کمانڈر رائل سعودی نیول فورسز وائس ایڈمرل فھد بن عبداﷲ
الغفیلی1979 میں پاکستان نیول اکیڈمی آئے اور ابتدائی تربیت کی تکمیل
پر1984 میں پاکستان نیول اکیڈمی سے پاس آؤٹ ہوئے۔یہ پاکستان اورپاک فوج کی
اعزازکی بات ہے کہ یہاں سے تربیت پانے والاآج سعودی نیول فورس کاسربرا ہے ۔
فہدبن عبداﷲ نے کہاہے کہ پاکستان سعودی عرب کا سب سے قریبی دوست ہے سعودی
عرب پاکستان کو خطے میں قوت اور استحکام کاذریعہ سمجھتا ہے، مشرق وسطی اس
وقت تاریخ کے مشکل دور سے گزر رہا ہے،سعودی عرب مشرق وسطی میں تمام معاملات
کا پرامن تصفیہ چاہتا ہے۔پاکستان اور سعودی عرب عالمی استحکام اور علاقائی
امن و امان کے لئے کوشاں ہیں ، پاکستان نیول اکیڈمی منوڑہ میں ایک سو
گیارہویں مڈشپ مین اور بیسویں شارٹ سروس کمیشن کورس کی پاسنگ آؤٹ پریڈ کا
انعقاد ہوا، جہاں سعودی بحریہ کے سربراہ وائس ایڈمرل فہد بن عبداﷲ الغوفیلی
کی بطور مہمان خصوصی شرکت کی۔پاکستان میں سعودی سفیر نواف بن سعید المالکی
بھی اس موقع پر موجود تھے۔
ترجمان پاک بحریہ کے مطابق اس موقع پر77 مڈشپ مین اور98 شارٹ سروس کمیشن
کیڈٹس بشمول25 خواتین کیڈٹس پاس آوٹ ہوئے،پاس آٹ ہونے والوں میں بحرین کے
دو ، قطر کے سات اور سعودی عرب کے تین مڈشپ مین بھی شامل ہیں جبکہ مڈ شپ
مین طلحہ مسعود نے اعزازی شمشیر حاصل کی۔مہمان خصوصی نے پاس آٹ ہونے والے
کیڈٹس کو مبارک باد پیش کی۔یہی وجہ ہے کہ فہدبن عبداﷲ نے کہا کہ میں چیف آف
دی نیول اسٹاف ایڈمرل ظفر محمود عباسی کا مشکور ہوں کہ آپ نے مجھے میری
مادر علمی میں دوبارہ آنے اور پرانی یادوں کو تازہ کرنے کا موقع دیا۔
وائس ایڈمرل فھد بن عبداﷲ بالکل درست کہاہے کہ مشرق وسطی اس وقت تاریخ کے
مشکل دور سے گزر رہا ہے ،مشرق وسطی میں ایک طے شدہ منصوبے کے تحت حالات
خراب کیے جارہے ہیں استعماری طاقتیں حالات خراب کرکے جہاں اپنے مفادات
سمیٹناچاہتی ہیں وہاں وہ عرب ممالک کوکمزورکرکے ٹکڑوں میں بانٹناچاہتے ہیں
عربوں کے پاس تیل کے ذخائرہیں عالمی طاقتیں ان پرکنٹرول حاصل کرناہتی ہیں
سعودی عرب مشرق وسطی میں قائدانہ کرداراداکررہاہے ان طاقتوں کی کوشش ہے کہ
سعودی عرب کوکسی ناکسی طرح ٹارگٹ کیاجائے سعودی عرب کمزورہوگاتوباقی ممالک
کوقابوکرناآسان ہوگا۔اس لیے سعودی عر ب کی کوشش ہے کہ عرب ممالک
کومتحدکیاجائے تاکہ خطرات کامقابلہ کیاجاسکے ۔محمدبن سلمان کے ترقی
اورخوشحالی کے وژن 2030کواب سعودی عرب سے نکل کرپورے خطے میں
پھیلایاجارہاہے سعودی عرب کی کوشش ہے کہ خطے سے دہشت گردی کاخاتمہ ہواورعرب
ممالک ترقی کی راہ پرگامزن ہوں-
سعودی عرب کے وزیر خزانہ محمد الجدعان نے بحرین کے دارالحکومت منامہ میں
امن سے خوش حالی کے موضوع پر منعقدہ دو روزہ ورکشاپ میں تقریرکرتے ہوئے
فلسطینیوں کی خوش حالی کے لیے کسی بھی معاشی منصوبے کی حمایت کا اعلان کیا
ہے۔اس وقت مشرقِ اوسط کے خطے کو خوش حالی اور امید کی اشد ضرورت ہے۔انھوں
نے کہا کہ سعودی عرب کا ویژن 2030 پہلے تو صرف اپنے کے لیے تھا لیکن اب یہ
پورے خطے کا ویژن بن گیا ہے۔ہم اس بات کو یقینی بنانا چاہتے تھے کہ ہم ایک
ایسا منصوبہ پیش کریں جو پورے خطے کے لیے ایک رول ماڈل کا کردار ادا کرے
اور خطے میں امید کی کرن روشن کرے۔
اسی تناظرمیں مشرق وسطی میں امن اور خوش حالی کے حوالے سے دو روزہ کانفرنس
بحرین کے دارالحکومت مناما میں ہوئی ،جس میں آزاد فلسطینی ریاست کا قیام کی
حمایت کی گئی ۔ یہ ریاست جون 1967 کی سرحدوں میں بنے گی اور اس کا
دارالحکومت مقبوضہ مشرقی بیت المقدس ہوگا۔۔کانفرنس کا پہلا مرحلہ مشرق وسطی
میں امن کے لیے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے منصوبے کے ساتھ شروع ہو گا۔ اس کے بارے
میں وائٹ ہاس کا کہنا ہے کہ یہ 50 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری یقینی بنانے کی
کوشش ہے۔منصوبے کے تحت عطیہ دینے والے ممالک اور سرمایہ کار خطے میں تقریبا
50 ارب ڈالر کی امداد حاصل کرنے کی کوشش کریں گے۔ ان میں 28 ارب ڈالر
فلسطینی اراضی کے لیے(مغربی کنارا اور غزہ پٹی)، 7.5 ارب ڈالر اردن کے لیے
، 9 ارب ڈالر مصر اور 6 ارب ڈالر لبنان کے لیے ہوں گے۔مجوزہ 179 منصوبوں
میں مغربی کنارے کو غزہ پٹی سے ملانے والا ایک راستہ بھی شامل ہے جس پر
پانچ ارب ڈالر لاگت آئے گی۔
سعودی عرب کومختلف اقدامات کے ذریعے گھیرنے کی کوشش کی جارہی ہے ایک طرف
سعودی عرب کوکمزورکرنے کے لیے حوثی باغیوں کی طرف سے ہرہفتے ایک دومیزائل
یاڈرون حملے کیے جاتے ہیں حوثی باغی متعددبارحرمین شریفین کوبھی نشانہ
بنانے کی کوشش کرچکے ہیں مگرسعودی افواج نے ان حملوں کونہ صرف ناکام
بنایاہے اسلامی فوج کے سربراہ کرنل ترکی المالکی نے مزید کہا کہ ہم ان دہشت
گرد افواج کے خلاف جوابی اقدامات کا سلسلہ جاری رکھیں گے اور عالمی انسانی
قوانین کے مطابق حوثی باغیوں کی کوششوں کو ناکام بنایا جائے گا۔سعودی عرب
مسلسل ایران پر الزام عائد کرتا رہا ہے کہ وہ حوثی باغیوں کو اسلحہ فراہم
کررہا ہے۔
دوسری طرف حال ہی میں اقوام متحدہ کی طرف سے جاری ایک رپورٹ میں سعودی ولی
عہد محمد بن سلمان کو اس قتل کے مقدمے میں شاملِ تفتیش کرنے کا مطالبہ بھی
کیا گیا ہے۔سعودی عرب کے وزیرِ خارجہ عادل الجبیراس رپورٹ کومستردکرتے ہوئے
کہاہے کہ اس رپورٹ میں بے بنیاد الزامات اور متضاد باتیں ہیں جن کی وجہ سے
یہ قابلِ اعتبار نہیں ہے۔
سعودی عرب نے خود کو مشرق وسطی میں بڑی طاقت کے طور پر منوا لیا ہے۔ سعودی
عرب کی کوشش ہے کہ تمام عرب ممالک اس کی قیادت میں متحدہوکرچیلنجزکامقابلہ
کریں ۔بہترین قیادت کے بل بوتے پر سعودی عرب نے بڑی فوج بھی تیار کر لی ہے۔
ادارے سٹاک ہوم انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹیٹیوٹ کے مطابق سنہ 2017 میں سعودی
عرب نے سیکیورٹی پر ستر ارب ڈالر خرچ کیے تھے۔ یہ رقم سعودی عرب کی جی ڈی
پی کا دس فیصد ہے۔ایسا کر کے سعودی عرب سیکیورٹی معاملات پر خرچ کرنے والا
تیسرا سب سے بڑا ملک بن گیا ہے۔ سعودی عرب کا اوپیک اور خلیج تعاون کونسل
میں بھی اثر و رسوخ ہے۔
مشرقی وسطی میں سعودی عرب کے قائدانہ کردارکی وجہ سے امریکہ کا مفاد متاثر
ہورہا ہے حالانکہ کچھ لوگ پروپیگنڈہ کررہے ہیں کہ سعودی عرب امریکہ
کاپٹھوبن گیا ہے مگرحالات یہ ہیں کہ سعودی عرب اپنے اورعرب ممالک کے مفادات
کوترجیح دیتاہے یہی وجہ ہے کہ سعودی عرب نے ؒیمن اور قطر پر پابندیاں عائد
کر کے امریکہ کو بے چین کردیا ہے۔مشرقی وسطی میں امریکی ائیر فورس کا سب سے
بڑا اڈہ ہے۔ سعودی عرب کے اس قدم سے خلیج تعاون کونسل کی ساکھ بھی کمزور
ہوگئی ہے۔ اس میں خلیج کے چھ ممالک ہیں۔
سعودی عرب کے پاس تیل کی بڑی دولت ہے استعماری طاقتیں اس کوبھی نشانہ
بنارہی ہیں مئی کے مہینے میں سعودی عرب کی تیل پائپ لائن پردہشت گردانہ
حملہ کیاگیا سعودی عرب کی تیل پائپ لائن پر ڈرون طیاروں کی مدد سے کیے گئے
حملوں کے نتیجے میں دو دن تک تیل کی سپلائی متاثر رہی جس کے بعد سپلائی
بحال کر دی گئی تھی۔ان تمام تراقدامات کے باوجود سعودی عرب آگے بڑھ رہاہے
اورمشرق وسطی میں قیام امن کے لیے اپنابھرپورکرداراداکررہاہے ہمیں امیدہے
کہ سعودی عرب کی یہ کوششیں ضرور کامیاب ہوں گی۔
|