دیوانے کا خواب!

'' اس کے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی'' کے مصداق قائداعظم اور لیاقت علی خان کے بعد پاکستان زوال پذیری کا شکار ہوتا گیا ۔ہر دور ہر حکومت میں ایک ہی بات سنائی دی 'پاکستان نازک دور سے گزر رہا ہے' گویا یہ قومی جملہ بن کے رہ گیا ہے اور نجانے کب تک یہ جملہ پاکستانیوں کے مقدر سے جڑا رہے گا اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ پاکستان ہمیشہ سیاسی عدم استحکام، معاشی کمزوری، لاقانونیت و بدامنی کا شکار رہا ہے نظام انصاف مفلوج ہے میرٹ، اخوت و بھائی چارہ، مساوات و آزادی سرے سے ہی لاپتہ ہیں اس کے کیا اسباب ہیں یہ ایک الگ بات ہے مگر بحیثیت مجموعی تمام سیاسی و مذہبی جماعتیں اور اب تک کی تمام حکومتیں بشمول اشراف و مقتدر حلقے اس کے زمہ دار اور مجرم ہیں کہ کسی فرد واحد نے بھی اس طرف توجہ نہیں دی۔ نتیجتاً پوری قوم زوال کا شکار ہے اس کی تین بڑی وجوہات ہیں جن میں قانون کا عدم نفاذ سرفہرست ہے دوسری وجہ نفاق باہمی ہے ، جو ہمارے منافق ہونے کی نشانی ہے۔کبھی ہم ایک قوم تھے اب قومیتوں میں تحلیل ہیں صوبائی ، لسانی اور قومیت کے تعصبات کے کیچڑ میں تو لتھڑ ہی چکے تھے ساتھ ہی مذہبی اختلافات کے شکار ہیں۔ تیسری وجہ یہ کہ ہمارے ہاں اخلاقی اقداروں کا دیوالیہ نکل چکا ہے ۔حدیث نبویؐ ہے کہ '' منافق کی تین بڑی نشانیاں ہیں جب بولے جھوٹ بولے جب وعدہ کرے تو وعدہ خلافی کرے جب امین بنایا جائے تو خیانت کرے'' ایک اور حدیث میں ہے کہ ''اگر جھگڑا ہوجائے تو فوراً آپے سے باہر ہوجائے'' ان چاروں نشانیوں کے حوالے سے ہمارے معاشرے کو دیکھیں جو جتنے بڑے مقام پہ ہے اتنا ہی بڑا جھوٹا اسی قدر بڑا وعدہ خلاف اتنے ہی درجے کا خائن ہے لوگ اربوں کھربوں ہڑپ کرگئے کوئی شرمندگی نہیں ہماری بیوروکریسی اور سیاستدانوں نے ملک کو لوٹ لوٹ کر تباہی کے دہانے پر لا کھڑا کیا ہے اور ڈھٹائی سے ٹی وی پہ بیٹھ کر کہتے ہیں ہمارے خلاف ثبوت پیش کرو جبکہ اصول یہ بنتا ہے کہ انہوں نے جواب دینا ہے کہ اتنا مال کیسے بنایا اور اگر سوال کرلیا جائے تو کہتے ہیں سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا جارہا ہے، جمہوریت ڈی ریل ہو رہی ہے۔ لڑائی جھگڑے قانون کو ہاتھ میں لینا طاقت کے نشے میں قانون سے کھیلواڑ روزمرہ کا معمول ہے اس وقت دنیا کا یہ واحد معاشرہ ہے جہاں انسانی جان کی قیمت مکھی یا مچھر کی جان سے زیادہ نہیں ہے اگر بغور مشاہدہ کیا جائے تو دوسری اور تیسری وجہ کے سرایت کرنے میں پہلی وجہ ہی بنیاد ہے۔ اگر پاکستان میں قانون کا عملی نفاذ اس کی رو کے مطابق ہوجائے تو ازخود ختم ہوجائیں عام آدمی کی عزت نفس بھی بحال ہوجائے اور ہم ایک قوم بھی بن جائیں گے۔ قانون کا نفاذ کوئی اتنا بڑا مسئلہ نہیں مگر معاملہ نیتوں کا ہے کوئی چاہتا ہی نہیں !کسی کو غرض ہی نہیں کہ قانون کی عملداری ہو۔ قدرت نے بے تحاشہ موقعے دئیے مگر کسی کو اس کی قدر و قیمت کا اندازہ نہیں یا منافقت اس عمل کے آڑے آجاتی ہے۔ مثال کے طور پر شاہ رخ جتوئی کیس کو لیجئے طاقت کے نشے میں سرعام ایک معصوم نوجوان شاہ ذیب کو قتل کرددیا جاتا ہے، جس پر پوری قوم ایک طرف ہوگئی مگر عدلیہ قوم سے کھیلتی رہی اور Justice Delayed Justice Denied کے تحت کیس کو طول دیا جاتا رہا۔ اگر اس وقت فوری طور پر قاتل کو پھانسی دے دی جاتی تو یقین کیجئے امیرزادوں کا دولت کا نشہ ہمیشہ کے لیے معدوم ہوجاتا اور جس طرح پوری قوم اٹھی تھی اسے ایک راہ مل جاتی قوت مل جاتی وہ ہمیشہ ظلم کے خلاف باہر نکلتی مگر ساری امیدیں دفن کردی گئیں ۔المیہ دیکھیں اگر کوئی پولیس والا ظلم و زیادتی یا رشوت لیتے پکڑا جاتا ہے ویڈیو تک آجاتی ہے تو زیادہ سے زیادہ سزا معطل کردیا جاتا ہے جو کچھ دن بعد بحال ہوکر آجاتا ہے اسی جگہ اگر انہیں ملازمت سے نکال دیا جائے تو کسی پولیس والے کی جرات نہ ہو وہ غلط کام کرے، الیکشن 2018 میں سندھ سے کچھ سرکاری ملازم دھاندلی کرتے رنگے ہاتھوں پکڑے گئے جنہیں وقتی طور پر معطل کردیا گیا جو بعد میں بحال ہوکر پہلے سے بھی اچھے عہدوں پر تعینات ہوئے۔اگر اس جگہ انہیں ملازمت سے برطرف کرکے حوالات کی ہوا کھلادی جاتی تو ساری زندگی کوئی سرکاری ملازم فرض سے خیانت کرنے کی جسارت نہ کرتا! لیکن کرے کون؟ عد لیہ کے پاس صرف ایک ہی چیز ہے پیشی پہ پیشی اور افسوسناک صورتحال کا اندازہ اس بات سے لگالیجئے کہ سپریم کورٹ کے جسٹس صاحب نے کچھ عرصہ قبل سندھ پبلک سروس کمیشن کا کیس سنا جس میں کنٹرولر صاحب میرٹ کے برخلاف نااہل خائن تینوں ہی خوبیوں کے مرتکب نکلے باوجود اسکے اسے نہ صرف باعزت صاف راستہ دیدیا گیا بلکہ پرانی پوسٹ جوائن کرنے دے دی سزا دینا تو رہا دیوانے کا خواب اگر ہزاروں مستحق افراد کے مستقبل تاریک بنانے اور نااہل افراد کو اداروں پہ مسلط کرنے کے جرم میں اسے نشان عبرت بنایا گیا ہوتا تو بھلا کوئی فرد کسی بااثر شخصیت سے وفاداری کرنے کی سوچتا اس کے علاوہ کچھ ممبرز حضرات بھی نااہل نکلے مگر سزا پاس ہونے والے امیدواروں کو ملی جس پہ نہ تو قہقہہ لگایا جاسکتا ہے نہ ہی رنج و غم۔ پاکستان جسے بتایا جاتا ہے کہ نازک دور سے گزر رہا ہے درحقیقت نازک دور میں دھکیلا ہوا ہے پچھلے دنوں وزیر خارجہ کا بیان تھا کہ بھارتی لابی پاکستان کو بلیک لسٹ کروانے پہ تُلی ہے اور ماضی قریب میں بھارتی لابی پاکستان پہ حاوی رہی اس کی وجہ یہ نہیں کہ وہ زیادہ قابل ہیں بس اتنی سی بات ہے کہ ایک تو وہ اپنے فرض اپنے ملک سے سچے ہیں دوسرا یہ کہ وہاں کسی کو اپنا پیارا ہونے کی وجہ سے نوازا نہیں جاتا جبکہ پاکستان میں میرٹ کا یہ حال ہے کہ بیرون ممالک میں اہم عہدوں پر بھی اقربا پروری چلتی ہے اور اندرون تو میرٹ کا کیا حال ہے وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔ فوج کے ادارے کو لے لیجئے اتنا منظم کیوں ہے اتنا طاقتور کیوں ہے کیونکہ قانون و میرٹ کا عملی نفاذ ہے اگر فوج میں بھی قانون نام کی چیز نہ ہوتی تو پاکستان کا نام و نشان نہ ہوتا۔ کیونکہ لے دیکر ایک فوج کا ادارہ ہی بچا ہے جس سے عوام کو کچھ امیدیں وابستہ رہتی ہیں یا یوں کہیے کہ پاکستان سے مخلصی میں فوج بحیثیت مجموعی کی نیتوں پہ شک نہیں کیا جاسکتا بالکل اسی طرح دیگر تمام سطحوں پر تمام اداروں میں قانون کا عملی نفاذ محض ضروری ہی نہیں بلکہ آخری آپشن ہے اور اس کے لیے اب ہمارے پاس زیادہ وقت بھی نہیں ہے ویسے حقیقتاً کرنے کو زیادہ وقت درکار بھی نہیں یہ دنوں کا کام ہے بشرطیکہ نیت صاف ہو وزیراعظم صاحب کی جماعت پچھلے پانچ سال خیبرپختونخواہ میں ریفارمز، اصلاحات کی رٹ لگاتی رہی مگر حاصل کچھ نہ ہوا اور مرکز میں آکر بھی ریفارمز لائینگے کی ہی بات وہی پرانے گھسے پٹے طریقے اور دعوے ہیں جن میں الجھ کر یہ وقت بھی گزر جائیگا پاکستان کے استحکام کے لیے آخری بات صرف قانون کا نفاذ اور فوری انصاف ہے اس کے لیے ریفارمز کی ضرورت نہیں بلکہ سزا و جزا کی ضرورت ہے میرٹ کے نفاذ کی ضرورت ہے اگر سزا کا سلسلہ شروع ہوجائے تو دنوں میں یہ ملک شیطستان سے پاکستان بن جائیگا۔
 

Inshal Rao
About the Author: Inshal Rao Read More Articles by Inshal Rao: 143 Articles with 101323 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.