پاکستان کا بحران ، چین کی دہلیز پہ چیلنج !

چین کے سفارتی حلقوں کی جانب سے پاکستان کی بدترین اقتصادی صورتحال پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ پاکستان اقتصادی بحران کے حوالے سے وقتی اقدامات کر رہا ہے جس سے صورتحال میں بہتری نہیں لائی جا سکتی۔ پاکستان کی سنگین اقتصادی صورتحال کے حوالے سے اسلام آباد میں متعین چین کے ایک اعلی عہدے پہ فائز اقتصادی ماہر( Tang Tianru )ٹانگ تیانرو کا ایک مضمون شائع ہوا ہے۔اسلام آباد میں متعین چین کے ایک اعلی سفارتی عہدیدار (Zhao Lijian )نے سوشل میڈیا پہ اس مضمون کو شیئر کرنے کے علاوہ پاکستان کی اقتصادی برتری کے حوالے سے بھی تشویش کے اظہار کے طور پر چند مزید ٹوئٹس بھی کی ہیں۔

چین کے اعلی اقتصادی ماہرٹانگ تیانرو اس مضمون میں لکھتے ہیں کہ پاکستان میں مالی اور ٹیکس تناسب میں اضافے، پیداواری لاگت میں اضافے سے ٹیرف بڑہایا جا رہا ہے۔امریکی ڈالر کے خلاف پاکستانی روپے کی قیمت میں تیزی سے گراوٹ سے مارکیٹ کی طلب کمزور اور افراط زر کی شرح اور بیروزگاری میں اضافہ ہوا ہے۔اسی صورتحال میں چند کاروباری ادارے پاکستان کو مارکیٹ سے باہر نکالنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

چین کے سرکاری اقتصادی ماہر کا کہنا ہے کہ پاکستان سرمایہ کاری اور مارکیٹ کی خراب حالت کی وجہ سے خرابی کے دائرے میں داخل ہو رہا ہے جس سے مالی اور اقتصادی بحران شروع ہوتا ہے۔چینی ماہر نے اس بات پہ تشویش ظاہر کی کہ درپیش خطرناک اقتصادی صورتحال میں پاکستانی حکومت کا ردعمل مختصر مدت کے حل تک محدود ہے،طویل مدتی پالیسی نہیں ہے او ر اس کے ' 'علاج'' پر توجہ نہیں ہے۔مضمون میں پاکستان کے اقتصادی شعبے کی بہتری کے لئے تعاون اور متعدد اقدامات بھی تجویز کئے ہیں۔'سی پیک ' منصوبے کو پاکستانی معیشت کی بہتری کے لئے ایک ایسی بنیادی ضرورت کے طور پر بیان کیا گیا ہے جو پاکستان کی قسمت بدل سکتا ہے۔

افغانستان کے ساتھ پاکستان کی کشیدگی کا جاری رہنا،امریکہ ایران جنگی خطرات ، پاکستان میں حاکمیت کا غاصبانہ نظام اور اب ملکی معیشت کا جمود اور اقتصادی تباہ حالی کے درپیش خطرات، خطے میں نئے پاکستان کے نئے تصور کے تناظر میں پاکستان کا نیا علاقائی کردار، پاکستان میں ایک شاہی راز کی طرح پوشیدہ نظر آتا ہے۔پاکستان کی اقتصادی بدحالی کے ساتھ ساتھ خطے کی صورتحال یہ ہے کہ افغانستان میں خانہ جنگی کے ساتھ ساتھ امریکہ اور طالبان کے مزاکرات کا عمل بھی جاری ہے اور اسی دوران افغان صدر اشرف غنی نے پاکستان کے اہم دورہ کیا ہے ۔

پاکستان کے ہمسایہ ملک ایران کے ساتھ امریکہ کی جنگی کشیدگی جاری ہے۔اسی دوران پاکستان کی طرف سے بھارت کی موافقت میں چند اہم فیصلے اور اقدامات کئے گئے ہیں۔ گزشتہ دنوں ہی پاکستان نے بھارتی زیر انتظام کشمیر میں کار بم کی کوشش کی اطلاع امریکہ اور بھارت سے شیئر کی گئی۔ اس اطلاع پر پاکستانی حکام کی طرف سے کوئی ردعمل دیکھنے میں نہیں آیا۔ ساتھ ہی اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں پاکستان کی طرف سے بھارت کی حمایت کی گئی ہے۔

یہ تمام صورتحال چین کے دروازے پہ چین کو درپیش ہے۔چین کی دنیا کے تمام خطوں کے درمیان اقصادی،معاشی حوالوں سے مضبوط مواصلاتی رابطوں کی کوششوںکے خلاف دشمن قوتوںکا چین کو چیلنج ہے۔یعنی چین کو چین کے دروازے پر ہی چیلنج کیا جا رہا ہے۔یا یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ چین کے اقتصادی منصوبے کو چین کے دروازے پہ ہی چیلنج کیا جا رہا ہے۔چین نے دنیا کے مختلف خطوں کے درمیان اقتصادی راستوں کی تعمیر کے نظام کی حفاظت کے لئے اپنی فوج کو بھی حرکت میں رکھا ہے۔چین اقتصادی و فوجی میدان میں تیزی سے ترقی کرتے ہوئے کئی علاقائی اقتصادی فورم قائم کرتے ہوئے ہٹ دھرمی کا روئیہ اپنانے کے بجائے کنفیو شئس(Confucius)کی دانشمندی اپنائے نظر آتا ہے ۔چین نے تمام ہمسایہ اور خطے کے ممالک کے ساتھ اچھے تعلقات کے قیام پر توجہ دی ہے۔انڈیا کے ساتھ عشروں سے جاری کشیدگی،جنگی جھڑپوں کے باوجود آج چین اور انڈیا کے تعلقات باہمی تعاون پر استوار نظر آ تے ہیں جہاں اندرون خانہ تو مخالفت کے موضوعات جاری ہوں گے لیکن ظاہری طور پر دونوں ملک اب کشیدہ صورتحال میں محدود نظر نہیں آتے۔

اقتصادی ماہرین اقتصادی بحران کی اقتصادی وجوہات و نتائج ہی بیان کر سکتے ہیں لیکن اقتصادی بدحالی کے سیاسی محرکات ان کے تجزئیے کا حصہ نہیں بنتے۔کسی بھی ملک میں عوامی رائے کے برعکس فیصلوں کا جبر کی بنیاد پر نفاذ، سیاسی انتشار،سیاسی غیر یقینی پیدا کرنا ہی اس ملک کے اقتصادی شعبے کو تباہ کرنے کے لئے کافی ہوتا ہے۔پاکستان کے حوالے سے بھی یہی صورتحال نظر آ تی ہے کہ کس طرح ''سیاسی انجینئرنگ'' کے ذریعے عوامی نمائندگی کے حق کو مجبور و مغلوب کرتے ہوئے ''من مانے'' طور پر ملک کو یوں چلایا جا رہا ہے کہ جس کے نتائج سے عوام ہی نہیں،اس نظام کو چلانے والے بھی پریشان نظر آتے ہیں۔

کانچ کے گلاس کو زمین پر پھینکنے سے گلاس کو توڑا جا سکتا ہے لیکن کسی ملک کو توڑنا اتنا آسان نہیں ہوتا۔ ملک توڑنے کے لوازمات پورے کرنے کے لئے مسلسل طور پر کثیر الجہتی سمتوں میں کام کرنا پڑتا ہے۔ کوئی اقتصادی ماہر اس دلیل سے مطمئن نہیں ہوتا کہ ماضی کی صورتحال کی وجہ سے ملک کو اقتصادی سنگین صورتحال کا سامنا ہے۔ اقتصادی ماہر ہی نہیں عوامی حلقے بھی اس حقیقت کا ادراک رکھتے ہیں کہ ملک میں اقتصادی بدحالی کی صورتحال آئی نہیں ہے بلکہ خصوصی سیاسی و دیگر اقدامات کے ذریعے بہت محنت سے پیدا کی گئی ہے۔

دہشت گردی کے خلاف اندرون ملک جاری مسلسل جنگ، بلوچستان کی صورتحال، قبائلی علاقوں کی صورتحال،سیاسی بنیادوں پر سرکاری سطح پر انتقامی کاروائیاں، حکومت کا نمائشی چہرہ، ملک کی تقدیر سے وابستہ فیصلے از خود کرتے ہوئے جبر سے ملک و عوام پر اس کا اطلاق،حاکمیت کی ہٹ دھرمی،دھونس کا ماحول، مالیاتی بد حالی کے مارے عوام کو سرکاری وصولیوں اور قیمتوں کے اضافے سے ذلت خیز صورتحال سے دوچار کرنا، اور اس ابتر صورتحال میں مزید ابتری کے اقدامات پر زور دینا، کسی بھی ملک کو کمزور،تباہ اور توڑنے کے لوازمات میں شامل امور ہوتے ہیں۔لوازمات پورے ہو جائیں تو طاقتیں آ کر انہی لوازمات کو بنیاد بناتے ہوئے من پسند نئی شرائط ، نئے عمرانی اور علاقائی معاہدے عالمی معاہدوں کے طور پر لاگو کرا دیتے ہیں۔کیا واقعی ہمیں کسی دشمن کی ضرورت ہے؟ یا کسی بھی بدترین دشمن کی جگہ خود ہی اپنی تباہی اور بربادی کے لئے کافی ہیں؟
 

Athar Massood Wani
About the Author: Athar Massood Wani Read More Articles by Athar Massood Wani: 770 Articles with 612557 views ATHAR MASSOOD WANI ,
S/o KH. ABDUL SAMAD WANI

Journalist, Editor, Columnist,writer,Researcher , Programmer, human/public rights & environmental
.. View More