معاف کیجئے گا،آج اپنے کالم کی ابتداء مُلکی سیاست
پرچاچا اچھن کی لچھے دار اور گول مول باتوں سے کرناچاہوں گا۔ پہلے تو بتاتا
چلوں کہ چا چا اچھن مجھ سمیت ہر پاکستانی کے شعور کے کسی کھانے میں رہتے
ہیں۔ جنہیں ہم لفٹ نہیں کراتے ہیں۔ اِن کی باتوں پر دھیان نہیں دیتے ہیں۔
حالاں کہ جو یہ کہتے ہیں ۔سب سچ ہی تو ہوتا ہے۔ مگر بس اِن کا کہاہوا یہ سچ
ذرا سا لچھے دارضرور ہوتاہے۔ اِسی لئے آپ کی طرح مجھے بھی اِن کی بہت سی
باتوں پر کبھی اتفاق اور اختلاف رہتا ہے۔
اصل بات یہ ہے کہ چاچا اچھن کی لچھے دار باتیں ہوتی تو بڑی دلچسپ ہیں۔ اِن
کی باتیں پچھلے الیکشن کے بعد سے تو بہت زیادہ گول مول ہوگئیں ہیں یعنی کہ
جب سے پی ٹی آئی اور وزیراعظم عمران خان کی حکومت اقتدار میں آئی ہے۔ تب سے
چاچا اچھن کا اکثر یہ کہنا ہے کہ مُلک کے موجودہ سیاسی حالات تقاضا کرتے
ہیں کہ اَب قوم کے سامنے اپنی پسند کے لیڈروں اور سیاست دانوں کی جمہوریت
کے لبادے میں لپڑی چپڑی اور لگی لپٹی باتیں عوام الناس میں پھیلانے کے
بجائے۔ ہمیں قوم کو خوشحالی اور مُلکی ترقی کے خواب دِکھا کر دھوکہ دے کر
قوم کو لوٹ کھانے اور قرضوں اور بحرانوں اور مہنگائی و پریشانیوں کے دلدل
میں دھکیلنے والے قومی لٹیروں کے سیاہ کارناموں کو قوم سے چھپانے اور پردہ
ڈالانے کے بجائے ۔ہر حا ل میں پاکستانی قوم کے سامنے سب کچھ سچ سچ بیان
کردینا ہوگا۔ ایسا کرنا یوں بھی ضروری ہوگیاہے کہ آج قوم میں سچ جاننے کی
تڑپ پہلے سے بہت زیادہ بڑھتی جارہی ہے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ ہم قوم کو سچ
چھاپا کر اندھیرے میں رکھے رہیں۔ اور اِس چکر میں ہمارا سب کچھ ہاتھ سے نکل
جائے۔یقینا کہیں ایسا نہ ہوجائے کہ اچھے اور بُرے رہنماوں اور سیاستدانوں
کی آپس کی لڑائی جھگڑوں اور کھینچاتی کی وجہ سے جمہوریت کی چڑیاکسی اور کے
ہاتھوں قید کرلی جائے ۔پھر سب کے ماتھے پر بارہ بج جائیں گے۔ اور سِوائے
کفِ افسوس کے کسی کے ہاتھ کچھ نہیں آئے گا۔ بہر حال یہ ایک الگ بحث ہے۔
جِسے پھر کسی وقت کے لئے چھوڑے دیتا ہوں ۔
ہاں توپچھلے دِنوں کراچی میں وزیراعظم عمران خان سے تاجروں اور صنعتکاروں
نے ملاقات کی ۔ جِسے اپوزیشن اور ملاقاتی حلقے بے نتیجہ ظاہر کرکے اپنا
احتجاج جاری رکھ کر اِس میں شدت لانا چاہتے ہیں ، جب کہ وزیراعظم عمران خان
کا واضح موقف رہاکہ سابق حکمران مُلک اور قوم سے جھوٹ بول کر غداری کرتے
رہے۔ جنہوں نے اپنے دورِ اقتدار میں قوم سے کہا کچھ اور کیا کچھ۔ اَب معیشت
پرانے طریقے سے نہیں چلائی جاسکتی ہے۔ کاروبار کے لئے آسانیاں پیدا
کرناچاہتے ہیں،اِسی دوران تاجروں ، صنعتکاروں اور میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے
وزیراعظم عمران خان نے 50ہزار سے بڑی خریداری پر شناختی کارڈ کی شرط ختم
کرنے سے دوٹوک انکارکرتے ہوئے اپنے عزم کو دہرایا کہ ہرحال میں تمام لوگوں
کو ٹیکس دینا ہوگا،معیشت کی بحالی اور استحکام کے لئے تمام فریقین
ہماراساتھ دیں۔مل بیٹھ کرمسائل کا حل نکالیں گے۔ ‘‘بیشک آج محب وطن
پاکستانیوں کو جمہوریت سے زیادہ ایماندار اور اپنے کئے ہوئے وعدوں اور
دعووں پر عمل کرنے والے وزیراعظم عمران خان جیسے رہنما کی ضرورت ہے۔آج اِس
سے اِنکار نہیں کہ ہماری تباہی اور بربادی کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ ستر سال
سے ہر حکمران نے قوم کے ساتھ جھوٹ بولا ،مسندِ اقتدار کے مزے لئے ،قومی
خزانہ سے لوٹاکھایاپیااور کمر پر ہاتھ صاف کیااور چلتا بنا۔ مگر اَب ضرورت
اِس امر کی ہے کہ قوم سے سچ اور صرف سچ بولاجائے۔ اور ماضی کے جھوٹے
بہروپیوں(حکمرانوں نواز اور زرداری اور اِن کے چیلے چانٹوں) کا کیادھرا سب
قوم کے سامنے کھول کھول کر بیان کیا جائے۔تاکہ پاکستانی قوم اور دنیا کو لگ
پتہ جائے کہ نصف صدی سے زائد عرصے تک جس کسی نے بھی پاکستان پر( کسی سِول
یا آمرنے) حکمرا نی کی ہے ۔اُ س نے قوم کو جھوٹ بول کر دھوکہ دیا اور قومی
خزانے کو اپنے اللے تللے کے لئے ابا جی کی جاگیر سمجھ کر استعمال کیا اور
قوم کو اربوں کے قرضوں کے بوجھ تلے زندہ درگو کرکے اپنی آف شور کمپنیاں
بنوائیں، اقامے لئے اور بیرون ممالک کے بینکوں میں (پاکستانی قومی خزانے کو
لوٹ کر) اپنے اربوں ڈالرزجمع کروائے اورلندن ، دبئی اور امریکا سمیت دنیا
کے دیگرترقی یافتہ ممالک میں اپنی بڑی بڑی بے شمار جائیدادیں بنائیں ۔یوں
وہ سینہ تان کر مُلک اور قوم کا ستیاناس کرگیا۔اَب کڑے احتساب میں ہے۔
ہمیں یہ ماننا پڑے گا کہ پاکستان میں بدقسمتی سے کوئی شئے اپنی اصل حالت
میں نہیں ہے،دودھ سے لے کر شہد اور اِنسانوں کی خصلت وفطرت سے لے کر
انسانیت اور اِنسان کی سیاست سے لے کر جمہوریت تک سب ہی کچھ تو ملاوٹ سے
بھرپور اور اصلیت سے دور ہیں۔سرزمین پاکستان میں سِوائے چند ایک کو چھوڑ
کر(جو ’’ آ‘‘ ، ’’ف‘‘اور’’ ع‘‘ سے شروع ہوتے ہیں) کوئی بھی شعبہ مقدس نہیں
ہے ،ہمارے یہاں صرف لیڈر ہی نہیں ووٹرتک دونمبر اور کرپٹ ہیں۔ کیوں نہ ہوں
دھوکہ اور مکروفریب تو جیسے ہم پاکستانیوں میں خون کی طرح رس بس گئے ہیں۔
اَب ہم اِنہیں اور یہ ہمیں چھوڑنا بھی چاہیں۔ تو یہ ممکن ہی نہیں بلکہ
ناممکن لگتا ہے کوئی کچھ بھی کرلے۔ اَب ہم اِسی ڈگر پر قیامت تک قائم رہیں
گے۔ اِس لئے کہ ہم دھوکہ مکروفریب اور کرپشن کے عادی ہوگئے ہیں۔ اِس کی وجہ
یہ ہے کہ ہمارے دیس میں سیاست سے خدمت اور جمہوریت سے انصاف کا عنصر نکل
چکاہے۔ جب کسی مُلک و معاشرے اور تہذیب وثقافت میں دونمبری کاموں کا رجحان
پروان چڑھ جائے تو پھر اُس مُلک و معاشرے اور تہذیب وتمدن کی تباہی مقدر بن
جاتی ہے۔مگر پھر بھی پاکستانی قوم کو موجودہ پی ٹی آئی اور وزیراعظم عمران
خان کی حکومت سے اچھی اُمید رکھنی چاہئے کیوں کہ چشم فلک نے بھی دیکھ لیا
کہ اﷲ نے کس طرح گزشتہ سال جولائی میں پاکستان میں ہونے والے عام انتخابات
میں حکمرانی کی شکل میں مسندِ اقتدار پر قابض قومی لٹیروں سے اقتدار چھین
کر عمران خان کو دے ۔جن سے اقتدار کی کنجی چھینی گئی ہے وہ وزیراعظم عمران
خان کو اول روز سے ہی بلیک میل کررہے ہیں۔اِس میں کو ئی شک بھی نہیں ہے یہ
تو دنیا کو بھی نظر آرہاہے ۔اقتدار کے لالچی پی ایم ایل (ن) اور پی پی پی
والے سارے بلیک میل مل کر کسی نہ کسی بہانے اپنے لئے این آر او مانگنے کے
لئے مُلک میں انارکی پھیلانا چاہ رہے ہیں۔ حالانکہ ایسا کچھ نہیں ہوگا
۔جیسا کہ وزیراعظم عمران خان اور اِن کی حکومت سے این آر او کے شدت سے طالب
چاہتے ہیں ۔این آر او کے متلاشی اپنے بچاؤ کے لئے ہروہ حربہ آزمانا چاہتے
ہیں کہ کسی نہ کسی بہانے عمران خان سے این آر او کی صورت میں ریلیف مل
جائے۔ تو اِن کی چاندی ہوجائے۔ بھلے سے کوئی کہہ دے کہ یہ ساری لوٹی ہوئی
قومی دولت واپس کردیں اور مُلک سے خاندانوں سمیت باہر چلے جائیں مگر قوم یہ
بات اچھی طرح ذہن میں رکھے کہ وزیراعظم اِن قومی لٹیروں سے ساری لوٹی ہوئی
قومی دولت واپس بھی لیں گے اور کسی قومی مجرم کو مُلک سے باہر بھی نہیں
جانے دیں گے۔(ختم شُد)
|