں پشاور ہی سے سپلائی کیے جارہے ہیں، جب انہیں بتایا کہ K9 یورپ اور امریکا میں پالتو کتوں کو کھلائے جاتے ہیں تو انہوں نے اس سے لاعملی کا اظہار کیا۔“

اس رپورٹ کے مطابق پشاور کی ایک دکان پر کتوں کے کھانے کے چپس فروخت کے لیے رکھے ہوئے ہیں، جن پر ان کا نام بالکل صاف پڑھا جاتا ہے اور ایک ننھا بچہ اسی مال سے ایک پیکٹ خرید کر لے جارہا ہے۔ اس پر تبصرہ کرنے کی کوئی گنجائش نہیں۔ ہم اپنے اس معصوم بچے کی طرح ایک پوری نسل کو صرف چند دھیلے کمانے کے لیے آخر کیا کھلا رہے ہیں! یہ رپورٹ اب صرف ایک خبر نہیں رہی، ہماری تاریخ کا ایک حصہ بن چکی ہے۔ کل یہ بچہ بڑا ہوگا۔ تو اس کے دل و دماغ پر کیا اثرات مرتّب ہوں گے؟ کیا ہم نے یہ سب کچھ سوچ لیا ہے! کل یہ بچہ بڑا ہوگا تو ہم کو یہ نہیں کہے گا کہ میں تو چھوٹا سا بچہ تھا۔ مجھے تو کچھ نہیں معلوم تھا۔ مجھے کتوں کے لیے بنائے گئے چپس کیوں کھلا دیے گئے.... اس کا جواب کون دے گا؟! اور کیا....؟ کیا ہمارے پاس اس بچے کے آیندہ وقت میں کیے جانے والے اس سوال کا کوئی جواب ہے؟

اور لیجیے دوسری خبر جو کچھ اس طرح سے ہے:

”لاہور (نمایندہ جنگ) لاہور ہائی کورٹ کے مسٹر جسٹس میاں ثاقب نثار نے بغیر لائسنس کے منرل واٹر کے نام پر مضر صحت پانی تیار کر کے فروخت کرنے والی 28کمپنیوں کو شوکاز نوٹس جاری کردیے ہیں کہ کیوں نہ ان کمپنیوں کو ختم کردیا جائے۔ عدالت نے لائسنس یافتہ تمام کمپنیوں کو ہدایت کی کہ وہ ایک ماہ میں اپنے لائسنسوں کی تجدید کرائیں۔ عدالت نے یہ حکم ملٹی نیشنل کمپنیوں کے تیار کردہ منرل واٹر کی خرید و فروخت کے خلاف دائر کیس کی سماعت کے دوران دیے۔ درخواست گزار بیرسٹر ظفر اللہ خان نے موقف اختیار کیا ہے کہ ملٹی نیشنل کمپنیاں عوام کو منرل واٹر کے نام پر مضر صحت اور غیر معیاری پینے کا پانی فروخت کررہی ہیں جس سے لوگ موذی امراض کا شکار ہورہے ہیں۔ عدالت کو بتایا گیا کہ 53 کمپنیوں میں سے 28 کمپنیوں کے پاس لائسنس ہی نہیں ہیں۔ اس کے باوجود وہ یہ کاروبار کر رہی ہیں۔ اس پر عدالت نے ان کمپنیوں کو شوکاز نوٹس جاری کردیے۔ “

اس اقدام پر معزز عدالت کا شکریہ تو پوری قوم کو ادا کرنا چاہیے۔ یہاں ابھی سوال صرف یہ پوچھا جاتا ہے کہ ایسی کمپنیاں راتوں رات تو وجود میں نہیں آسکتیں۔ نہ ہی چند دنوں میں اتنا بڑا کاروبار پھیلا سکتی ہیں۔ ملک کے معاملات پر نظر رکھنے والے درجنوں اداروں کو یہ کمپنیاں اور ان کا کاروبار بالکل نہیں نظر آیا جو ایک قانون داں کو اس سلسلے میں عدالت کے دروازے پر دستک دینا پڑی ہے۔ معزز عدلیہ کو قوم کی جانب سے ایک بار پھر سلام اور شکریہ!

تیسری رپورٹ جو آگے پیش کی جارہی ہے.... دراصل ان پہلی دونوں رپورٹوں کا محض ایک اور ”عکس“ ہے اور خود سرکاری منصب دار کی طرف سے جاری ہونے پر اس کی اہمیت اور زیادہ واضح ہوچکی ہے۔ رپورٹ ملاحظہ فرمائیے:

”کراچی (اسٹاف رپورٹر) صوبائی وزیر ماحولیات و متبادل توانائی شیخ محمد افضل (خالد عمر) نے جمعہ کو اپنے دفتر میں ایک اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے کہا ہے کہ سیوریج کے گندے اور صنعتوں کے آلودہ زہریلے پانی سے کاشت کی گئی سبزیاں انتہائی مضر صحت ہیں لہٰذا عوام انہیں کھانے سے پرہیز اور انہیں خریدنے سے اجتناب کریں۔ صوبائی وزیر نے ڈائریکٹر جنرل ای پی اے نعیم احمد مغل کو اس حوالے سے فوری طور پر ایکشن لینے اور زہریلے پانی سے سبزیاں کاشت کرنے والے کھیت مالکان کے خلاف فوری ایکشن لینے اور اس سلسلے میں تفصیلی رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کی۔ شیخ محمد افضل نے کہا کہ ایک شہر کی ضرورت کا 20 سے 30 فیصد حصہ اس قسم کی زہریلی سبزیوں سے پورا کیا جارہا ہے جس کے نتیجے میں مذکورہ سبزیاں استعمال کرنیوالے پیٹ کے کیڑے، ہیضے، ملیریا، پیٹ اور جگر کے مختلف امراض میں مبتلا ہورہے ہیں۔ دیگر سبزیوں کے مقابلے میں گندے اور زہریلے پانی سے کاشت کی جانے والی سبزیاں زیادہ ہری بھری اور چمکیلی ہوتی ہیں جس کی وجہ صنعتی فضلے میں موجودہ الیکلز، ڈائیز اور کاپر کے کمپاﺅنڈ کی موجودگی ہے۔ اس پانی سے کاشت کی جانے والی سبزیوں کے استعمال سے انسان اعصابی اور دیگر مہلک بیماریوں میں مبتلا ہوجاتا ہے، مسلسل استعمال سے جگر کی بیماریوں کے ساتھ کینسر لاحق ہونے کا خطرہ بھی ہوتا ہے۔

Disclaimer: All material on this website is provided for your information only and may not be construed as medical advice or instruction. No action or inaction should be taken based solely on the contents of this information; instead, readers should consult appropriate health professionals on any matter relating to their health and well-being. The data information and opinions expressed here are believed to be accurate, which is gathered from different sources but might have some errors. Hamariweb.com is not responsible for errors or omissions. Doctors and Hospital officials are not necessarily required to respond or go through this page.

Muhammad Faisal shahzad
About the Author: Muhammad Faisal shahzad Read More Articles by Muhammad Faisal shahzad: 115 Articles with 186429 views Editor of monthly jahan e sehat (a mag of ICSP), Coloumist of daily Express and daily islam.. View More