دو روزہ انٹرا افغان امن کانفرنس ختم ہو گئی ہے ۔
اس کے خطے کے حالات اور سیاست پر ممکنہ اثرات کے بارے میں جائزے پیش ہونے
لگے ہیں۔ ایسی کانفرنسز سے پاکستان پر کیا اثرات ہو سکتے ہیں۔ امریکہ کیا
حاصل کر سکتا ہے۔ اس پر بحث سے پہلے اس امن کانفرنس اور اس کے پس منظر کا
جائزہ لینا ضروری ہے۔ قطر کے دارالحکومت دوحہ میں منعقدہ اس کانفرنس کی
میزبانی مشترکہ طور پر قطر اور جرمنی نے کی۔ کانفرنس کے اختتام پر ایک
مشترکہ اعلامیہ جاری کیا گیا ۔ جس میں کہا گیا کہ کانفرنس کے شرکا دوحہ میں
کانفرنس کے انعقاد کا خیر مقدم کرتے ہیں۔اعلامیے میں خاص طور پر اقوامِ
متحدہ، خطے کے ممالک، امریکا اور انٹرا افغان کانفرنس میں مذاکرات کا
اہتمام کرنے اور تنازعے کے حل کیلئے اقدامات اختیار کرنے والوں کی کوششوں
کو سراہا گیا اور اس توقع کا اظہار کیا گیا کہ افغانستان میں حقیقی قیام
امن کیلئے یہ تمام فریق مثبت کردار ادا کرتے رہیں گے۔ شرکا نے کہا کہ
مذاکرات سے افغانستان کے حال اور مستقبل کے بارے میں افہام و تفہیم پیدا
کرنے میں مدد ملی ہے اور اس سے رکاوٹیں دور کرنے اور ایک دوسرے کو سمجھنے
کا موقع میسر آیا ہے۔ لہٰذا، تمام شرکا کا اصرار تھا کہ اس طرح کے مذاکرات
کو جاری رہنا چاہئیے۔ کانفرنس میں شرکاء نے اتفاق کیا کہ اول، تمام ارکان
اس بات پر متفق ہیں کہ افغانستان میں پائیدار اور باعزت امن کا قیام تمام
افغان لوگوں کا مطالبہ ہے اور یہ تمام افغان فریقین کی شمولیت سے ہی ممکن
ہوگا۔دوم، افغانستان ایک متحد اسلامی ملک ہے اور اس میں مختلف نسلی
برادریاں، اسلامی اقتدار اعلیٰ، سماجی اور سیاسی انصاف، قومی وحدت اور
علاقائی خود مختاری موجود ہے اور تمام افغان لوگ ان کی پوری طرح قدر کرتے
ہیں۔سوم، افغانستان کی تمام تر تاریخ اور خاص طور پر گزشتہ چالیس سال کے
دوران افغان لوگوں نے اپنے مذہب، ملک اور ثقافت کا دفاع کیا ہے اور آزادی
کیلئے قربانیاں دی ہیں۔ افغانستان میں دوبارہ لڑائی کی اجازات نہیں دی جا
سکتی اور افغان معاشرے کے تمام طبقوں کے درمیان سمجھوتا انتہائی اہم اور
ناگزیر ہے۔ لہٰذا، اقوام عالم کو افغانستان کی اقدار کا پاس کرنا
چاہیے۔چہارم، چونکہ افغان قوم نے طویل عرصے سے جاری جنگ سے شدید نقصان
برداشت کیا ہے اس لئے یہ ضروری ہے کہ انٹرا افغان مذاکرات کیلئے اس بات کو
یقینی بنایا جائے کہ متحارب گروپ سرکاری اجلاسوں کے دوران ایک دوسرے کے
خلاف دھمکیوں، بدلہ لینے اور غیر مناسب الفاظ کے استعمال سے گریز کریں۔
گرفتار ہونے والے ضعیف، معذور اور بیمار افراد کو فوراً رہا کرنے کا اور
عوامی اداروں کے تحفظ کو یقینی بنانے کا مطالبہ کیا گیا۔ خاص طور پر سیاسی،
سماجی، اقتصادی، تعلیمی اور ثقافتی شعبوں میں اسلامی اقدار کو ملحوظ خاطر
رکھتے ہوئے خواتین کے حقوق کو یقینی بنانے کا بھی مطالبہ کیا گیا اور کہا
گیا کہ امیگرنٹس اور بے دخل ہونے والے افراد کی واپسی کو یقینی بنایا جائے۔
ہمسایہ ممالک سے افغانستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہ کرنے کی
درخواست کی گئی اور اقوام متحدہ، سیکورٹی کونسل، او آئی سی ، یورپین یونین
اورپاکستان یا کسی اور کا نام لئے بغیر افغانستان کے ہمسایہ ملکوں سے
استدعا کی گئی کہ وہ ماسکو اور دوحہ کانفرنس کی حمایت کریں۔
کانفرنس کی سب سے اہم بات یہ سمجھی گئی کہ افغان حکومت کے کچھ عہدیداروں نے
اپنی ذاتی حیثیت میں اس اجلاس میں شرکت کی، جن میں قومی سلامتی کے نائب
مشیر کے علاوہ نادر نادری اور متین بیگ جیسے نمایاں سیاستدان بھی شامل
تھے۔افغان ہائی پیس کونسل کے نائب سربراہ حاجی دین محمدکے مطابق کونسل کے
چار عہدیدار اور قومی سلامتی کے سابق مشیر ڈاکٹر رنگین سپانتا اور سابق
نائب وزیر خارجہ حکمت خلیل کرزئی بھی دوحہ کانفرنس میں شرکت کر رہے
ہیں۔سابق افغان صدر حامد کرزئی اس اجلاس میں شریک نہیں تھے۔ تاہم انھوں نے
اجلاس کا خیر مقدم کرتے ہوئے امید ظاہر کی کہ اس سے افغان تصفیے کے حل میں
مدد ملے گی۔ افغان صدر اشرف غنی کے ترجمان، صادق صدیقی نے وضاحت کر دی تھی
کہ افغان حکومت دوحہ کانفرنس میں شرکت نہیں کرے گی اور کوئی کرتا ہے تو وہ
افغان حکومت کی نمائندگی نہیں کرتا بلکہ نجی حیثیت میں شرکت کرے گا۔ یہ
پہلا موقع ہے کہ اجلاس میں حکومت کے نمائندوں کی شرکت پر طالبان نے اعتراض
نہیں کیا۔ اس اجلاس کے انعقاد کیلئے افغان حکومت کی بھرپور حمایتتھی۔اجلاس
میں کئی خواتین نے بھی شرکت کی۔ ان میں سے ایک خاتون مندوب عقیلہ وردک ہیں
جو خواتین کی معروف فعال کارکن ہیں۔ وہ اس وقت اسلامی ممالک کی تنظیم او
آئی سی میں افغان حکومت کی نمائندگی کر رہی ہیں۔ عقیلہ وردک کا اعتراف ہے
کہ انہیں طالبان کے رویے میں نمایاں تبدیلی نظر آئی ۔ ایک عشائیے میں
طالبان نے ان کے ساتھ بیٹھ کر گفتگو کی اور ان کی گفتگو سے یہ بھرپور تاثر
ملا کہ وہ انسانی حقوق اور خواتین کے حقوق پر یقین رکھتے ہیں۔کانفرنس میں
طالبان مندوبین خواتین کی تعلیم، ان کے کام کرنے اور وراثت کے حقوق سے
متعلق بات کرنے کیلئے بھی تیار نظر آئے۔اجلاس میں شریک مندوبین نے کہا کہ
وہ افغانستان کے آئین میں دی گئی انسانی حقوق کی ضمانت کا بھرپور دفاع کرنے
کے خواہشمند ہیں۔ بظاہر یہ بات چیت طالبان کی شرائط پر ہو رہی تھی کیونکہ
اس بات چیت میں کابل حکومت کا کوئی نمائندہ سرکاری حیثیت میں شریک نہ تھا۔
اگرچہ اجلاس میں افغان حکومت کے نمائندے اپنی ذاتی حیثیت میں شریک
تھے،تاہم، وہ ایسے تمام نکات اٹھا رہے تھے جو افغان حکومت کا کوئی نمائندہ
اپنی سرکاری حیثیت میں اٹھاتا ہے۔ پاکستان اور افغانستان کے لیے جرمنی کے
خصوصی نمائندے مارکس پوٹزل کے مطابق، ان مذاکرات میں شرکت کرنے والے ''اپنی
ذاتی اور مساوی حیثیت میں ان مذاکرات میں شاملتھے۔'' اس سے پہلے قطر میں
افغانوں کے درمیان ہونے والے مذاکرات اس وقت منسوخ ہو گئے تھے جب فریقین
میں ان مذاکرات کے شرکا کے بارے میں اتفاق رائے نہیں ہو سکا ۔ شرکا کو ان
مذاکرات میں شرکت کی دعوت قطر اور جرمنی کی طرف سے مشترکہ طور پر دی گئی
۔امریکہ کے نمائندہ خصوصی برائے افغان مفاہمت زلمے خلیل زاد نے افغانوں کے
درمیان 7 اور 8 جولائی کوہونے والے مذاکرت کی میزبانی کرنے پر قطر اور
جرمنی کا شکریہ ادا کیا ۔خلیل زاد نے اپنے ایک ٹوئٹ میں کہا کہ یہ مذاکرات
چار حصوں پر مشتمل امن عمل فریم ورک کا ایک اہم اور ضروری جزو ہیں اوریہ
افغان امن عمل میں پیش رفت کی طرف اہم اقدام ہو گا۔
افغانوں کے درمیان مذاکرات کا اعلان ایک ایسے وقت سامنے آیا تھا جب زلمے
خلیل زاد اور طالبان کے درمیان بات چیت کا ساتواں دور قطر کے دارالحکومت
دوحہ میں جاری تھا۔افغانستان کے سیاستدانوں، سول سوسائٹی اور صحافیوں کی
طالبان نمائندوں سے ملاقات کے لیے قطر اور جرمنی کی مشترکہ میزبانی میں دو
روزہ بین الافغان کانفرنس دوحہ میں ہونا ایک اہم پیش رفت ہے۔ طالبان ترجمان
سہیل شاہیننے کہا تھا کہ کانفرنس میں جنگ بندی پر بھی بات چیت کی جائے
گی۔تا ہم جنگ بندی سے متعلق مشترکہ اعلامیہ خاموش ہے۔ کانفرنس کا مقصد
افغانستان کے مختلف طبقوں کو طالبان سے ملاقات کا موقع دے کر افغان تصفیے
کا حل تلاش کرنا تھا۔بین الافغان اجلاس میں افغانستان سے 50 مندوبین شریک
تھے جن میں سیاستدان، سول سوسائٹی اور معتبر صحافیوں سمیت پہلی بار خواتین
بھی شاملتھیں۔طالبان ترجمان بتا رہے تھے کہ امریکہ کے ساتھ مذاکرات میں 80
فیصد پیش رفت ہو چکی ہے۔ بین الافغان کانفرنس میں مختلف امور پر تبادلہ
خیال ہوا جس میں جنگ بندی بھی شامل ہے۔ امریکہ کے ساتھ مذاکرات میں بعض حل
طلب معاملات پر گفتگو ہونا باقی ہے۔طالبان افغان حکومت سے مذاکرات سے انکار
کرتے رہے ہیں۔ ان کے بقول افغان حکومت امریکہ کی کٹھ پتلی حکومت ہے۔ لہذا
فیصلہ سازی کا اختیار بھی امریکہ کے پاس ہے۔ تاہم بعد ازاں وہ انفرادی
حیثیت میں افغانستان کے مختلف سیاستدانوں اور سول سوسائٹی کے اہم اراکین سے
ملاقات کے لیے تیار ہو گئے تھے۔افغانستان میں قیام امن کے لیے امریکہ اور
طالبان کے درمیان اب تک مذاکرات کے 7 ادوار ہو چکے ہیں۔جرمنی اور قطر کے
علاوہ روس اور چین بھی افغان تنازعہ کا پرامن حل چاہنے کا موقف پیش کر چکے
ہیں۔ طالبان رہنماؤں کے ایک وفد نے حال ہی میں چین کا دورہ بھی کیا
تھا۔پاکستان نے بھی چند روز قبل مری کے پرفضا مقام بھوربھن میں ایک افغان
کانفرنس کا اہتمام کیا جسے 'لاہور پراسیس' کا نام دیا گیا ، جس میں
افغانستان کی سیاسی قیادت سمیت 57 مندوبین نے شرکت کی۔
پاکستان میں افغانستان کے سابق سفیر عمر زخیلوال کا کہنا ہے کہ بین الافغان
کانفرنس کا مقصد امریکہ اور طالبان کے درمیان جاری مذاکرات کو آگے بڑھانا
ہے۔ رواں سال اپریل میں بھی اسی نوعیت کی ایک کانفرنس کا اہتمام کیا گیا ۔
تاہم مندوبین کی تعداد کے معاملے پر اختلافات کے باعث یہ التوا کا شکار ہو
گئی تھی۔امریکہ افغان طالبان کے ساتھ ستمبر میں کسی ممکنہ سمجھوتے تک
پہنچنے کا خواہاں ہے۔ مگر فی الحال کسی جامع سمجھوتے تک پہنچنا شاید مشکل
ہوگا، کیونکہ ابھی تک افغان حکومت بھی طالبان کے ساتھ براہ راست بات چیت
میں شامل نہیں ہوئی۔گزشتہ ماہ، افغانستان کے دورے کے دوران امریکی وزیر
خارجہ مائیک پومپیونے کہہ دیا تھا کہ امریکہ کو امید ہے کہ وہ یکم ستمبر تک
افغانستان میں کسی امن سمجھوتے تک پہنچنے میں کامیاب ہو جائے گا،کیونکہ
یقیناً یہی ہمارا مشن ہے۔انہوں نے کہا کہ ہم نے حقیقی پیش رفت حاصل کی ہے،
اور ہم ایک مجوزہ مسودے کو مکمل کرنے کے قریب ہیں، جس میں طالبان کے وعدوں
کو تحریر کیا جائے گا کہ وہ اپنے افغان ہم وطنوں کے ساتھ مل کر اس بات کو
یقینی بنائیں گے کہ افغانستان دوبارہ کبھی دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہ
نہیں بنے گا۔ مگر ستمبر تک کسی جامع سمجھوتے کی توقع رکھنا غیر حقیقی
ہے۔امریکی تھنک ٹینک ’ولسن سینٹر‘ سے منسلک مائیکل کوگل مین کہتے ہیں کہ یہ
سوچنا کہ یکم ستمبر تک کوئی جامع سمجھوتہ طے پا جائے گا، بہت ہی غیر حقیقی
ہے۔ جنگ بندی اور سیاسی تصفیے کے حوالے سے یکم ستمبر تک ایک بھرپور معاہدہ
طے کرنے کیلئے شاید چھوٹا سا معجزہ چاہئیے۔ طالبان کے ساتھ امریکی افواج کے
انخلا پر بہرحال معاملات طے ہو سکتے ہیں۔ امریکی وزیر خارجہ نے کابل میں یہ
بھی کہا تھا کہ امریکہ نے طالبان پر واضح کر دیا ہے کہ امریکہ افغانستان سے
اپنی فوجیں ہٹانے کیلئے تیار ہے۔ لیکن اس کے لئے کسی معینہ مدت یا وقت سے
اتفاق نہیں کرتا۔لیکن خصوصی ایلچی خلیل زاد اس سے اتفاق نہیں کرتے۔ وہ
چاہتے ہیں کہ طالبان کسی حتمی معاہدے پر پہنچنے سے پہلے افغان حکومت کے
ساتھ بات چیت کریں۔ ستمبر تک معاہدہ حاصل کرنے کے پیچھے امریکہ کی مقامی
سیاست کا بھی دخل ہے۔ وزیر خارجہ پومپیو کی جانب سے ستمبر سے پہلے سمجھوتہ
طے کرنے کے پیچھے بہت سے سفارتی معاملات بھی ہیں، جن میں امریکہ کو ناکامی
ہوئی، جن میں سر فہرست شمالی کوریا اور ایران کے معاملات شامل ہیں۔ اس کے
علاوہ سن 2020 کی صدارتی انتخاب بھی اس کا حصہ ہیں۔ شاید طالبان کیلئے
مواقع ختم ہوتے جا رہے ہیں۔ اگر امریکہ، ایران کے ساتھ جنگ کرنا چاہتا ہے
تو وہ طالبان کو مزید رعایتیں دے گا۔ لیکن، اگر امریکہ کا ایسا کوئی ارادہ
نہ ہوا تو پھر طالبان کا وزن کم ہوتا جائے گا۔حالات بتا رہے ہیں کہ امریکہ
کشیدگی کے اس دور میں ایران کے ساتھ جنگ نہیں کر سکتا۔ افغانستان امن عمل
میں پاکستان کی وابستگی لازمی ہے۔ پاکستان کو طالبان سے باہر اور موجودہ
انتظامی سیٹ اپ میں اپنے اتحادی تلاش کرنا ہیں۔ جب کہ پاکستان دشمن ممالک
کو ااسلام آباد کے مفادات کو نقصان پہنچانے سے ہر صورت میں باز رکھنا ہے۔
گو کہ عمران خان حکومت اندرونی حالات میں جھکڑی ہوئی ہے۔ مگر اسے خارجہ
پالیسی کی بے باکی اور عالمی اور علاقائی ماحول کع سمجھتے ہوئے افغانستان
سے کنارہ کشی یا اسے دوسروں کے رحم و کرم پر چھوڑننے کا خطرہ مول لینے کی
تحریک کرنے والے عناصر اور عوامل سے باہر نکلنا ہے۔
|