کڑی سے کڑی ملا کر ایک منظر کو عکس بند کیا جاتا ہے۔ یہ
مناظر حقیقت کا روپ دھار لیں تو حالات میں بدل جاتے ہیں اور حالات سنگین
ہوں تو کہا جاتا ہے "ــــــــیہ خاموشی کسی طوفان کا پیش خیمہ لگتی ہے"
ــ۔لمحوں نے خطاء کی تھی صدیوں نے سزا پائی کے مصداق کرے کوئی اور بھرے
کوئی ۔ اگر غور کیا جائے تو ان الفاظ سے وقت کی رفاقت اور شناسائی کافی
پرانی معلوم ہوتی ہے۔ صاحب ! زیادہ پرانی بات نہیں شاید ابھی قائد کی روح
کو لحد میں چند لمحے آسودگی کے میسر بھی نہ آئے کہ ادھر تم ادھر ہم کا نعرہ
لگ گیا باپ کی قبر کی گیلی مٹی بھی ابھی خشک نہ ہوئی تھی کہ اولاد نے تیرا
میرا شروع کر دیا۔ اور ایسے میں کہیں سے دشمن ڈھونڈنے جانے کی بھلا کیا
ضرورت جب کوئی تیسرا اپناچورن بیچنے کی غرض سے آپس کی لڑائی کا فائدہ
اٹھائے اور پردھان بن کر بیٹھ جائے ۔ جی ہاں یہ ذکرِ خیر ہے اس نام نہاد
جمہوریت کا جسے کبھی آمریت تو کبھی سویلین ڈکٹیٹر شپ کی گود کی میسر آئی ۔
غرض جس کے حصے میں جتنا آیا توفیق کے مطابق اڑایا ۔ ٹاریخ کے مسخ شدہ اوراق
کو کنگھالنے سے بہتر ہے یادِ ماضی عذاب ہے یا رب چھین لے مجھ سے حافظہ
میرا۔ سلیم اﷲ سے کلیم اﷲ اور کلیم اﷲ سے سلیم اﷲ ایک باری تم ایک باری ہم
۔ لیکن پھر افق کے اس پار سے ایک تیسری روشنائی نمودار ہوتی ہے یا شاید
قدرت کو رحم آیا اور اس نے ہمارے لیے تبدیلی کا تحفہ بھیجا ۔
ہزار ہا چیلنجز اور ایک جان ۔ اس کے مطابق نیت اور کوشش شرط ہے اور پھر
کامیابی کا دارومدار اﷲ کی ذات پہ چھوڑ دو۔ ایک طرف عالمی طاقتیں اور دوسری
جانب ریاستِ پاکستان موجود ہے۔ ۱۹۷۰ ء سے لے کر ۲۰۱۸ ء تک شاید ایک گھٹی کا
اثر چلتا رہا ۔ امریکہ کی قیادت اور پاکستان کی قیادت ابھی تک تو ایک پیج
پر تھی لیکن یہ بات ذہن نشیں رہے کہ ریاستِ پاکستان اور اس کی قربانیوں کا
اس سے کوئی تعلق یا لینا دینا نہیں ہے۔ ایبٹ آباد کمیشن اور ۱۰ بلین ڈالر
کے عوض پاکستان کے ایٹمی اثاثے بیچنے کی کارستانی کے پیچھے کارفرما کوئی
لندن پلان ،ڈان لیکس کا معاملہ ہو یا سجن جندال سے ملاقات کو نیز ہر جگہ
پاستان کو ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا ۔ لیکن اس کے بر عکس ایک عوامی طاقت جس
نے پاکستان کی ڈوبتی ناؤ کو پار لگانے کا عزم ِ مصصم کیا۔ لیکن ایک بڑی
رکاوٹ معیشت اور اپوزیشن ہے۔ در پردہ عوامل بھی کار فرما ہیں۔
ایسے میں ایک جج صاحب کی ویڈیو کا طوفان بدتمیزی ، کلبھوشن کیس کا فیصلہ ہو
، وزیرِ اعظم خان کا دورہ امریکہ ہو، بلاول کی اچانک لندن یاترا اور وہ بھی
ذاتی مقاصد کے لیے اور دوسری جانب خطے کی بدلتی صورتحال اور پھر ماحول میں
ایک سنا ٹا اور غضب کی خاموشی پردے کے پیچھے اور دال میں کالا ہے بلکہ یہ
کہا جائے کہ ساری کی ساری دال ہی کالی ہے تو بے جا نہ ہو گا۔ ــ " یہ
خاموشی کسی طوفان کا پیش خیمہ لگتی ہے"۔ ڈبہ نمبر یا والیم ۱۰ کی گونج اور
اس میں چھپا طوفان اگر اپنے جوبن پر آگیا تو یہ الفاظ نوشتہ دیوار کی طرح
ہر دی شعور کی عقل پر کھل کر عیاں ہو جائیں گے ۔"لمحوں نے خطاء کی صدیوں نے
سزا پائی"۔ لیکن ہماری دعا ہے ریاستِ پاکستان اس ڈوبتی ناؤ کو بہ حفاظت
کنارے سے لگانے میں کامیاب ہو۔ اور روشن مستقبل اس کا بانہیں پہیلائے منتظر
ہو ۔آمین!
|