بجٹ کا زور چوروں کا شور


حکومت کو اقتدار میں آئے ہوئے ابھی سال پورا بھی نہیں ہوا کہ مخالفین نے چور چور کا ڈھنڈورا پیٹنا شروع کردیا ہے ایسے میں حکومت کی جانب سے پیش کیا جانے والا بجٹ اپوزیشن کے لئےمخالفت کا سب سے بڑا ایجنڈا بن گیا ہے جسے اپوزیشن جان بوجھ کر عوام دشمن قرار دینے پر ڈٹ چکی ہے۔ جبکہ ان کہ اپنے دور میں بھی بجٹ عوام دشمن ہی تھا۔ اور پچھلی حکومت کے حکمران جس طرح نیب میں پیشیاں بگھت رہے ہیں یہ ان کی ایمانداری کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ لیکن چور مچائے شورکی پالیسی پر گامزن ہیں تبدیلی کے نعرے کے ساتھ اقتدار میں آنے والی حکومت کے پیش کئے جانےوالے بجٹ کا حجم 7.22 کھرب روپے رکھا گیا ہے۔ ترقیاتی کاموں کے لیے 1800 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں، ٹیکس وصولیوں کا ہدف 550 ارب رکھا گیا ہے۔ وفاقی بجٹ کا خسارہ 3560ارب روپے ہوگا۔حکومت آئی تو مالیاتی خسارہ 2260ارب روپے تک پہنچ گیا تھا، جاری کھاتوں کا خسارہ 20ارب ڈالر تک پہنچ گیا تھا، تجارتی خسارہ 32ارب ڈالر تک پہنچ گیا تھا، مجموعی قرضے 31ہزار ارب روپے تک پہنچ چکے تھے، تجارتی خسارہ چار ارب ڈالر کم کیا اور اب بجلی کے گردشی قرضوں میں12 ارب روپے کی کمی آئی ہے۔ بجٹ کے مطابق (آئی۔ ایم۔ایف) چھ ارب ڈالر کا قرضہ دے گا۔چین 313 اشیا کی فری درامد کرے گا جبکہ 95 منصوبے شروع کرنے کا فنڈ جاری کیا جائےگا وفاقی بجٹ میں 1150 ارب روپےرکھے گئے ہیں ۔ حکومتی اخراجات 475 ارب سے کم کر کے0 46 ارب رکھے گئے ہیں قومی ترقیاتی کاموں کے لئے 1800 ارب روپے رکھے گئے ہیں جبکہ 44 ارب روپے گندم اور چاول کی پیداوار بڑھانے کےلئے رکھے گئے ہیں سرکاری ملازمین کی پینشن میں 10فیصد اضافہ کیا گیا ہے۔ وفاقی وزراؤں کی تنخواؤں میں 10 فیصد کمی کا فیصلہ کیا گیا ہے جبکہ گریڈ 21 اور 22 کے سرکاری افسران کی تنخواہوں میں اضافہ نہیں کیا جائے گا۔ چارلاکھ سالانہ آمدن والوں کو انکم ٹیکس دینا ہوگا۔اس کے علاوہ کولڈڈرنک تیل گھی اور دیگر چیزوں پر ڈیوٹی سیل ٹیکس رکھے گئے ہیں دوسری جانب گیس اور بجلی پر اضافی چارجز لگانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔یہ وہ تمام وجوہات ہیں جس کے باعث آئندہ مالی سال عوام پر بجلی بم گرے گا۔دوسری جانب جیسے اوپر بیان کیا گیا ہے۔بجٹ کا سارا کا سارا دارومدار ٹیکس پر انحصار کیا گیا ہےاور نئے ٹیکس ہولڈر جو لاکھوں روپے روزانہ کماتے ہیں لیکن حکومت کو کوئی ٹیکس ادا نہیں کرتے۔اگر یہ نئے ٹیکس ہولڈر جس کے بارے میں حکومت نے وعدہ کیا ہے کہ یہ حکومت کی گرفت میں آجائیں گے اگر ٹیکس باقائدگی سے ادا کرے تو قومی خزانے میں واقفیت مقدار میں پیسہ جمع ہو سکتا ہےاور ہمارا ملک دوالیہ ہونے سے بچ سکتا ہے۔ لیکن مہنگائی کی سب سے بڑی وجہ ٹیکس چوروں کا ٹیکس ادا نہ کر نا ہے۔ملک کا ایک بڑا طبقہ جو کہ انڈسٹریس اور کاروباری سرگرمیوں سے تعلق رکھتا ہے ان میں سے اکثر ٹیکس ادا نہیں کرتا اور جو دیتے ہیں وہ بھی اپنے کاروباری منافع کو کم ظاہر کر کے ٹیکس کم ادا کرتے ہیں جس کہ باعث مہنگائی کا بوجھ عام عوام کو اٹھانا پڑ رہا ہے۔ حکومت نے جب ا ن کے گردگھیراتنگ کر کے ٹیکس میں اضافے کے ساتھ باقائدگی سے ٹیکس جمع کرنے کے لئے اقدامات کئے تو یہ مظبوط طبقہ حکومت کے اوپر عوام پر پر مہنگائی کا بوجھ ڈالنے کا رونہ رو رہا ہے ۔اس بجٹ کے بعد جس طرح کی مہنگائی ہوئی ہےغریب عوام کا اگزارا کرنا مشکل ہو گیا ہے۔ پیٹرول کی قیمت میں اضافے کے بعد ٹرانسپورٹر نے بھی کرایوں میں اضافہ کر دیا ہے۔اور ہر جگہ سے حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔اگر ٹیکس ہولڈرز اپنا ٹیکس باقائدگی سے ادا کرتے ہیں تو مہنگائی میں کافی قابو پایا جا سکتا ہے۔اور پاکستان کو آئیندہ کے لیے ایک خوشحال ریاست بنایا جا سکتا ہے۔ لیکن اس کےلئے سب کو اپنے اپنے حصے کی ذمہ داری ادا کرنا ہوگی ۔
" ہمیں ابھی اور محنت کرنا ہوگی مسلمان مشکل وقت میں گھبرایا نہیں کرتے"
"قائدِاعظم "

Shamoon Ansari
About the Author: Shamoon Ansari Read More Articles by Shamoon Ansari: 4 Articles with 3190 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.