یہ نواز شریف کا دوسرا دور حکومت تھا،ملک قیوم لاہور ہائی
کورٹ کے جج تھے۔نیب سے پہلے احتساب کا ادارہ ”احتساب کمیشن“کہلاتا تھا جس
کے سربراہ سیف الرحمان، آصف زرداری اور بینظیر بھٹو کے خلاف سوئس مقدمات کی
تفتیش کر رہے تھے۔ احتساب عدالتیں بینظیر بھٹو اور آصف زردای کے خلاف ایس
جی ایس کوٹیکنا مقدمے کی سماعت کر رہی تھیں۔سیف الرحمان اور جسٹس ملک قیوم
کی ایس جی ایس کوٹیکنامقدمے میں بینظیر بھٹو اور آصف زراری کے مقدمات پر
فون پر گفتگو ہوئی۔سیف الرحمان جو بعد میں مسلم لیگ(ن)کے سینیٹر بھی رہے
فون پر جج کو سزا دینے سے متعلق اس وقت کے وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف کی
ہدایات پہنچا رہے تھے۔اس گفتگو کی آڈیو لیک ہوئی تو احتساب کے عمل پر کئی
سوالات اٹھنے لگے۔آڈیو آنے کے وقت بینظیر بھٹو اور آصف زردای کی اپیل سپریم
کورٹ میں سنی جانی تھی۔ جب بینظیر بھٹو اور آصف زرداری نے اسے عدالت کے
سامنے پیش کیا تو عدالت نے آڈیو کی تفصیلات میں جانے کی بجا ئے اسے نظر
انداز کر دیا ۔بعد ازاں جب سپریم جوڈیشل کونسل نے جسٹس قیوم اور لاہور ہائی
کورٹ کے چیف جسٹس راشد عزیز کی جانب سے آڈیو کی وضاحت کے لیے کارروائی کا
آغاز کیا تو دونوں ججوں نے مستعفیٰ ہونے کو ترجیح دی۔ملک قیوم نے اس بڑے
سکینڈل سے بچنے کے بعد وکالت شروع کردی اور پرویز مشرف کے فوجی دور حکومت
میں اٹارنی جنرل کے عہدے پر بھی فائز رہے۔
اب آپ اس سے تھوڑا پیچھے جائیں۔پاکستان کے سابق چیف جسٹس نسیم حسن شاہ
سپریم کورٹ کے اس بینچ کا حصہ تھے جس نے پاکستان کے پہلے منتخب وزیر اعظم
ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی کی سزا سنائی تھی۔ اس کے علاوہ صدر غلام اسحاق
خان کی طرف سے میاں نواز شریف کی حکومت کو برطرف کر دیا گیا تو انہوں نے ہی
میاں نواز شریف کی حکومت کو عدالتی فیصلے کے ذریعے بحال کیا ۔سابق چیف جسٹس
سپریم کورٹ نسیم حسن شاہ نوازشریف کو سزا دینے والے حالیہ چیف جسٹس سپریم
کورٹ آصف سعید کھوسہ کے سسر بھی تھے ۔پاکستان پیپلز پارٹی کی قیادت اور
ذوالفقار علی بھٹو کی صاحبزادی بے نظیر بھٹو نے ان پرالزام عائد کیا کہ ججز
نے فوجی آمر ضیاالحق کے دباو ¿ میں آکر بھٹو کی پھانسی کا فیصلہ دیا۔بعد
ازاں کئی برس بعد جسٹس نسیم حسن شاہ نے جیو ٹی وی کے پروگرام ’جوابدہ‘ میں
اعتراف کیا کہ بھٹو کو پھانسی دینے کا فیصلہ دباؤ میں دیا گیا تھا۔
آپ اس سے تھوڑا اور پیچھے چلے جائیں،قیام پاکستان کے کچھ عرصہ بعد 1954ءمیں
گورنر جنرل غلام محمد نے دور غلامی کے ایکٹ 1935ءمیں دیئے گئے اختیارات کے
تحت اسمبلی برطرف کر دی ۔سپیکر اسمبلی مولوی تمیز الدین نے سند ھ ہائیکورٹ
کا دروازہ کھٹکھٹایااور گورنر جنرل کے غیر جمہوری اقدام کو چیلنج کر دیا
۔سندھ ہائیکورٹ نے اسمبلی بحال کر دی لیکن سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بنچ کے
سربراہ چیف جسٹس محمد منیر اور انکے تین ساتھیوں نے سندھ ہائیکورٹ کا فیصلہ
کالعدم قرار دیتے ہوئے گورنر جنرل کے اقدام کو درست قرار دے دیا ۔یہ فیصلہ
4-1کے تناسب سے سنایا گیا ۔اس فیصلے نے نوزائیدہ ریاست میں جمہوریت کے قیام
کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا۔جن چار ججز نے یہ فیصلہ سنایا ان میں چیف
جسٹس محمد منیر کے ہمراہ دیگر تین ججز جسٹس شریف، جسٹس محمد اکرم اور جسٹس
ایس اے رحمان شامل تھے اور جس ایک جج نے اس فیصلے سے اختلاف کیا وہ ایک
عیسائی جج جسٹس ایلون رابرٹ کارنیلئس تھے ۔ اس فیصلے کے بعد نظریہ ضرورت نے
جنم لیا جس کے تحت بعد میں آنے والے کئی آمرمستفید ہوئے۔
پھریہ افتخار محمد چودھری کی عدالتتھیجنہوں نے لاپتہ افراد کے متعدد مقدمات
سمیت سپریم کورٹ کے سامنے دو دہائیوں سے زائدعرصہ تک زیر التوا رہنے والے
اصغر خان کیس کی سماعت بھی شروع کردی۔اصغر خان نے الزام عائد کیا تھا کہ
1990 کے انتخابات میں فوج نے پاکستان پیپلز پارٹی کی شکست کو یقینی بنانے
کے لیے دھاندلی کرائی تھی۔ پیٹیشن کے مطابقخفیہ ایجنسیوںنے من پسند
سیاستدانوں کے درمیان پیسے بھی تقسیم کیے۔اس مقدمے میں کسی سیاسی رہنما نے
پیسے لینے سے متعلق تصدیق نہیں کی لیکن سابق آرمی چیف اسلم بیگ اور آئی ایس
آئی اور ایم آئی کے سابق سربراہ اسد درانی عدالت میں پیش ہوئے اور ابتدائی
سماعتوں کے بعد انہوں نے عائد کیے گئے الزامات کو درست تسلیم کرلیا۔ دونوں
جرنیلوں نے تحریری طور پر بھی اپنے اعترافی بیانات سپریم کورٹ میں جمع
کرائے۔عدالت نے مزید کارروائی کے لیے مقدمہ وفاقی تحقیقاتی ادارے ایف آئی
اے کو بھیج دیا لیکن اس پر ابھی تک کوئی پیش رفت نہ ہو سکی۔
پرویز مشر ف کے دور آمریت میںمیاں نواز شریف کے خلاف کل28مقدمات درج کیے
گئے جن میں سے 15ناکافی شواہد کی بناءپر اگلے چار سالوں میں خارج کر دیئے
گئے ،چار ریفرنس بنائے گئے جن میں ہیلی کاپٹر کیس اور اثاثے ظاہر نہ کرنے
کی بنا پر انہیں 14سال قید اوردو کروڑ روپے جرمانہ کی سزا سنائی گئی ۔میاں
نواز شریف کو کرپشن کے مقدمات میں سنائی گئی یہ واحد سزا تھی جو اٹک قلعہ
میں احتساب عدالت کے جج فرخ لطیف نے سنائی۔لیکن اس سزا میں چھ ماہ کی قید
کاٹنے کے بعد جنرل مشرف نے دسمبر 2000ءمیںسعودی اور لبنانی حکمرانوں کی
سفارش پر رہا کر دیا ۔
وقت کا کوڑاسدا اپنے ہاتھ نہیں رہتا ،یہ کبھی پلٹ کر خود پر ہی آبرستا ہے
۔اب کی بار دور بھی پاکستان مسلم لیگ (ن) کا تھا اور ملزم بھی ان کی قیادت
تھی ۔ملک کے تین بار منتخب ہونے والے وزیر اعظم میاں نواز شریف کو العزیزیہ
ریفرنس میں احتساب عدالت کے جج ارشد ملک کر طرف سے سزا سنا دی جاتی ہے ،
میاں صاحب کوٹ لکھپت جیل چلے جاتے ہیں،مریم نواز اور ان کی جماعت کے دیگر
رفقا چپ سادھ لیتے ہیں ، احتساب کا کوڑا میاں شہاز شریف سے بھی ہٹا لیا جا
تا ہے اور ن لیگ کی قیادت عملی طور پر شہباز شریف کے ہاتھ نظرآتی ہے ،
دوسری بڑی سیاسی جماعت کے شریک چیئر مین آصف علی زرداری کو بھی جعلی
اکاﺅنٹس کیس میں گرفتار کر لیا جاتا ہے ، بجٹ پیش ہوتا ہے چند روز بجٹ پاس
ہونے کے مراحل میں حکومت اور اپوزیشن کے شور شرابے کی نذر رہتا ہے ، آرمی
چیف کی طرف سے تمام اسٹیک ہولڈرز کو حکومت کے مشکل فیصلوں میں ساتھ دینے کا
کہا جا تا ہے ، اگلے ہی روز زرداری صاحب کے پروڈکشن آرڈر جاری کر دیے جا تے
ہیں، اسمبلی کا اجلاس بھی خوشگوار ماحول اختیار کر جاتا ہے ، میثاق معیشت
کی باتیں بھی سنائی دینے لگتی ہیں۔پھر اچانک مریم نواز سیاست میں جارحانہ
انداز اختیار کر لیتی ہیں،العزیزیہ ریفرنس میں نواز شریف کو سزا دینے والے
جج ارشد ملک کی مبینہ ویڈیو جاری ہوتی ہے جس میں وہ میاں صاحب کو دی گئی
سزا کو دباﺅ کا نتیجہ قرار دیتے ہیں ، حکومت اس ویڈیو کی فرانزک تحقیقات کا
عندیہ دیتی ہے لیکن ویڈیو کی حقیقت جاننے کے بعد اس کی تحقیقات کی بجائے
سارا بوجھ عدلیہ پر ڈال دیا جاتا ہے اور گزشتہ روز اسلام آبا د ہائیکورٹ کی
جانب سے جج ارشد ملک کو انکی خدمات لاہور ہائیکورٹ کے سپرد واپس کرنے کا خط
وزارت قانون کو لکھ دیا جاتا ہے یوں جج صاحب کو احسن طریقے سے سارے منظر
نامے سے ہٹاتے ہوئے عدالتی وقار کو بچا لیا جا تا ہے ۔
تاریخی حقائق کے پس منظر میں اوپر بیان کردہ حقائق کے بعد قارئین بخوبی
اندازہ لگا سکتے ہیں کہ وطن عزیز میں آئندہ کا سیاسی منظر نامہ اور نواز
شریف کا مستقبل کیا ہوسکتا ہے اور احتساب کس حد تک غیر جانبدار ہے ۔اسلام
آباد ہائیکورٹ میں نواز شریف کی سزا معطلی کی اپیل زیر سماعت ہے ، نواز
شریف کے وکلاءآئندہ سماعت میں یہ ویڈیو اور اس کے ردعمل میں جج صاحب کی
برطرفی کو بطور ثبوت پیش کرتے ہوئے نواز شریف کی سزا معطلی پر دلائل دیں گے
جس کے بعد ممکنہ طور پر نواز شریف کی سزا کو مشکوک قرار دیتے ہوئے مقدمہ
نئے سرے سے زیر سماعت لایا جاسکتا ہے اور یوں نواز شریف کو جیل سے رہائی کے
بعد بیماری یا کسی بھی بہانے سے باہر بیرون ملک بھیجا جا سکتا ہے ۔اب آپ
اسے ڈیل کہیے یا ڈھیل ، این آراور کہہ لیں یا پلی بارگین ۔آپ اسے کوئی بھی
لفظ دے لیں اگر ماضی کی طرح موجودہ احتساب بھی لاحاصل نکلتا ہے تو پاکستا ن
کے عدالتی نظا م اور احتسابی عمل کی شفافیت پر سوالیہ نشانا ت تو اٹھیں گے
دوسری طرف یہ بھی دیکھناہو گا کہ جج ارشد ملک کی طرف سے ناصر بٹ، ناصر
جنجوعہ اور مہر جیلانی جیسے عناصر جو اندرون ملک اور بیرون ملک شریف خاندان
اور جج صاحب کے درمیان رابطہ پل کا کردار ادا کر رہے تھے اور بقول جج صاحب
سعودی عرب میں عمرہ ادائیگی کے دوران حسین نواز کی طرف سے 500ملین روپے اور
بیرون ملک رہائش ، روزگار اور بچوں کو نوکریوں کی پر کشش پیشکش جیسے سنگین
نوعیت کے الزامات کی تحقیقات نہیں کی جاتی تو مریم نواز کے بیانیے ”روک سکو
تو روک لو“کو ضرور تقویت ملے گی ۔
|