سرمایہ دارانہ زوال کے اندھیروں کی زد میں

افلاطون نے کہا تھا کہimperialism ہی دنیا بھر میں برائیوں جنگوں اور فسادوں کی جڑ ہے۔ آسان الفاظ میں یہ کہنا بجا ہوگا کہ سرمایہ داریت امیر طبقات کو کمزوروں پر احساس برتری کا گر سکھاتی ہے۔ ۔ یہ جائز ناجائز زرائع سے دولت کے انبار اکٹھے کرنے غریب انسانوں کا خون چوسنے اور امیر کو امیر تر اور غریب سے غریب تر بنانے کا وحشیانہ اور خونخوار طریقہ واردات ہے۔ مغربی دنیا میں خوشحالی اور صنعتی و مالیاتی ہریالی کے باوصف حقائق اور مفروضوں کے درمیان امارت اور غربت کی خوفناک خلیج پائی جاتی ہے جو مغرب کے زرائع ابلاغ کی پیدا کردہ ہے جنکو سرد جنگ کے عرصہ میں اظہار آزادی کی آڑ میں سچ و حقائق کو دفن کرنے جھوٹ دھوکے اور خواہشات کو خبر بنانے کی کھلی چھٹی دے دی گئی۔ مغربی میڈیا جہاں مسلمانوں پر دہشت گردی کے حوالے سے گھٹیا ترین الزامات عائد کرنے میں کوئی ثانی نہیں رکھتا وہاں امریکہ اور یورپ کا زرائع ابلاغ مغربی عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کا اعزاز رکھتا ہے۔ یورپی قوموں کو آج بھی گمراہ کیا جاتا ہے۔ یہ سلسلہ اج بھی جاری و ساری ہے۔ مغربی میڈیا اہل مغرب کو ایسے خواب دکھاتا ہے جو کبھی شرمندہ تعبیر نہیں ہوتے مگر یہ ڈراؤنے سپنوں میں تبدیل ہوسکتے ہیں۔ 61 فیصد امریکیوں کو بتایا جاتا ہے کہ حکومت غیر ملکی امداد کے لئے بجٹ کا چوتھائی حصہ یعنی25 فیصد خرچ کیا جاتا ہے مگر سچ تو یہ ہے کہ یہ تناسب ایک فیصد سے کم ہے۔ برطانوی کہتے ہیں کہ انکے ملک میں تارکین وطن کی تعداد کل آبادی کا23 فیصد ہیں۔برطانیہ کی نوآبادی جمہوریہ چیک یونین جہاں سورج غروب نہیں ہوتا تھا میں غلام بنا کر لائے جانیوالے تارکین وطن کی تعداد کل آبادی کا چار فیصد ہے۔ دوائی کا غلط استعمال یا ملاوٹ شدہ خوراک کھانے سے صحت متاثر ہوتی ہے اسی طرح میڈیا اور ٹی وی چینلز پر مضروضوں خودتراشیدہ خبروں من گھڑت حقائق پر مبنی تجزیوں اور فسوں کاری کا پے درپے نشر کیا جانیوالہ درس انسانی ذہن کا توازن بگاڑنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ کارل مارکس نے صدیوں قبل دیوتاؤں کے متعلق کہا تھا کہ وہ جب کسی معاشرے کو تباہ کرنے کا منصوبہ بناتے تو پہلے وہاں انسانوں کا ذہنی توازن بگاڑا جاتا ہے۔ مغرب میں آج یہی کھیل کھیلا جارہا ہے۔ مغرب والے کہتے ہیں کہ تیونس کے زین العابدین مصر کے حسنی مبارک 30لوں سے کرسی کے ساتھ چپکے ہوئے تھے۔ ہم مغرب کے اس نکتے کو درست تسلیم کرتے ہیں مگر دکھ تو یہ ہے کہ وہ اس کھری کھری حقیقت سے اتفاق نہیں کرتے کہ مصر تیونس اور لیبیا کے انقلابیوں کی طرح دنیا اپنے اوپر شیش ناگ کی طرح مسلط دو سو سالہ سرمایہ دارانہ نظام سے تنگ ہوچکی ہے کیونکہ جدید ترین ایجادات اور دریافتوں پر قبضہ کرلینے کے باوجود یہ نظام لوگوں کی زندگیوں میں سکھ سکون شانتی اور بہاروں کی بجائے دکھ رنج و الم اور جان لیوا مشکلات میں مزید اضافہ کررہا ہے۔ یہ نظام دنیا سے غربت بے روز گاری اور جہالت کے خاتمے میں کوئی مناسب رول ادا کرنے میں ناکام رہا۔ دنیا کی تاریخ میں آج تک اتنی غربت مایوسی اور بے چارگی نہیں دیکھی گئی جسکے درد ناک مناظر ہمیں دیکھنے کو ملتے ہیں۔ ابتدائے افرینش سے اتنی دولت تاریخ کے کسی دور میں نہ تھی جتنی آج سرمایہ دارانہ ہاتھ میں مقید ہے۔ مغرب کے زمانہ ساز دانشور رب سئیول اور فریڈو سیٹن مشرق وسطی میں ہونے والی انقلابی تحریکوں پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ سرمایہ دارانہ نظام زوال کی کالی راتوں کی زد میں ہے۔2008 کے مالیاتی بحران کے بعد دنیا میں انقلابی تحریکیوں کا نیا عہد شروع ہورہا ہے۔ مصر لیبیا اور مڈل ایسٹ اسکے واضح ثبوت ہیں۔ اگر حسنی مبارک اور قذافی ایسے مضبوط ترین ڈکٹیٹر عوام کے غیض و غضب کا مقابلہ نہیں کرسکے تو پھر روئے ارض کی کوئی راجدھانی اور ظالمانہ نظام عوامی لہر کا مقابلہ نہیں کرسکتا۔ دونوں دانشوروں کی رائے ہے کہ مستقبل میں عالمی سیاسی و معاشی منظر نامہ محلاتی سازشوں کی بجائے محنت کشوں کے میدانوں اور التحریر چوک میں مرتب ہوگا۔یورپی ممالک پر غیر ملکی قرضوں کا بھوت سوار ہے۔ گہرے مالیاتی بحران کا نشانہ بننے والی مغربی ریاستیں اپنے تخلیق کردہ دلدل میں دھنستی جارہی ہیں وہ نکلنے کی کوششیں کررہی ہیں مگر کہا جاتا ہے کہ اس نظام میں بقا کی تدبیر نہیں پائی جاتی۔پچھلے سال اکتوبر میں فنانشل ٹائمز نے رپورٹ جاری تھی کہ یورپی ممالک نے اسی سال600 سو ارب یوروز کے قرضہ جات ادا کرنے ہیں۔ جرمنی پر162 ارب ڈالر برطانیہ نے152 ارب ڈالر اور سپین نے90 ارب ڈالرز کے مقروض ہیں۔ بظاہر تو لندن سے ایتھنز تک سکون دیکھا جارہا ہے مگر مضبوط اداروں کے دروازوں پر خدشات اور خطرات کی دستک کو سنا ان سنا نہیں کیا جاسکتا۔اربوں یوروز کے قرضے سرمایہ داروں کے ڈوبتے ہوئے سرمائیے اور یورپی مالیاتی بنکوں کا بیل اوٹ پیکج کے لئے حکومتوں کا محتاج بننا اور معدنی وسائل پر قبضے کے لئے سامراجیوں کی مسلمانوں پر مسلط کردہ جنگوں کے غور و خوض سے یہ حقیقت آشکار ہوتی ہے کہ مشرق وسطی میں تبدیلیوں کے طوفان بہت جلد سرمایہ دارانہ نظام کے بلند و بالا قلعوں کو زمین بوس کردیں گے۔ روئے ارض پر بھوک ننگ استحصال بے روزگاری غربت کی چکی میں کولہو کے بیل کی طرح پسنے والی انسانیت جس روز سربکف ہوکر سڑکوں پر آجاتی ہے تو ظلم و جبر کا دور ظلمت ختم ہوجائے گا۔
Rauf Amir Papa Beryar
About the Author: Rauf Amir Papa Beryar Read More Articles by Rauf Amir Papa Beryar: 204 Articles with 130300 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.