قارئین ! پاکستان میں ٹیکس ادا کرنے والوں کی شرح بہت کم
ہے جو کہ یہ بات ظاہر کرتی ہے کہ قومی خزانے کو ہر سال اربوں روپوں سے
محروم ہونا پڑ رہا ہے۔اگرچہ اس کی بہت سی وجوہات ہیں مگر بڑی اہم وجہ یہ
بھی ہے کہ ہمارے ہاں دیئے جانے والوں ٹیکسوں کی رقوم درست جگہ پر خرچ نہیں
ہوتی ہے، اس کے ساتھ ساتھ ہم خود بھی لالچ میں آکر اپنی آمدن کم ظاہر کرتے
ہیں تاکہ ہمارے اثاثہ زیادہ بن سکیں۔دوسری طرف عوام کو وہ سہولیات بھی نہیں
ملتی ہیں جس کے لئے ٹیکس کی رقم وصول کی جاتی ہے۔ابھی راقم السطور کو ایک
سرکاری ہسپتال میں جانے کا اتفاق ہوا ہے،وہاں جا کر یہ مشاہدہ ہوا ہے کہ
شام کے اوقات میں چلنے والے ایک سرکاری ہسپتال میں ڈاکٹر صاحبان خوش گپیوں
میں مصروف ہیں اور عوام بچاری اُن کا انتظار کر رہی ہے کہ وہ کب اُن کو
دیکھنے تشریف لاتے ہیں، وہ اپنے مخصوص کمروں کی بجائے کسی دوسرے ڈاکٹرکے
پاس بیٹھ کر اپنے مریضوں کا معائنہ کر رہے ہیں، کہیں پر چائے اور کہیں پر
نماز کے لئے مریضوں کو خوار کرایا جا رہا ہے،اس میں امیر وغریب سب ہی شامل
ہیں، وہ سب لوگ جو کہ بھاری بھرکم ٹیکس کی ادائیگی کر رہے ہیں کیا وہ اس
طرح کی سہولیات پر کیا مزید ٹیکس کا بوجھ برداشت کر سکتے ہیں یہ ایک سوالیہ
نشان ہے۔
قارئین ! اب اگر آپ ٹیکس دے بھی دیں تو یہ بھی اس قدر نہیں ہوگا کہ اس سے
ہمارے تمام تر قرض اُتر سکیں۔ حکومت کے ذمہ مختلف ممالک اور آئی ایم ایف سے
لیا گیا قرض اُس سے کہیں گنا زیادہ ہے جو قابل ادا ہونا ہے۔ محض ہمارے
ٹیکسوں کی وجہ سے یہ قرض نہیں اتر سکتا ہے مگر اس میں اتنی کمی ضرور ہو
سکتی ہے کہ ہمارے دیگر اخراجات جو کہ تعلیم، صحت اور دیگر شعبہ جات پر ہونے
ہیں اُن کے لئے کچھ گنجائش پیدا ہو جائے کیونکہ اس سے قرض کی ادائیگیوں میں
آسانی پیدا ہو سکتی ہے۔اس لئے ہر فرد کو ٹیکس ضرور ادا کرنا چاہیے تاکہ ملک
معاشی طور پر مضبوط ہو سکے اور ہماری معیشت مستحکم ہو سکے مگراس کے لئے
ضروری ہوگا کہ حکومت بھی اب عوام کو سب سے پہلے سہولیات کی فراہمی کو ممکن
بنائے ۔پھر ٹیکس کی ادائیگی کے بارے میں اُن کو شعور دیا جائے جب تک ایسا
نہیں ہوگا یہاں کوئی بھی ٹیکس ادا کرنے پر راضی نہیں ہوگا، اور زور زبردستی
سے وصولی کا فائدہ کچھ بھی نہیں ہوگا۔تعلیم کے حصول کے لئے اگر ہمارے بچے
پرائیوٹ اسکولوں میں جاتے ہیں اور سرکاری اداروں میں سہولیات کے فقدان کی
وجہ سے داخل نہیں ہو سکتے ہیں تو پھر حکومت کو ہم سے ٹیکس بھی نہیں لینے
چاہیں، کیونکہ جب وہ سہولیات فراہم کرنے سے قاصر ہے تو پھر غریب دو وقت کی
روٹی کمانے والوں سے لقمہ نہ چھینے، اگر وہ اپنی کمائی ہی ٹیکس ادا کرنے
میں لگا دیں تو پھر کھائیں گے کہاں سے؟ اس لئے حکومت کو اپنی جانب سے بھی
سہولیات کی فراہمی ممکن بنانی چاہیے تاکہ عوام یہ سوال نہ کریں کہ ہم نے
ٹیکس کیوں ادا کرنا ہے؟
قارئین !طلب اور رسد کے قانون پر اگر گہری نظر رکھتے ہوئے اُن اشیاء پر
ٹیکس لگا دیا جائے جو کہ اصراف میں آتی ہیں تو کم سے کم وہ طبقہ جو کہ اُن
کے بغیر نہیں رہ سکتا ہے وہ ادا کرکے حاصل کرے گا اور جو اُ سکے بنا بھی جی
رہا ہے تو اُس کو اُس خاص شے کے بنا بھی جینا آجائے گااور دوسرا طبقہ سکون
سے جی لے گا۔مگر ہمارے ہاں سب کو ہی ٹیکس ادا کرنے پر مائل کئے جانے کی
ضرورت ہے تاکہ ملک کی معاشی صورت حال بہتر ہو سکے مگر اس کے لئے فوری طور
پر حکومت کو کم سے کم عوام کو سہولیات کی فراہمی ممکن بنانی چاہیے خاص کر
تعلیم اور صحت کے شعبے میں اگر سرکاری سطح پر علاج معالجہ اور تعلیم مفت نہ
سہی مگرارزاں قیمت پر بہترین کی فراہمی پرائیوٹ اسکولوں اور ہسپتالوں کے
مطابق دینی شروع کر دی جائے تو پھر عوام خود ہی ٹیکس کی جانب مائل ہو سکتی
ہے۔یہ اس لئے بھی ضروری ہے کہ یہ ٹیکس آپ کو حکومت کی جانب سے بہترین
سہولیات کی فراہمی کا ایک سبب بھی ہوگا ۔لہذا آپ جہاں بھی جو بھی کاروبار
کرتے ہیں یا اس قدر پیسہ کما لیتے ہیں جس پر ٹیکس بنتا ہے تو پھر آپ کو اس
کی ادائیگی کرنی چاہیے تاکہ آپ ایک محبت وطن شہری حقیقی معنوں میں بن سکیں
اور یہ ملک بھی معاشی لحاظ سے ایک مضبوط قوت بن سکے اس لئے یہ ٹیکس آپ کو
ادا کرنا چاہیے کہ آپ نے اس مٹی سے جنم لیا ہے اور یہ اس مٹی کا قرض ہے جو
کہ آپ کو ادا کر کے سرخرو ہونا ہے۔کوئی اداکرے یا نہ کرے اُس کی طرف نہ
دیکھیں بلکہ اپنی ذمہ داری سمجھ کر ٹیکس کوادا کریں ،یہی آپ کی سوچ ہونی
چاہیے تب ہی حقیقی تبدیلی اس ملک میں رونما ہو سکے گی۔
|