عمران خان نے ’’غریب مکاؤ‘‘منصوبے پر عمل کرتے ہوئے ،غریب
پر ایک اور بم گرا دیا ہے ۔روٹی 15 روپے اور نان 20روپے کر دیا ہے ۔یہ
اقدام آئی ایم ایف کے پروگرام کے تحت نہیں ہوابلکہ اس ملک سے غریب جتنی
جلدی ’’ختم ‘‘ہو گا اتنی جلدی ترقی ہو گی ،فارمولے پر عمل کیا جا رہا
ہے۔ہمارے وزیر اعظم کو شاید ان معاملات کی خبر نہیں۔کیونکہ کسی غریب ،لاچار
کی بے بسی پر عمران خان کی آنکھوں میں آنسو آجایا کرتے تھے،مگر آج غریب پر
انہی کی وزارتِ عظمٰی کے دور میں بے دریگ بم پر بم گرائے جا رہے ہیں ،کوئی
پوچھنے والا نہیں ہے ۔لیکن وہ اقتدار کے مزے لینے میں اتنے محو ہیں کہ پورے
ملک کے غریبوں کی یک زبان چیخیں بالکل سنائی نہیں دے رہیں ۔وہ بے خبر ہیں
کہ غریب کے لئے پیٹ بھرنے کے لئے ایک روٹی ہی تو تھی،جسے اس کی پہنچ سے دور
کر دیا گیا ہے ۔سیاست میں الجھی ہوئی حکومت یا اپوزیشن کو اس کی کوئی پروا
نہیں۔غریب کے گرد گھیرا تنگ کیا جا رہا ہے۔
عمران خان اور ان کی کابینہ سابق حکومتوں پر الزام تراشیاں کر کے عوام کی
ہمدردیاں حاصل کرتے رہے ہیں۔عوام کو باور کروا دیا گیا کہ عمران خان سے ان
کا بڑا ہمدرد اور مخلص اس دنیا فانی میں کوئی نہیں ہے ۔غریب لوگ دوسروں سے
ڈسے تھے ،کیا کرتے،مان گئے ۔انہیں بار بار بتایا گیا کہ سابق حکومتوں نے
قرض میں بے تحاشہ اضافہ کیا ۔10سال کی مختصر مدت میں 6ہزار ارب روپے سے
30ہزار ارب روپے تک پہنچا دیا ۔اس قرض اور سود کی ادائیگی پر دو ہزار ارب
روپے سالانہ خرچ ہو رہے ہیں ۔اس لئے ہمیں قرض کی ادائیگیاں کرنی ہیں ،اس
لئے بجلی گیس اور پیٹرول کی قیمتوں میں اضافہ کرنا پڑا اور مزید اضافہ کرنا
پڑے گا․․․۔حکومت کا کہنا تھا کہ انہوں نے عوام دوست بجٹ غریب عوام کی
امنگوں کے مطابق بنایا ہے ۔لیکن حقیقت میں ایسا نہیں ہے۔
آئی ایم ایف حکام نے دعویٰ کیا ہے کہ حکومت پاکستان نے بجٹ ہماری مشاورت سے
تیا رکیا ہے اور اسے پارلیمنٹ سے منظور کروایا ہے ۔اس کے ساتھ یہ بھی
انکشاف کیا ہے کہ حکومت نے حالیہ بجٹ میں محاصلات بڑھانے کی غرض سے 733ارب
50کروڑ روپے کے نئے ٹیکس لگائے ہیں ۔لیکن پارلیمنٹ میں بتایا گیا ہے کہ
516ارب روپے کے ٹیکس لگائے گئے ہیں ۔چیئرمین ایف بی آر شبر زیدی کا کہنا
تھا کہ حکومت نے کوئی نیا ٹیکس نہیں لگایا ،اگر لگایا ہے تو دکھایا جائے
․․!!حکومت کے اس طرح کے اقدام انہیں مشکوک بنا رہے ہیں ۔تنازیات سے بھری
ہوئی حکومت کا بس صرف غریب عوام پرچلتا ہے ۔کیونکہ اشرافیہ تو انہیں ہر
موقع پر مات دے رہی ہے ۔حالانکہ وزیر اعظم کو اندازہ ہو نا چاہیے تھا کہ
سابقہ حکومتوں کی غلطیوں کی سزا غریب عوام کو نہیں دینی۔اگر انہوں نے قرض
لیا تو غریب عوام سے پوچھ کر نہیں لیا گیا۔غریب عوام نے منی لانڈرنگ نہیں
کی بلکہ جن مجرموں نے اس رقم سے غیر ممالک میں جائیدادیں خریدیں ان کی تمام
معلومات آپ کی حکومت نے حاصل کر لی ہیں ۔جنہیں سب سے بڑا چور،ڈاکو کہتے ہیں
ان سے مال وصول کیا جائے۔غریب عوام کو نا کردہ گناہ کی سزا کیوں دی جا رہی
ہے ؟
غریب کے دسترخوان پرطرح طرح کے کھانے نہیں بلکہ روٹی سب سے بڑی نعمت ہوتی
ہے ۔جس سے وہ
اپنی جسمانی غذائی ضروریات کا بڑا حصہ حاصل کرتا ہے ۔روٹی ہو تو پیاز ،مرچ
سے لگا کر بھی پیٹ کی دوزخ کو بھر لیتا ہے ،مگر اس سے زندہ رہنے کی یہ امید
بھی حکومت نے چھین لی ہے ۔15 روپے کی روٹی نے غریب کا بجٹ دھرم بھرم کر کے
رکھ دیا ہے ۔غریب نے کوئی میگا کرپشن کی ہوتی تو اسے سزا دینا حکومت کا فرض
بنتا تھا ،مگر ناکردہ گناہ کی سزا کیوں دی جا رہی ہے؟
حکومت کا دعویٰ ہے کہ جن لوگوں نے ملک کو لوٹا ہے انہیں نہیں چھوڑا جائے
گا۔عمران خان باربار کہتے نہیں تھکتے کہ میں کوئی این آر او کسی کو نہیں
دوں گاوغیرہ ۔لیکن زمینی حقائق بتاتے ہیں کہ کچھ بھی نہیں ہو رہا ۔یہ ٹوپی
ڈرامہ چل رہا ہے ۔سکرپٹ جس جانب لے جا رہا ہے سب اسی طرف چل پڑتے ہیں ۔اگر
عمران خان اور ان کی حکومت کی نیت درست ہو جائے تو چند دنوں میں دودھ کا
دودھ اور پانی کا پانی ہو سکتا ہے ۔گنتی کے چند لوگ ہیں جنہیں چور یا ڈاکو
نامزد کیا جا رہا ہے ۔زیادہ تر کو پکڑا جا چکا ہے ۔انہیں عدالتوں کے روبرو
پیش بھی کیا جا رہا ہے ۔حکومت کا دعویٰ رہا ہے کہ ان کے پاس نا قابل تردید
شواہد موجود ہیں ،پھر کیا وجہ ہے کہ ابھی تک ان کے خلاف کوئی ٹھوس نتائج
سامنے نہیں آ سکے ۔حکومتی ترجمان میڈیا پر بلند و بانگ دعوے تو بہت کرتے
ہیں ،فائلوں کو لہرا کر میڈیا میں دکھایا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ ان
فائلوں میں شواہد بھرے پڑے ہیں ۔لیکن عدالتوں میں ایک بھی ثبوت پیش نہیں
کیا جاتا۔حکومت کا سارا زور عام آدمی پر چلتا ہے ۔اس کی زندگی اجیرن کر
رکھی ہے ۔غریب کے پاس بغاوت کے سوا کوئی چارا نہیں رہا۔آگے موت اور پیچھے
کھائی ہے ۔
اب بس بہت ہو چکا ۔حکومت غریب عوام کی طرف دیکھے ۔آئی ایم ایف کی خوشنودی
کے آگے غریب عوام کے آنسوؤِں کو نظر انداز نہ کیا جائے ۔غریب بیماری سے مر
رہا ہے ۔انہیں ہسپتالوں میں ادویات میسر نہیں ۔بازار سے لینے کی اوقات نہیں
ہے ۔کیونکہ دو سو گنا زیادہ قیمت ہونے کی وجہ سے غریب کی جیب اجازت نہیں
دیتی ۔حکومت کے پاس فنڈ تو موجود ہیں،مگر ادویات جان بوجھ کر نہیں خریدی جا
رہیں ۔جو کہ ایک بھیانک جرم ہے ۔پی ٹی آئی کی حکومت کی ذمہ داری پچھلی
حکومتوں پر نہیں ڈالی جا سکتی ۔اب حکومت کو سال ہونے کو ہے ۔اس سال کا بجٹ
بھی پاس ہو چکا ہے ۔
تبدیلی کا نعرہ لگا نے سے کام نہیں چلے گا۔سال میں کرپشن بڑھ گئی ہے ،جرائم
کی شرح میں اضافہ ہو رہا ہے ۔عوام غیر محفوظ ہے ۔کوئی مجرموں پر ہاتھ ڈالنے
والا نظر نہیں آتا۔مجرم بچیوں کو گھر کے دروازے سے اٹھا کر ان کی لاشوں کو
قریبی کھیتوں میں پھینکتے ہیں ،بچے بچیاں غیر محفوظ ہیں ۔والدین پریشان
ہیں۔انصاف میسر نہیں ہے ۔غریب کو بری طرح پیسا جا رہا ہے ۔اس کے صبر کی بھی
ایک حد ہے ۔یہ پی ٹی آئی کی حکومت ہی نہیں ،اس ملک میں ہر آنے والی حکومت
نے وطیرہ اپنایا کہ تمام مسائل کی ذمہ داری سابق حکومت پر ڈالی اور عوام پر
ظالمانہ رویہ اپنایا ،جس میں مہنگائی سرِ فہرست رہی ہے ۔لیکن پی ٹی آئی
حکومت نے حد ہی کر دی ہے ۔یہاں تو ایک تندور والا بھی اپنا کاروبار کا
تسلسل نہیں رکھ پا رہا ۔وہ تندور بند کر رہا ہے ۔آج بھی عام آدمی کو مشق
ستم بنایا جا رہا ہے ۔
سابق حکومتیں لاکھ بری سہی ،مگر ان میں ایک خوبی تھی کہ عام آدمی کے لئے
کچھ نہ کچھ کر جاتی تھی جس سے وہ اپنی دال روٹی چلا لیتا تھا۔بجلی کی قلت
کو دور کرنے کے لئے انہوں نے بہت کام کیا ،جس سے ملک میں بجلی وافر مقدار
میں پیدا ہوئی۔لیکن کارخانوں تک بجلی پہنچانے کا مناسب بندوبست نہ کیا جا
سکا۔اگر سابق حکومت نے یہ کام نہیں کیا تو موجودہ حکومت نے بھی کرنے والے
کاموں پر کوئی توجہ نہیں دی ہے ۔ان کا صرف ایک ہی فوکس ہے کہ اپوزیشن کی
قیادت کو سیاست سے باہر کرنا ہے ،دونوں بڑی سیاسی پارٹیوں کو ختم کرنا ہے
،ان پر ظلم ڈھانا، انہیں جیل میں گھر کا کھانا نہیں بلکہ جیل کا کھانا دے
کر ان سے غیر ملکی جائیدادیں اور بینگ بیلس سے بڑی رقوم وصول کرنی ہیں
۔حکومت انہیں جتنا تنگ کرنا چاہتی ہے کر لے اور وصولی کی خواہش پوری کرنے
کی کوشش کرے’’جو پوری ہونے کی کوئی امید نہیں ہے‘‘ ۔کیونکہ حکومت کسی ٹھوس
دلیل اور منطق کے بغیر ان لوگوں کو کڑی سزائیں دلوانا چاہتی ہے ،تاکہ وہ
لوگ حکومت کے راستے سے ہٹ جائیں ۔یہی وجہ ہے کہ احتساب کا عدالتی نظام شدید
حملوں کی زد میں ہے ۔لیکن غریب کی فریاد بھی سن لی جائے ۔ کیونکہ غریب کے
صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا ہے وہ احتجاج کے موڈ میں ہے ۔معاشرے میں بحرانی
کیفیت جنم لے چکی ہے ۔یہ ایسی سونامی آئے گی ،جس کا تصور نہیں ہو گا۔پھر نہ
حکومت رہے گی اور نہ ہی لوٹ کھسوٹ والے رہیں گے ۔
|