وہ کون سنگ دل ہے ، جو شہباز
بھٹی کے قتل پر دل گرفتہ نہ ہوا ہو، ہر طبقہ فکر نے اس ظلم کی شدید مذمت کی
ہے،سیاستدانوں اور معاشرے کے دیگر طبقوں نے اپنے اپنے بیانات کے ذریعے اپنے
جذبات کا اظہار کیا ہے۔مسیحی برادری نے بھی بجا طور پر پورے ملک میں احتجاج
کیا ہے، جو ابھی تک کسی نہ کسی شکل میں جاری ہے۔ یہ واقعہ ہے ہی افسوسناک
اور قابل مذمت ۔ اقلیتوں کا بھی اس ملک پر اتنا ہی حق ہے جتنا کسی اور کا،
وہ سب ہمارے بھائی ہیں انہیں بھی یہاں رہنے اور زندگی گزارنے کی آزادی اور
حقوق حاصل ہیں۔ بد قسمتی سے پاکستان اس وقت دہشت گردی کی لپیٹ میں ہے ، اس
کی اصل وجوہات کیا ہیں ، ہر کوئی اپنے زاویہ نگاہ سے ہی دیکھتا اور اندازہ
لگاتا ہے۔
اب شہباز بھٹی کو قتل کیا گیا ، تو اس قبیح فعل کی ذمہ داری فوری طور پر
طالبان تحریک نے قبول کرلی ، نہ جانے یہ ”طالبان تحریک “ کیا ہے ؟ اس کا
رہنما کون ہے، یہ معرض وجود میں کب آئی ، اس کا صدر مقام کہاں واقع ہے، اس
کا نیٹ ورک کہاں ہے ، جو اتنی برق رفتاری سے ذمہ داری قبول کرنے کا اعلان
منظر عام پر لے آتا ہے؟ کوئی اس کے متعلق جاننے کی زحمت اٹھانا گوارا نہیں
کرتا، ادھر کوئی حادثہ ہوا، ادھر ذمہ داری کی قبولیت کی خبر سامنے آگئی،یہ
نہایت ہی سطحی طریقہ بھی اپنایا گیا کہ جائے واردات پر کوئی پمفلٹ پھینک کر
”ثبوت “ چھوڑ گیا کہ یہ کام طالبان کا ہے۔
اس قسم کے واقعہ کے بعد اقلیت نے تو مذہبی انتہا پسندوں کا نام لینا ہی
ہوتا ہے کہ ان کا ذہن بنا ہوا ہے، انسانی حقوق کے کئی علمبردار اور سول
سوسائٹی کے ارکان بھی اس طرح کا الزام مذہب پسند لوگوں پر ہی لگاتے ہیں ۔شہباز
بھٹی کے قتل کے بعد خود کش دھماکوں کے دو المناک واقعات ہوچکے ہیں، ان میں
پچاسیوں بے گنا ہ لوگ مارے گئے اور بہت سے اپنی باقی زندگی معذوری میں
گزاریں گے ، انہیں کس جرم کی سزا ملی کسی کو نہیں معلوم ؟کہا جاسکتا ہے کہ
ان خود کش دھماکوں کی ذمہ داری بھی طالبان نے قبول کر لی تھی، پولیس نے بھی
اپنا روایتی بیان جاری کر کے اپنا فرض پورا کردیا ہے کہ ان کا اصل ٹارگٹ
فلاں تھا، اور یہ بھی کہ جائے واردات کے قریب ہی سے خود کش حملہ آور کا سر
مل گیا۔ خود کشوں کا یہ” سر“ بڑی اہم چیز ہے ، خوش قسمتی سے حادثے کے فوراً
بعد یہ مل جاتا ہے،مگر افسوس کہ اس قسم کے سروں کی شناخت کبھی نہ ہوسکی۔
کیا کوئی مسلمان کسی مسجد میں یا بازار یا نما ز جنازہ کے موقع پر خود کش
حملہ کر کے بے گنا ہ لوگوں کو قتل کرنے کا مرتکب ہوسکتا ہے؟ نہیں ، ہر گز
نہیں۔ اگر کوئی ایسا کرتا ہے اور کرنے کے بعد اس کو ذمہ داری قبول کرتا ہے
، وہ مسلمان ہو ہی نہیں سکتا۔ کون جانتا ہے کہ القاعدہ کیا ہے؟ آج کل
القاعدہ کہاں ہے؟ اس کا نیٹ ورک کیا ہوا؟ اس کے حملے کیا ہوئے ؟ کیا واقعی
اس کی کمر توڑ دی گئی ہے؟ یا اس کے بطن سے یہ طالبان برآمد ہوگئے ہیں؟یا یہ
کہا جائے کہ دھماکے کرانے والوں کی اختراع ہی ہے کہ جب چاہا القاعدہ کا
اعلان کردیا ، جب چاہا اس کا خاتمہ کر کے طالبان تحریک کا ذکر چھیڑ دیا،کل
طالبان کو کچل دیا جائے گا اور کوئی اور نام ظاہر کر کے اپنے قتل وغارت گری
کی ذمہ داریاں اس پر ڈال دی جائیں گی۔
ہم سب مسیحی بھائیو ں کے غم میں بھی برابر کے شریک ہیں، ہمیں بازاروں اور
جنازوں میں خود کش حملوں میں جاں بحق ہونے والوں کے ساتھ بھی دلی ہمدردی
ہے، مگر پاکستان کے مخصوص حالات کے تناظر میں دیکھا جائے تو یہ کسی’ طالبان
تحریک ‘نامی تنظیم کا کام نہیں، بلکہ یہ کسی سوچی سمجھی سازش کا شاخسانہ
ہے،یہ کوئی دشمن ہی ہے جو پاکستان کو غیر مستحکم کرنا چاہتا ہے ، جو اس کو
ناکام ریاست قرار دلانا چاہتا ہے، جو اس میں بھائیوں کی طرح رہنے والوں کو
ایک دوسرے کا دشمن بنا رہا ہے۔ ہم سب کو مل کر اس مشترکہ دشمن کو پکڑنا
ہوگا۔ اگر ہم ایسے حادثات وسانحات پر باہم دست وگریباں ہی رہے تو یہ دشمن
کی کامیابی ہے ، ہم آپس میں لڑ کر دشمن کو ہی خوش کر رہے ہوتے ہیں۔ ہمارے
حکمران ، ہمارے سیاستدان ، ہمارے علماء، ہماری اقلیتوں کے نمائندے آپس میں
سر جوڑ کر بیٹھیں، ایک دوسرے کو برداشت کرنے کی روایت ڈالیں، تاکہ مشترکہ
دشمن کو کچلنے کے لئے پوری قوم سیسہ پلائی دیوار بن جائے۔ |