امریکہ کے ایک سینئر فوجی جنرل جوزف ڈنفرڈ کے مطابق
امریکہ خلیج فارس میں ایک بین الاقوامی فوجی اتحاد قائم کرنا چاہتا ہے۔
جنرل ڈنفرڈ کا کہنا ہے کہ فی الحال امریکہ کی ایسے کافی ممالک سے بات چیت
چل رہی ہے جو اس منصوبے کی حمایت کرنے پر آمادہ ہیں۔جنرل کے مطابق امریکہ
اس خطے میں اپنے ’’ کمانڈ اینڈ کنٹرول ‘‘ سسٹم کو مضبوط کرنے کے لیے بحری
جہاز مہیا کرے گا اور اتحاد میں شامل دوسرے ممالک بھی جنگی ساز و سامان
مہیا کریں گے ۔امریکہ کو خلیج میں اپنا فوجی اتحاد قائم کرنے کی ضرورت کیوں
پڑی ؟ اس حوالے سے جنرل جوزف ڈنفرڈ کا کہنا تھا کہ وہ خلیجی خطے میں تجارتی
گزر گاہوں کی آزادی کو یقینی بنانا چاہتے ہیں ۔لیکن اگر حقیقت میں دیکھا
جائے تو کھیل کچھ اور جاری ہے اور اس کھیل کو سمجھنے کے لیے ہمیں امریکہ کی
خلیج میں پچھلے چند ماہ کی سرگرمیوں کا جائزہ لینا ہوگا ۔
مارچ 2019ء کے آخری عشرہ میں امریکہ نے عمان سے ایک معاہدے کے تحت عمان کی
بندرگاہیں اوراہم ایئر پورٹ استعمال میں لے لیے۔جواز یہ پیش کیا گیا کہ
ایران نے خلیج فارس کو بند کرنے کی دھمکی دی تھی ۔اس کے بعد مئی کے پہلے
عشرے میں دفاعی میزائل سسٹم پیٹریاٹ اور سٹرائیک گروپس سے لیس امریکی بحری
بیڑے اور B-52طیارے بھی خلیج پہنچ گئے ۔ 2مئی 2019ء کو امریکی صدر ٹرمپ نے
ایرانی تیل خریدنے والے ملکوں کے لیے پابندیوں سے استثنیٰ ختم کرنے کا
اعلان کر دیا۔12مئی 2019ء کو متحدہ عرب امارات کے ساحل کے قریب 4تیل بردار
بحری جہازوں پر حملے کا ایک واقعہ پیش آیا ۔ امریکہ نے ایران کو ان حملوں
کا ذمہ دار ٹھہرایا جبکہ ایران نے ان الزامات کی تردید کی۔ٹھیک ایک ماہ بعد
(13جون کو)پھر 2تیل بردار بحری جہازوں پر حملہ ہوا ۔ امریکہ نے ایک بار پھر
ایران پر حملے کا الزام عائد کیا جبکہ ایران نے حسب سابق تردید کی۔ 17جون
کو ایران نے دھمکی دی کہ اگر ایرانی تیل کی فروخت پر پابندیاں اُٹھائی نہ
گئیں تو وہ جوہری معاہدے کو توڑتے ہوئے افزودہ یورینیم کے ذخیرے کی حد عبور
کرلے گا۔دوسرے الفاظ میں یہ ایٹمی قوت بننے کی دھمکی تھی جو کہ ظاہر ہے عرب
ممالک کو مرعوب کرنے کے لیے تھی ۔اسی بات کو مزید تقویت دینے کے لیے 3دن
بعد ہی یعنی 20جون کو ایرانی میڈیا نے امریکی ڈرون گرامارنے کا شور مچا دیا
۔جواب میں امریکی صدر ٹرمپ نے ٹویٹر پر پیغام دیا کہ ایران نے امریکی ڈرون
گرا کر بہت بڑی غلطی کی ہے اور اس کا ایران کو خمیازہ بھگتنا ہو گا ۔عالمی
میڈیا نے اس کے بعد بہت شور مچایا کہ امریکہ نے ایران کے خلاف جوابی فضائی
کارروائی کی منصوبہ بندی کر لی ہے ۔ کارروائی تو اب تک نہیں ہوئی لیکن اب
امریکہ نے خلیج میں فوجی اتحاد قائم کرنے کا یہ اعلان کر دیا ہے اور وجہ یہ
بتائی ہے کہ خلیج کی تجارتی گزرگاہوں کو ایران سے خطرہ ہے ۔سوال یہ پیدا
ہوتاہے کہ کیا ایران کے لیے صرف امریکہ اکیلا کافی نہیں ہے ؟ پھر فوجی
اتحاد کیوں؟
اس وقت عالمی طاقت کا مرکز دو طرح کے ہاتھوں میں ہے ۔ایک وہ ہیں جو امریکہ
کی عالمی بالاد ستی کو ہمیشہ کے لیے قائم رکھنے کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں
۔ان میں ری پبلکن پارٹی اور نیوکانز کے کچھ نمائندے شامل ہیں ۔ جیسا کہ جان
بولٹن ، ڈونلڈ رمز فیلڈ اور جان مکین وغیرہ ۔یہ ایسے لوگ ہیں جو امریکہ کی
سپر میسی کو قائم رکھنے کے لیے کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں۔ یہاں تک کہ اسی
نظریہ کے لوگوں نے ہی امریکہ کی سپر میسی کو منوانے کے لیے ناگا ساکی اور
ہیروشیما پر ایٹم بم گرانے کی سفارش کی تھی جس کے نتیجے میں ان دو شہروں کی
پوری انسانی آبادی کو دردناک انداز سے صفحہ ٔ ہستی سے مٹا دیا گیا ۔پھر
یہی لوگ تھے جنہوں نے عراق پر حملہ کرنے کے لیے محض ایک جھوٹ کا سہارا لیا
اور اقوام متحدہ کے منع کرنے کے باوجود عراق پر حملہ کرکے اس کے شہروں کو
ملبے کا ڈھیر بنا دیا اور عراق کی سرزمین بے گناہ مسلمان مردوں ، عورتوں
اور بچوں کا خون سے رنگین ہو گئی ۔ دوسری طرفEvangelistsہیں جن میں مائیک
پومپیو،امریکی نائب صدر مائیک پینس اور اسرائیل میں امریکی سفیرڈیوڈ
فرائڈمین جیسے لوگ شامل ہیں جو گریٹر اسرائیل کے حمایتی ہیں اور چاہتے ہیں
کہ جلد از جلد گریٹر اسرائیل کا پلان آگے بڑے اور تخت داؤد ی نصب ہو تاکہ
عیسیٰ علیہ السلام کی آمد ہو سکے ۔یہ اس پلان کے تحت گریٹر اسرائیل کا
راستہ ہموار کر رہے ہیں ۔
ان دونوں ہاتھوں نے مل کر 1996ء میں ’’ نیوامریکن سنچری ‘‘ کا پلان ایسے
حالات میں بنایا تھا جب سوویت یونین ٹوٹ کر بکھر گیا تھا اوردنیا بائی پولر
سے یونی پولر ہو چکی تھی ۔لہٰذا نیو امریکن سنچری پلان میں یہ دونوں اہداف
شامل تھے ۔ یعنی امریکہ کو سپریم پاور کی حیثیت سے اگلی صدی میں داخل کرنا
اور ساتھ ساتھ گریٹر اسرائیل کا راستہ بھی ہموار کرنا۔ اسی پلان کے تحت
نائن الیون کا ڈرامہ رچایا گیا اور اس کو بنیاد بنا کر بیک وقت دو طرح کی
جنگوں کا آغاز کر دیا گیا ۔ ایک تو روایتی عسکری جنگ تھی جس کے ذریعے براہ
راست حملہ کرکے عراق ، الجزائر اور افغانستان کو عسکری طور پر زیر کر لیا
گیا ۔ جبکہ دوسری طرف ایک بالکل نئی قسم کی جنگ پوری دنیا میں شروع کی گئی
اور وہ تھی فورتھ اینڈ ففتھ جنریشن وار فیئر اور اس کا نشانہ پوری دنیا میں
اسلام ، مسلمان اور بعض مسلم حکمران تھے ۔ اسی وار فیئر کے ذریعے عرب دنیا
میں’’ عرب اسپرنگ ‘‘کا آغاز کیا گیا جس کی بنیاد پر مصر ،تیونس ، لیبیا
اور شام کو زیر کر لیا گیا ۔اس طرح جہاں نیوامریکن سنچری پلان آگے بڑھا
وہاں اسی کے زیر سایہ گریٹر اسرائیل کا پلان بھی آگے بڑھا ۔اسی جنگ کا
آغاز پاکستان میں بھی کیا گیا اور مشرف جیسے حکمرانوں نے آگے بڑھ کر
عالمی قوتوں کا اس جنگ میں ساتھ دیا اور ایران نے بھی دونوں طرح کی جنگوں
میں کھل کر عالمی قوتوں کا ساتھ دیا ۔جس کی واضح مثال بھارتی نیوی آفیسر
کلبھوشن یادیو کاایرانی پاسپورٹ کے ہمراہ رنگے ہاتھوں پکڑے جانا ہے
۔پاکستان چونکہ ایک ایٹمی طاقت ہے لہٰذا اسے افغانستان اور عراق کی طرح
براہ راست عسکری مداخلت سے نہیں کچلا جا سکتا تھا لہٰذا اس کے خلاف بیک وقت
تین جنگی ڈاکٹرائنز کا آغاز کیا گیا ۔(1) کولڈ سٹارٹ ڈاکٹرائین (Cold
Start doctrine) جس میں پاکستان کو دولخت کرنے کا منصوبہ بنایا
گیا۔(2)امریکن ایف پیک ڈاکٹرائن ( Amrican Afpak Doctrine) جو امریکی
ایڈمنسٹریشن کی پاکستان کے خلاف جنگی حکمت عملی ہے جس کے تحت افغان جنگ کو
بتدریج پاکستان کے اندر لے جاکر پاکستان میں خانہ جنگی کی صورتحال پیدا
کرنا مصود تھا۔اس ڈاکٹرائن میں امریکہ اور انڈیا کا آپس میں آپریشنل اتحاد
ہے اور اسرائیل کی تکنیکی مدد حاصل ہے ۔ اس کے لیے مشرف اور زرداری دور میں
امریکیوں پر ویزوں کی بارش کی گئی جس کی وجہ سے بلیک واٹر سمیت دنیا بھر کی
دہشت گرد تنظیموں اور ایجنسیوں کو پاکستان میں دہشت گردی پھیلانے کا موقع
ملا۔انہوں نے ایک طرف پاکستان میں شیعہ سنی فسادات کروانے کی پوری کوشش کی
اور دوسری طرف شمالی علاقوں میں TTP، کراچی میں ایم کیو ایم اور بلوچستان
میں BLAجیسے دہشت گرد گروہوں کو اُٹھایا گیا ۔دہشت گردی کے خلاف پاک فوج کے
آپریشنز سے دہشت گردی کا تو صفایا ہو گیا تاہم عوام کو بھی مصائب کا سامنا
کرنا پڑا ، خاص طور پر ڈرون حملوں میں بے گناہ لوگ مارے گئے ۔ اسی چیز کو
exploitکرتے ہوئے عالمی ایجنسیوں نے وہاں PTMجیسی تنظیم کھڑی کر دی جس کے
حوالے سے یہ ثابت ہو چکا ہے کہ اس کو تمام تر فنڈنگ پاکستان مخالف قوتوں کی
طرف سے آرہی ہے ۔ گذشتہ دنوں ان کی پاک فوج سے جھڑپ بھی ہوئی جس میں دونوں
طرف جانی نقصان ہوا اور پی ٹی ایم کے دو راہنما بھی گرفتا ہو چکے ہیں ۔اس
ڈاکٹرائن کی خالق قوتیں اب اس صورتحال کو خانہ جنگی میں بدلناچاہتی تھیں
اور اس میں تیسری (3)ڈاکٹرائن کا بھر پور استعمال کیا جا رہا تھا اور وہ ہے
ففتھ جنریشن وار فیئر ۔ یہ بنیادی طور پر ڈس انفارمیشن کی جنگ ہوتی ہے جس
میں کسی ملک کا میڈیا خریدا جاتاہے اور اس کے ذریعے علاقائی ، لسانی اور
مسلکی تعصبات کو ہوا دی جاتی ہے اور خاص طور پر کسی ایک گروہ کو حکومت اور
فوج کے خلاف کھڑا کیا جاتاہے ۔ پاکستان میں اس حوالے سے پی ٹی ایم کوکو فوج
کے مد مقابل لا کھڑا کیا گیا ۔ ایک طرف ہزاروں جعلی آئی ڈیز اور میڈیا
ٹولز کو پشتون اور پاک فوج کے درمیان نفرت کو بڑھانے کے لیے استعمال کیا
جارہا ہے اور دوسری طرف جب اور جہاں بھی موقع ملتا ہے اس نفرت کو مزید ہوا
دی جاتی ہے ۔ جیسا کہ پاک افغان کرکٹ میچ کے دوران آپ نے دیکھا کہ اس نفرت
کو بڑھانے کے لیے کیا کیا حربے استعمال کیے گے ۔
نیوامریکن سنچری پلان کے تحت چین کا بھی اقتصادی گھیراؤ کیا جا رہا تھا
اور اس کے لیے بھارت کو بھی ساتھ ملا لیا گیا تھا ۔سب کچھ نئی صدی کے پلان
کے تحت چل رہا تھا کہ دنیا میں کچھ ایسی تبدیلیاں رونما ہونا شروع ہوگئیں
جو طاقت کے عالمی مرکز کی توقعات سے بالکل برعکس تھیں اور وہ تبدیلیاں تھیں
روس اور چین کا نہ صرف اقتصادی طور پر مضبوط ہو جانا بلکہ اسٹریٹجک لحاظ سے
ان کے باہمی گٹھ جوڑ میں پاکستان کی شمولیت سے ایک مضبوط مدمقابل بلاک کا
وجود میں آجانا۔اس کے ساتھ ہی جب چین نے سی پیک اورBRIجیسے بین الاقوامی
اقتصادی منصوبے بھی شروع کر دیے تو اس کا واضح مطلب تھا کہ یہ اقتصادی
منصوبے اس بلاک کو مزید طاقتور بنائیں گے اور امریکہ کی اس خطے میں
بالادستی بھی خطرے میں پڑ جائے گی ۔جبکہ یہ نہ تو نیوامریکن سنچری پلان کے
مفاد تھا ، نہ امریکہ کی چائنہ گھیراو پالیسی کے مفاد میں تھا ، نہ پاکستان
کے خلاف امریکہ کی ’’ ایف پیک ڈاکٹرائن کے مفاد میں تھا ،نہ بھارت کی کولڈ
سٹارٹ ڈاکٹرئن کے مفاد میں تھا اور نہ ہی گریٹر اسرائیل پلان کے مفاد میں
تھا ۔ لہٰذا امریکہ اپنے اور اپنے اتحادیوں کے ان مفادات کے تحفظ کے لیے
ایران کا بہانہ بناکر خلیج میں آ پہنچا ۔کیونکہ یہی وہ خطہ ہے جو چین ،
روس اور پاکستان کے اقتصادی منصوبوں اور اسٹریٹجک نقطہ ٔ نظر سے مرکزی
اہمیت کا حامل ہے ۔لیکن شنگھائی تعاون تنظیم کے حالیہ اجلاس میںجس طرح
بھارت اور امریکہ کو سخت پیغام دیا گیا ہے اس سے ظا ہر یہ ہوتاہے چائنہ ،
روس اور پاکستان پر مشتمل بلاک امریکہ کی خلیج میں آمد سے مرعوب ہونے کی
بجائے اس کی سپرمیسی کو چیلنج کر رہا ہے ۔گویا یہ نیو امریکن سنچری پلان کو
ہی چیلنج کرنے کے مترادف ہے۔ لہٰذا طاقت کے عالمی مرکز پر قابض دونوں گروہ
جن کے مفادات نیوامریکن سنچری پلان سے جڑے ہیں انہیں خلیج میں جدید ترین
اور طاقتور فوجی اتحاد کی ضرورت پیش آئی تاکہ ایک طرف امریکہ کی سپرمیسی
کو درپیش چیلنج سے نمٹا جا سکے اور دوسری طرف گریٹراسرائیل کے قیام کے
آخری مراحل کو پایہ ٔ تکمیل تک پہنچایا جا سکے ۔ وہ گروہ جو اسرائیل کو
جلد از جلد گریٹر اسرائیل کی صورت میں دیکھنا چاہتا ہے وہ اس جانب تیزی سے
پیش رفت بھی کر رہا ہے ۔ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ اسرائیل سے زیادہ وائٹ
ہاؤس کو گریٹر اسرائیل کی جلدی ہے ۔اس سلسلے میں بیت المقدس کو اسرائیلی
دارالحکومت تسلیم کرنے، امریکی سفارت خانے کی القدس منتقلی، وادی گولان کو
صہیونی ریاست کا حصہ قرار دینے، غرب اردن کو اسرائیل میں ضم کرنے اور اب
بیت المقدس میں ایک سرنگ کھود کریہودیوں کو مسجد اقصیٰ تک رسائی دینے میں
امریکی سفیر ڈیوڈ فریڈ مین سب سے آگے آگے ہیں ۔مقامات مقدسہ کی حفاظت
کرنے والے ایک فلسطینی ادارے اقصیٰ فائوندیشن کے مطابق اسرائیلی افواج روز
بروزان سرنگوں کی تعداد میں اضافہ کررہی ہے جو مسجد اقصیٰ کی بنیادوں کے
نیچے آثار قدیمہ کی تلاشی کے بہانے کھودی جارہی ہیں۔ ان سرنگوں اور
کھدائیوں کا مقصد مسجد اقصیٰ کو منہدم کرنا اور اس کی جگہ پر نام نہادہیکل
سلیمانی کی تعمیر ہے۔اس سے ظاہر ہوتاہے کہ اب گریٹر اسرائیل کے ان معماروں
کو فائنل مراحل درپیش ہیں اور ان میں سے ایک اہم مرحلہ اسرائیل کی سرحدوں
کو پھیلانا بھی ہے جس کے لیے اسرائیلی افواج لبنان کی سرحد پر بھی خفیہ
سرنگوں کے جال بچھا چکی ہے۔
اب نیو امریکن سنچری پلان کے مطابق خلیج میں جنگ کی ایک چنگاری بھڑکانے کی
ضرورت ہے ۔جس سے ایک طرف یہ علاقہ جنگ زدہ ہوجانے کی وجہ سے چائنہ، روس اور
پاکستان کے اقتصادی مفادات پر ضرب پڑے گی جس سے امریکہ کی سپرمیسی کو لاحق
خطرات ٹل جائیں گے کیونکہ موجودہ دور میں اقتصادی ترقی کی سٹریٹجک پاور کی
اصل بنیاد ہے ۔ دوسری طرف اسی جنگ زدہ ماحول میں اسرائیل کو اپنی سرحدیں
پھیلانے میں آسانی رہے گی ۔امریکہ کا جدید ترین دفاعی سسٹم اور سٹرائکس
گروپس سے لیس بحری بیڑوں کے ہمراہ آنا ظاہر کرتاہے کہ وہ جنگ کی نیت سے ہی
آیا ہے اور یہ جنگ دونوں طرح کی ہو گی ۔ایک طرف امریکہ نے عربوں کو کھیل
تماشے میں لگا دیا ہے ، فحش اداکارائیں ، فیسٹیول ، سینماز گھر ، ثقافتی
میلے ، ناچ گانا اور دین و شریعت سے بغاوت پر مبنی کلچر کا فروغ عرب
حکمرانوں کے لیے ترقی کا معیار بنا دیا گیا اور خودایران کا ڈراوا دکھلا کر
امریکہ ایک ایک کرکے تمام عرب ممالک کے فوجی اڈوں ، بندگاہوں ، ایئر پورٹس
اور بحری گزرگاہوں کو قبضے میں لے رہا ہے۔ عرب حکمرانوں کی ان عیاشیوں اور
سرکشیوں کے ردعمل میں وہاں ایک نئی ’’ عرب اسپرنگ‘‘ کو اُبھارا جائے گا اور
اس وار فیئر میں امریکہ کے سٹرائیک گروپس اسرائیلی سرحدوں کے پھیلنے کا
باعث ہوں گے۔ جبکہ دوسری طرف عربوں کے اہم فوجی اڈے ، ایئر پورٹس اور
بندرگاہیں عسکری جنگی حکمت عملی کے لیے استعمال ہوں گی ۔
ان حالا ت میں وزیر اعظم پاکستان کے دورہ ٔ امریکہ کا مطلب ہے کہ امریکہ
پاکستان کی طرف دوبارہ دوستی کا ہاتھ بڑھا کر اپنی سپرمیسی کو چیلنج کرنے
والے مخالف گروپ (SCO)پر اثرانداز ہونا چاہتاہے۔ ممکن ہے پاکستان کے لیے
کچھ آسانیاں بھی پیدا کی جائیں جیسا کہ دورے سے قبل ہی بلوچستان میں سرگرم
علیحدگی پسند تنظیموں کو دہشت گرد قرار دے کر ان پر پابندیاں عائد کی گئی
ہیں ۔اسی طرح کی کچھ اور امریکی نوازشات بھی شاید دیکھنے میں آئیں لیکن یہ
سب نوازشات نہ صرف پاکستان کے لیے بلکہ پوری دنیا کے امن و امان کے لیے بھی
کہیں زیادہ نقصانات باعث ثابت ہوں گی۔کیونکہ امریکہ کی دشمنی سے زیادہ
دوستی خطرناک ہوتی ہے ۔جو عرب حکمران امریکہ کی دوستی کا دم بھرتے تھے آج
ان کی قربانی کا وقت آگیا اور اس بات کی کیاضمانت ہے کہ کل اپنے مفادات کے
لیے امریکہ پاکستان کی قربانی نہیں دے گا ۔
|