اپنوں اور پرایوں میں ہونے والے کئی کیس ہمارے علم میں
ہیں کہ شادی کے بیس بیس پچیس سال بعد طلاق ہو گئی ۔ ہمارے ایک بہت قریبی
جاننے والوں میں شادی کے چالیس سال بعد طلاق ہوئی ان کے آٹھ بچے تھے اور سب
کے سب شادی شدہ اور بال بچے دار ۔ ایک دور پرے کے رشتے داروں میں پچھتر اسی
سالہ بوڑھے میاں بیوی پچھلے بیس پچیس سالوں سے ایک دوسرے سے الگ تھلگ الگ
الگ بیٹوں کے ہاں مقیم تھے خاتون شوہر کی شکل بھی دیکھنے کی روادار نہ تھیں
اگر طلاق نہیں بھی ہوئی تھی تو دونوں کے درمیان عملاً علیحدگی تو ہو ہی چکی
تھی ۔ ایک بہت مشہور سیاسی شخصیت کی شادی کے پینتالیس سال بعد طلاق ہوئی
جبکہ دونوں میاں بیوی ایک دوسرے کے فرسٹ کزن تھے اور بچے بھی گرانڈ پیرنٹس
بن چکے تھے ۔ ہمارے اپنے ایک رشتہ داروں کی لڑکی نے شادی کے پچیس سال بعد
اپنے شوہر سے طلاق لے لی ۔ چھ بچے اور سب کے سب جوان ، اپنی ماں کے طرفدار
باپ کے مخالف اور اس طلاق پر رضامند ۔ اور ابھی پچھلے سال یہاں ڈیلس ہی میں
ہماری دو جاننے والی فیملیوں میں شادی کے بیس بیس سال بعد طلاق ہوئی اور
یہاں بھی جوان بچے ۔
عموماً دیکھنے میں یہی آتا ہے کہ شادی کے ابتدائی سالوں میں جبکہ میاں بیوی
جوان ہوتے ہیں تو لاکھ ناچاقی اور نااتفاقی کے باوجود عورت طلاق نہیں چاہتی
اور گھر اسی کی قربانیوں اور سمجھوتوں سے بستا ہے پھر بھی اگر گھر ٹوٹ ہی
جائے تو سب بدنامی اور ذلت صرف عورت کے حصے میں آتی ہے قصوروار وہی ٹھہرائی
جاتی ہے اور اسی داغ سے بچنے کے لئے اکثر ہی عورت اپنی ہستی کو مٹا لیتی ہے
۔ لیکن کیا وجہ ہے کہ عمر کے آخری حصے میں جب زندگی بھر کے ہمسفروں کی
راہیں جدا ہونے لگتی ہیں تو یہ فیصلہ زیادہ تر بلکہ ہمارے علم میں آنے والے
تمام ہی کیسوں میں ہمیشہ عورت کا ہوتا ہے ۔ اسے سمجھانے بجھانے کی ہر کوشش
ناکام ہو جاتی ہے اب وہ کسی صورت مرد کے ساتھ رہنے کو تیار نہیں جبکہ وہ
طلاق دینے پر راضی نہیں ۔ مگر عورت نہیں مانتی وہ اس رشتے کو توڑ کر اور
اسے چھوڑ کر چلی جاتی ہے ۔ جہاں فریقین کے درمیان ان کی مجموعی زندگی میں
پائے جانے والے اختلافات منظر عام پر آتے رہے ہوں وہاں تو بات سمجھ میں آتی
ہے لیکن عمومی طور پر اگر ان کے تعلقات خوشگوار رہے ہوں بیشتر زندگی مفاہمت
کے ساتھ گذری ہو تو اچانک ہی ایک طویل رفاقت کیوں دائمی جدائی کا شکار بن
جاتی ہے؟
کیونکہ ہوتا کیا ہے کہ بظاہر بہت مطمئین نظر آنے والے جوڑوں کے درمیان بھی
درپردہ کوئی آقا اور غلام والا رشتہ ہوتا ہے مرد اپنی برتری کے زعم میں
عورت کو طرح طرح سے توڑتا ہے اس کی عزت نفس کو مجروح کرتا ہے اپنی مرضی اور
پسند کو اس پر مسلط کرتا ہے اس کی کمزوریوں اور مجبوریوں کو اپنی ڈھال
بناتا ہے اس کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کو خود اپنی آنکھوں سے دیکھنے کے
باوجود ان کے تدارک کی بجائے اسی کو اپنے دباؤ میں رکھتا ہے اپنے آگے تو
جھکاتا ہی ہے اسے اور بھی جگہ جگہ جھکنے پر مجبور کرتا ہے اور اس کے ہر
احتجاج کے جواب میں اسے طلاق کی دھمکی دیتا ہے بلکہ بعض مردوں کا تو اوڑھنا
بچھونا ہوتا ہے بیوی کو بات بات میں طلاق کی دھمکی دے کر پسپا کرنا اور
اپنی من مانی کرنا ۔ تو عورت جب تک جوان ہوتی ہے بچے چھوٹے ہوتے ہیں تو وہ
ان کے تحفظ اور خود اپنے والدین کی عزت کی خاطر مرد کا اندر خانے سب ناروا
سلوک اس کی بدزبانی اس کا جائز و ناجائز تحکم اپنی توہین صبر و شکر کے ساتھ
سہتی رہتی ہے اندر ہی اندر چکناچور ہوتی رہتی ہے اور خود اپنی ہی نظروں سے
گرتی چلی جاتی ہے ۔
پھر جب بچے جوان ہو جاتے ہیں اپنے پیروں پر کھڑے ہونے کے بعد اپنے اپنے
گھروں کے بھی ہو جاتے ہیں تو عورت کو بھی اپنے پیروں تلے زمیں واپس آتی
ہوئی معلوم ہوتی ہے اب زندگی بھر کی سہی ہوئی زیادتیوں اور ذلتوں کا بدلہ
لینے کا وقت آن پہنچتا ہے اور مرد کی حیثیت کسی ہارے ہوئے جؤاری کی سی ہوتی
ہے ۔ عام طور پر ایسا ہی ہوتا ہے کہ مرد ساری زندگی کی فرعونیت کے بعد
بڑھاپے میں جب کمزور ہو جاتا ہے بہت سوں نے اب اسے چھوڑ دیا ہے اب وہ خود
کو بہت اکیلا محسوس کرنے لگا ہے اپنی زیادتیوں اور ناانصافیوں کا بھی احساس
ہو چلا ہے تو اب وہ اپنے سارے زعم اور گھمنڈ کو بالائے طاق رکھ کر بلا جھجک
اس عورت کے آگے جھک جاتا ہے جسے ساری زندگی اپنے آگے جھکا کر رکھا تھا اور
عورت لمحہ بھر میں سب کچھ بھلا کر اسے معاف کر دیتی ہے ۔
مگر حالات و مشاہدات نے ثابت کیا ہے کہ ہر عورت اتنی بیوقوف یا اعلا ظرف
نہیں ہوتی اس کا دل اتنا بڑا نہیں ہوتا کہ وہ بدلہ لینے پر قادر ہونے کے
باوجود اس موقع کو اپنے ہاتھ سے جانے دے وہ انتقام لے لیتی ہے زندگی کی شام
میں ۔ مردوں کو بھی چاہیئے کہ ذرا سنبھل کر رہیں اپنی جوانی اور طاقت کے
نشے میں عورت کو اتنا ذلیل اور بےسہارا نہ کریں کہ بڑھاپے میں وہ آپ کی بہت
سی مہربانیوں محبتوں اور احسانات کو بھلا دے اور صرف اس ذلت کو یاد رکھے جو
آپ نے اسے اپنے اختیار کے دور میں دی تھی ۔ اس کی زندگی کو زندان نہ بنائیں
منکوحہ کو مفتوحہ سمجھنا چھوڑ دیں آج بیوی کو اپنی ملکیت یا اپنے پیر کی
جوتی سمجھنے سے پہلے یہ جان لیں کہ بڑھاپے میں یہی جوتی آپ کے اپنے سر پر
بھی پڑ سکتی ہے ۔ یاد رکھیں ہر عورت معاف نہیں کرتی (رعنا تبسم پاشا)
|