امی آپ مجھے یہ کہنے آئی ہیں کہ میں کنول سے دور رہوں ۔
میں اس کے قریب کب گیا ہوں جو دور رہوں ۔ اس نے اپنی ماں سے لپٹتے ہوئے
کہا۔
محبت کے لیے محبوب ضروری تو نہیں ۔
یہ تو نفس ہے جو زلف کا کھلونا مانگے۔
بس میں ہو تو کوئی نہ لٹائے دل کا قرار۔
کون اپنے لیے کانٹوں کا بچھونا مانگے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بینش نے افسردگی سے کہا ، تمہاری نیچر میں جانتی ہوں ۔ تم ہنس کر بات کرو
گئے۔ وہ سمجھے گی ۔کام ہو گیا۔ ذرا دھیان سے دیکھ بھا ل کر بات کرنا۔
تمہاری دادی نے جان بوجھ کر تمہیں اس کے ساتھ بھیجا ہے تا کہ تمہیں پھنسا
لے ۔ کہاں ایسا گھر ملے گا، نواسی کے لیے۔ احمر نے امی کی طرف بےزاری سے
دیکھا ۔ اب ایسا بھی نہیں ہے امی۔ کنول میں کوئی کمی نہیں لگتی۔ شکل وصورت
اچھی ہے۔ بی ۔ اے کیا ہے۔ کوئی نہ کوئی اچھا لڑکا تو مل ہی جائے گا۔
بینش نے روکھے لہجے میں کہا۔ ملنا ہوتا تو مل چکا ہوتا ۔ سال ہو گیا ہے گھر
بیٹھی ہے۔ احمر نے دیکھا کہ ماں سے بحث بے کار ہے تو وہ بات ختم کرتے ہوئے
بولا۔ اچھا ، جو آپ کا حکم ۔ اب میں جاوں ۔
بینش نے کمرے سےنکلتے احمر کو پیچھے سے پھر کہا۔ ذرا بچ کر رہنا۔ آج کل کی
لڑکیاں بھی نا۔ پہلے پہل لوگوں کو اپنی بیٹیوں کی فکر ہوتی تھی۔ آج لڑکوں
کو دیکھنا پڑتا ہے ۔ ایسے الو بنا کر اپنے پیچھے لگاتی ہیں کہ لڑکا نہ ماں
،باپ کا رہتا ہے نہ گھر کا۔ جہاں جائے گی لیلی ٰ بس وہیں مجنوں ملے گا۔ وہ
بُرا بھلا کہتی ہوئیں کمرے سے نکل گئیں۔
احمر غزل گنگنانے لگا
دل دھڑے گا تو دھڑکنے کا مزا آئے گا
دیکھنا یہ ہے کہ دیوانا کدھر جائے گا
کچھ تو سنوروں گا میں ان سے ملنے کے لیے
کچھ تو وہ بھی مجھے مل کر سنور جائے گا
ابھی شروعات ہے ہم تم ہیں پاگل پن ہے
کسی آواز نے اسے اپنی طرف متوجہ کر لیا تو اس نے غزل ادھوری چھوڑ دی ،جو
اس نے رات میں ہی لکھی تھی۔پھوپھو اس نے دھیمی سی آواز میں کہا۔ مگر
دروازے پر جانے کے بعد اسے لگا اس کا وہم ہی تھا۔ کچھ چیزیں کیوں ادھوری رہ
جاتی ہیں کوئی نہیں جانتا۔ اس نے دل ہی دل میں سوچا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
احمر نے دروازے پر دستک دے کر کنول کو آواز دے کر پوچھا۔ آپ تیار ہو گئیں
۔ جیسے ہی دھیمی سی جی کی آواز آئی احمر کمرے میں داخل ہوا۔ کنول نے سفید
رنگ کا فراک اور چوڑی دار پاجامہ زیب تن کیے ہوئے تھا۔ اس کی کلائی میں
سفیدچاندی کا بریسلٹ تھا ، پیروں میں سفید کھوسا۔ موسم میں سردی کا احساس
رات کو بڑھ جاتا تھا۔ کنول نے جیکٹ پہنی تھی ۔۔۔۔جو احمر کی جینز سے مماثل
لگ رہی تھی۔ پاکٹ اور رنگ کے ساتھ ساتھ بٹن بھی کچھ کچھ ایک سے معلوم ہوتے
تھے۔ کنول نے نانی اور امی کے اصرار پر یہ فراک پہنا اور ہلکا سا میک اپ
بھی کیا تھا۔
اس نے احمر کو اپنی طرف ٹکٹکی باندھے کھڑا پایا تو کمرے کے کونوں کو دیکھنے
لگی۔ اس کے دل میں اداسی در آئی تھی۔ اس نے دل ہی دل میں خود سے کہا۔ میرے
لیے یہ اہم نہیں مگر اپنی ماں کے آنسو بہت اہم ہیں ۔ ان کی بات ماننا میرے
لیے اہم ہے ۔ خواہ وہ خود کو اندر ہی اندر کاٹ رہی ہو۔ احمر کو خاموش کھڑا
دیکھ کر اس نے دوبارہ پلٹ کر آئینہ کی طرف دیکھا۔ احمر نے اس کےقریب آ کر
آئینہ میں دیکھا۔ کنول نے اسے کنول کے بجائے خود کا جائزہ لیتے ہوئے پایا۔
اس نے کنول کو متوجہ کرتے ہوئے کہا۔ میں کیسا لگ رہا ہوں ۔ کنول نے زبردستی
مسکرانے کی کوشش کی ۔ اچھے ۔
احمر نے اس کی نظروں میں،آئینہ میں نظریں گاڑھتے ہوئے کہا۔ صرف اچھا۔ آپ
کو غالباً خود سے اس وقت محبت ہو رہی ہے۔کسی اور کو غور سے کیا دیکھیں گی۔
کنول کے چہرے کی مسکراہٹ تذبذب میں بدل گئی۔ اس نے ایک لمبی سانس لینے کی
کوشش کی۔اسے امید نہیں تھی کہ احمر اس سے ایسے بات رکرے گا۔وہ اس کے اس قدر
قریب کھڑا تھا کہ اس کے پرفیوم کی مہک کووہ اپنے اردگرد شدت سے محسوس کر
رہی تھی۔ وہ پہلا آدمی تھا ،جس کے وجود کا احساس اسے گھیرتا ہوا محسوس
ہوا۔ وہ اس احساس کو توڑنا چاہتی تھی۔ اس کے منہ سے صرف ایک ہی لفظ نکلا۔
محبت۔
احمر نے اس کے لفظ کو دُہرایا اور کمرے سے نکلتے ہوئے بولا ۔ آ جائیں میں
گاڑی میں انتظار کر رہا ہوں ۔ کنول نے اپنا پرس لیا اور کمرے سے احمر کے
پیچھے پیچھے نکل گئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گاڑی میں مکمل سکوت و خاموشی تھی۔ احمر کے پرفیوم کی خوشبو اور عجیب سی بے
چینی کنول کو گھیرے ہوئے تھی۔ سمندر کب آئے گا۔ تھوڑی تھوڑی دیر بعد اس کا
ذہین اس سے سوال کرتا۔ اچانک احمر نے گاڑی چلاتے ہوئے اس کی طرف دیکھ کر
شائستہ انداز میں کہا میوزک۔کنول نے اس کی طرف دیکھا ، نظر ملتے ہی کنول نے
نظر پلٹتے ہوئے کہا۔ آپ کی مرضی۔احمراپنے گہرے رنگ کے باوجود وہ پرکشش تھا
۔ کنول کا جی چاہا کہ وہ اسے دوبارہ دیکھے کیونکہ وہ پہلا آدمی تھا جس کے
ساتھ وہ اس طرح اکیلی گاڑی کی فرنٹ سیٹ پر بیٹھی تھی مگر اس نے دانستہ خود
کو ایسا کرنے سے روک لیا۔ اسے امی اور نانی کی باتیں یاد آئیں ۔ اس نے دل
ہی دل میں سوچا ۔کاش ایسا نہ ہوا ہوتا۔ ایک آہ سی اس کے سینے سے ابھری ۔
سمندر آ چکا تھا۔ احمر نے گاڑی روکی۔وہ سمندر کی طرف چل پڑے۔
احمر نےکنول سے سوال کیا ، آپ پانی میں ننگے پاوں نہیں جائیں گی۔ سنا ہے
کہ ننگے پاوں اگر سمندر کے پانی کو چھو جائیں تو سحر کا اثر نہیں ہوتا۔
کنول کے چہرے پر مسکراہٹ پھیل گئی۔ احمر کو اپنے چہرے کا تفصیلی جائزہ لیتے
دیکھ کر اس نے سنجیدہ ہونے کی کوشش کی ،جس میں وہ ناکام رہی ۔ احمر نے
نہایت سنجیدگی سے کہا۔ آپ ایسی باتوں پر یقین نہیں کرتی۔کنول نے سمندر کی
طرف دیکھتے ہوئے کہا۔ آپ کرتے ہیں ۔ احمر نے کچھ دیر کے توقف سے کہا۔ جی
ہاں ۔ کرتا ہوں ، سحرزدہ ہونے کے بعد یقین کرنا مجبوری ہو جاتا ہے۔
کنول چاہتی تھی کہ پوچھے ، وہ کب سحر زدہ ہوا ،مگرنانی اور امی کے مابین
ہوئےمکالمہ کے الفاظ کی بازگشت نے اسے روک دیا۔ احمر ابھی بھی ٹکٹکی باندھے
اسے ہی دیکھ رہا تھا کہ وہ اس سے سوال کرئے مگر وہ خاموش ہی سمندر کی طرف
دیکھتی رہی ۔ احمر نے کہا۔ ''مجھے لگتا ہے آپ کو سمندر پسند نہیں آیا۔
کنول نے سمندر کی طرف دیکھتے ہوئے ہی سوال کیا ۔ آپ کو ایسا کیوں لگا۔
احمر نے اپنے سر پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔ آپ نے سمندر کے بارے میں کوئی
رائے نہیں دی نا ۔اس لیے۔''
کنول نے ایک لمحہ کے لیے احمر کی طرف دیکھا ،جو اسی کی طرف دیکھ رہا تھاپھر
دھیرے سے کہا۔''خاموشی اپنے آپ میں بہت بڑی رائے ہے۔''
احمر نے ہنستے ہوئے کہا، وہ کیسے؟کنول نے سنجیدگی سے کہا،''کچھ چیزوں کا
اثر کیسا ہوتا ہے ،الفاظ میں بیان نہیں کیا جا سکتا۔ ''احمر نے اسی کی طرف
دیکھتے ہوئے کہا ۔ یہ تو آپ بلکل ٹھیک کہہ رہی ہیں ۔ کنول نے اس کی طرف
دیکھا تو وہ ابھی بھی کنول ہی کی طرف دیکھ رہا تھا۔احمر کے پرفیوم کی خوشبو
اور سمندر کی نمی اس کے وجود میں اندر تک اُتر رہے تھے۔
احمر نے آئس کریم والے کو دیکھا تو کنول سے پوچھا ، آپ کھائیں گی۔ کنول
کا دھیان آئس کریم کی طرف نہ تھا اس نے بے دھیانی میں کہا۔ جی۔
احمر اس کے لیے آئس کریم لینے چلا گیا ۔ وہ فقط ایک ہی آئس کریم لایا
تھا۔ کنول نے اس کے دینے پر آئس کریم پکڑ لی۔ احمر کی طرف دیکھتے ہوئے اس
نے تعجب سے کہا۔ آپ آئس کریم نہیں کھائیں گئے۔ احمر نے سر پر ہاتھ رکھتے
ہوئے کہا۔ وہ کل رات سے میری کچھ طبعیت ٹھیک نہیں ۔ سر میں درد ہے ۔کنول نے
کہا ،تو چلیں پھر واپس چلیں ۔ گھر جا کر آرام کریں آپ ۔آپ کہہ دیتے ۔ ہم
نہیں آتے۔
احمر نے مسکراتے ہوئے کہا۔ میں کبھی کسی لڑکی کے ساتھ اکیلا کہیں نہیں گیا
تو یہ موقع گنوانا نہیں چاہ رہا تھا ۔ کنول نے ایک نظر احمر کی طرف دیکھا۔
جو اپنی سرخ انکھوں کے باوجود شرارتی موڈ میں لگ رہا تھا۔ کنول نے نہ چاہتے
ہوئے بھی کہا۔ ''میں آپ سے بڑی ہوں اور کزن بھی تو آپ کی بڑی بہن جیسی
ہوں ۔ ''احمر نے ہنستے ہوئے کہا۔''میری دادی اور آپ کی نانی مگر نہیں
چاہتی کہ ہم بہن بھائی بنیں ۔ خیر آپ مجھ سے اتنی بڑی بھی نہیں ہیں ۔
''کنول اب خاموش رہی ۔اسے سمجھ ہی نہیں آیا کہ وہ کیا کہے۔
وہ واپسی کے لیے گاڑی میں بیٹھ چکے تھے۔ گاڑی سگنل پر رُکی تو ایک بھکارن
کی صدا پر احمر نے گاڑی کا شیشہ کھولتے ہوئے اسے بیس روپے دیے ۔ وہ خوشی سے
دُعائیں دینے لگی۔ اللہ جوڑی سلامت رکھے ۔ اللہ چاند سا بیٹا دے۔ احمر نے
ہنستے ہوئے کہا۔ ارےفل سٹاپ لگاو۔کنول کو پورے بدن میں جھجھری سی محسوس
ہوئی۔ اس نے دل ہی دل میں کہا ۔ افوہ میرے اللہ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فون کی گھنٹی بج رہی تھی۔احمر نے فون کی سکرین دیکھ کر کہا ، آپ کا ہے۔
کنول نے فون دیکھا تو ا س کی امی کا تھا ۔ اس نے فون اُٹھاتے ہی کہا ،''
امی گھر آ رہے ہیں ۔ آ کر بات کرتی ہوں ۔ ''امی نے دوسری طرف سے کہا
۔''سمندر دیکھ لیا۔''کنول نے جلدی میں ''جی جی ''کہا۔
امی کی آواز اسے کٹتی ہوئی محسوس ہوئی۔ ہم وہ۔۔۔سسرال ۔۔۔۔۔۔۔جا۔آگے کچھ
سمجھ نہیں آیا۔آواز سمجھ نہیں آ رہی امی۔ امی نے دوبارہ کہا۔ تمہارے
ماموں کے ساتھ جا رہی ہوں ۔محمود کے سسرال ۔دیکھو واپس آ کر کھانا کھا
لینا۔ اپنا خیال تو تم رکھتی نہیں ہو۔اب ماں کب تک کھلاتی رہے گی۔ بڑی ہو
جاو۔ کنول کو ایسا لگا، احمر کو اس کی امی کے الفاظ سنائی دے رہیں ہیں ۔ اس
نے جی جی کہہ کر جلدی سے فون کاٹ دیا۔ احمر نے مسکرا کر کہا۔ ''امی کیا کہہ
رہی تھیں ۔''
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کنول نے احمر کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔ ''کہیں جانے کا کہہ رہی تھیں ۔
''احمر نے گاڑی کی سپیڈ تھوڑی تیز کی توساتھ ہی بولا ، آپ کو کوئی مسلہ تو
نہیں ہے نا اگر میں تھوڑی تیز گاڑی چلاوں ۔ کنول نے سڑک کی طرف دیکھتے ہوئے
ہی جی نہیں کہا۔ کچھ دیر میں وہ گھر پہنچ چکے تھے ۔ کنول نانی جان کے پاس
گئی تو اسے پتہ چلا اس کی امی ،محمود اور بینش ممانی سب محمود کے سسرال گئے
ہوئے ہیں ۔ اب اسے ٹھیک سے سمجھ آ گئی کہ امی کیا کہہ رہی تھیں ۔
نانی نے کنول کو چھیڑتے ہوئے کہا۔ احمر نے کیا کیا کہا۔ ان کے انداز سے چڑ
کر کنول اپنے کمرے میں چلی گئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
احمرسر پر ہاتھ رکھے لیٹا تھا ۔ اس نے فون کی گھنٹی بند کی تھی تاکہ کچھ
دیر آرام کر سکے۔ اس کے سر میں ابھی تک درد تھا۔ کنول اپنے کمرے میں بیٹی
جیولری اتار رہی تھی۔ بھکارن کی باتیں اس کے کانوں میں گونج رہی تھیں ۔ اس
کے چہرے پر بے اختیار مسکراہٹ آ گئی ۔کنول کچن میں آئی ،کھانا نکالتے وقت
اسے احمر کا خیال آیا ۔ اس نے احمر کے پاس جا کر کہا۔ ''کیا آپ کچھ
کھائیں گئے''احمر نے نہیں میں سر ہلایا۔ کنول نے پھر کہا''چائے بنا
دوں۔''احمر نے اثبات میں سر ہلایا ۔کنول دوبارہ کچن میں چلی گئی۔کچھ ہی دیر
میں کنول احمر کو چائے دے کر اپنے کمرے میں چلی گئی۔ اس کی کب انکھ لگی
،اسے پتہ ہی نہیں چلا۔ ماموں کی آواز گھر میں ذور سے سنائی دی۔ احمر
۔۔احمر۔آواز اس قدر بلند تھی کہ کنول کی انکھ کھل گئی ۔
کنول بیڈ سے اُٹھ کر کمرے کے دروازے تک آ گئی۔ماموں شاہد احمر کے کمرے میں
جا چکے تھے۔ ماموں چونکہ بہت دھیمی آواز میں بولتے تھے۔ اس لیے کنول ابھی
تک کمرے کے دروازے کے ساتھ لگی کھڑی تھی۔ احمر ، ماموں کے ساتھ تیزی سے گھر
سے باہر نکل گیا۔
کنول کی سمجھ میں کچھ نہیں آیا۔ اسے سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ اس کا دل
کیوں دروازے سے ہلنے کا نہیں کر رہا۔ وہ وہیں کی وہیں کھڑی تھی۔اس نے دیکھا
،جیولری کا ڈبہ ،اس نے جیولری رکھ کر کھلا ہی چھوڑ دیا تھا،اس نے ڈبہ بند
کیا ۔وہ دراز کھول رہی تھی کہ ڈبہ اس کے ہاتھ سے گِر گیا۔ اس کے بریسلٹ کا
موتی نکل کر باہر گِر گیا تھا۔ اسے افسوس ہو رہا تھا۔ اس نے موتی بھی ڈبہ
میں رکھا اور ڈبہ دراز میں رکھتے ہوئےباہر آ گئی۔ ایسی عجیب سی کیفیت تھی
کہ اسے خود سمجھ نہیں آ رہا تھا ،ہو کیا رہا ہے۔ وہ نانی کے کمرے میں
آگئی۔کنول نے ''نانی ، نانی۔ نانی ''جو منہ پر دوپٹہ ڈالے لمبی لمبی سانس
بھر رہی تھیں ،ہوں کہہ کر پر لمبی لمبی سانس بھرنے لگی۔
وہ دیر تک ٹی وی چینل لگا کر دیکھتی رہی ۔ نیند تھی کہ اس سے کوسوں دور
تھی۔ ماموں اور احمر کو گئے ہوئے بھی تین گھنٹے ہو چکے تھے۔ وہ حیران تھی
کہ امی لوگ نہیں آئے۔ اس نے فون اُٹھایا اور امی کو فون کرنے لگی۔ دوسری
طرف سے فون بند ہونے کی اطلاع موصول ہو رہی تھی۔
احمر گھر آ چکا تھا۔وہ تیزی سے کمرے میں گیا تھا۔ کنول نے ٹی وی بند کی
اور اپنے کمرے میں جانے کا سوچ ہی رہی تھی کہ احمر تیزی کے ساتھاآیا،وہ اس
کے پاس کھڑا تھا ۔ اس کا چہرہ بہت رونے کی وجہ سے عجیب سا لگ رہا تھا۔ کنول
نے غیرارادی طور پر اس کے سامنے کھڑے ہوتے ہوئے کہا۔ کیا ہوا؟ اس کی انکھوں
سے آنسو گِر گئے۔'' کنول ''اس کی زبان لڑکھڑا گئی۔
|