ماضی حال مستقبل کا ایک دوسرے سے بہت گہرا ربط ہے کہ
انہیں الگ نہیں کیا جاسکتا، کسی بھی قوم کے مستقبل کا دارومدار اس کے ماضی
سے جڑا ہوتا ہے، جس طرح کسی مریض کی تشخیص کے لیے مرض کی اچھی طرح ہسٹری لی
جاتی ہے بالکل اسی طرح کسی بھی قوم کی خرابیوں کو دور کرنے کے لیے اس کے
ماضی کو سامنے رکھ کر ہی زمانہ حال سے مقابلہ کرکے خرابیوں کے ازالے کی
کوشش کی جائے۔ آج کی صورتحال یہ ہے کہ پاکستان زوال کا شکار ہوتے ہوتے
ایشیا کا مریض کہلوانے کی نہج تک جا پہنچا تھا جس کے پیچھے اس کا 70 سالہ
ماضی اور ہماری اشرافیہ کا کردار رہا جو ہر سطح سے کرپشن، لاقانونیت، مفاد
پرستی، موروثیت، نام نہاد جمہوریت کے نعرے لگاکر جاگیردارانہ و سرمایہ
دارانہ آمریت کے جرم کے عین مرتکب رہے، پاکستان کے ایام گذشتہ کو مد نظر
رکھ کر ہی مرض سے چھٹکارہ پانے کے لیے زمانہ حال میں مقابلہ جاری ہے، اس
جنگ میں پاکستان کو اندرونی و بیرونی دونوں محاذ پہ بیک وقت مقابلہ کرنا پڑ
رہا ہے، ایک طرف دشمن قوتیں پاکستان کے وجود کو مریض لاعلاج بنانے کے لیے
ہر سطح پہ جا کر مختلف ہتھکنڈے استعمال کررہی ہیں تو کچھ لوگ اندرونی سطح
پر سیاسی، معاشی، انتظامی عدم استحکام پیدا کرنے کے درپے ہیں، اس صورتحال
کے پیش نظر موجودہ بجٹ میں ماضی کے خساروں کی وجوہات کا بنظر غائر جائزہ
لیکر ٹیکس کلیکشن کو ازسر نو ترتیب دیا گیا جس سے پتہ چلا کہ 90 فیصد
اشرافیہ ٹیکس ادا نہیں کرتی جن کو اس دائرے میں شامل کرنے کے لیے کچھ اصول
وضع کیے گئے جس پہ ایک طرف ٹیکس چور اشرافیہ کو بڑی تکلیف ہوئی تو دوسری
طرف پاکستان کا استحکام نہ چاہنے والوں کو ہضم نہ ہوا اور اچانک سے ان کو
غریبوں سے زبردستی کی ہمدردی جاگ اٹھی، اس کا اندازہ اس بات سے لگالیں کہ
خواہ کتنی ہی مہنگائی ہوتی رہی قرضوں کے بوجھ چڑھتے رہے کبھی نہ کسی تاجر
یونین کو احساس ہوا نہ ہی کسی سیاہ سی برادری کو فکر ہوئی مگر اب جبکہ ٹیکس
چور طبقہ شکنجے میں آرہا ہے تو مہنگائی اور غریبوں کا نام استعمال کرکے
ہڑتال کرتے پھر رہے ہیں جس کے سامنے حکومت و قوم کو سیسہ پلائی دیوار کی
طرح ڈٹ جانے ہی میں بقا ہے کیونکہ اگر آج اس بلیک میلنگ کے سامنے گھٹنے ٹیک
دئیے گئے تو مستقبل ماضی سے زیادہ بھیانک ہوگا۔ پاکستان کو بحران سے نکالنے
کے لیے موجودہ حکومت جہاں اندرونی محاذ پہ نبرد آزما ہے تو وہیں بیرونی سطح
پہ کوششیں جاری ہیں اس ضمن میں مختلف ممالک سے تعلقات استوار کیے گئے اور
دوست ممالک سے تعاون حاصل کیا گیا، اب عمران خان دورہ امریکہ پہ جارہے ہیں
اس سے پہلے تیزی سے بدلتے ورلڈ آرڈر پر نگاہ ڈالنا بھی عین ضروری ہے اس پس
منظر میں روس کے یورپ سے بڑھتے تعلقات اور پاپ فرانسس و پیوٹن ملاقات اس
بات کا عندیہ ہے کہ اب امریکہ واحد سپر پاور نہیں بلکہ چین، روس و جرمنی اس
کے مقابل قوت ہے یہ پاپ کی تیسری ملاقات تھی جسکی معلومات باہر نہ آسکیں
البتہ خیال کیا جارہا ہے کہ یہ روس یورپ بلاک کا سنگ میل ثابت ہوگی کیونکہ
اس کے فوراً بعد پیوٹن کی اٹلی کے وزیراعظم سے ملاقات جس میں امریکی
پابندیوں و دیگر امور پر گفت و شنید ہوئی جس میں روس کو خاطرخواہ کامیابی
حاصل ہوئی ہے اس سے پہلے پاپ فرانسس کی روس کے مذہبی پیشوا پیٹرآرچ کرل سے
بھی ملاقات ہوچکی ہے جس کے بارے میں گمان کیا جاتا ہے کہ وہ سابق KGB افسر
رہ چکا ہے روسی چرچ و رومن چرچ کے درمیان 1054 کے بعد یہ پہلا موقع ہے جب
تعلقات استوار ہوے ہیں، جرمنی جس کے لیے 1960 کی دہائی میں Herbert W
Armstrong نے پیشین گوئی کی تھی کہ جرمنی دوبارہ اٹھے گا اور یورپ کو لیڈ
کریگا، اس کے تحت جرمن پالیسیوں کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ
ایسا ہی ہونے والا ہے کیونکہ امریکی پابندیوں کے باوجو جرمنی کا روس کے
ساتھی معاشی تعاون و انویسٹمنٹ اور نارڈ اسٹریم پراجیکٹ امریکی مفادات کے
عین منافی ہیں، انجیلا مرکل نے 2012 میں چین کا دورہ کیا اس کے بعد سے چین
و جرمنی ایکدوسرے کے بہت قریب آتے گئے یہاں تک کہ چین کی یورپ کیساتھ 2005
میں صرف 59 بلین ڈالر کی ٹریڈ تھی جو 2015 تک 193 بلین ڈالر تک پہنچ گئی جس
کا 45 فیصد کا حصہ دار اکیلا جرمنی تھا جو اب اس سے بڑھ کر ڈبل ہوگئی اس کے
علاوہ چین نے یورپی یونین چیمبر آف کامرس کا مرکز برلن میں قائم کیا 2020
تک اپنے عروج کو پہنچ جائیگا مزید یہ کہ چین کے منصوبے ایشین انفراسٹرکچر
انویسٹمنٹ بینک کے قیام کی امریکہ نے سخت مخالفت کی اور اتحادی ممالک کو اس
سے باز رہنے کا کہا جسے بہت سے یورپی ممالک نے پس پشت ڈال دیا حتیٰ کہ
جرمنی تو اس کا چوتھا بڑا اسٹیک ہولڈر ہے، یہ تمام سرگرمیاں امریکہ کے لیے
باعث تشویش ہیں اس سے ہٹ کر لاطینی امریکہ اور یورپ کے بڑھتے ہوے تجارتی
تعلقات بالخصوص MERCOSUR Trade Bloc (ارجنٹینا، برازیل، پیراگوئے،
یوراگوئے) کے ساتھ تجارتی تعاون 2019 میگا ترین تعاون ہے جو آگے چل کر دنیا
کے معاشی حاکم ثابت ہونگے، بھارت کی مکاری یہ ہے کہ وہ چین و روس کے ساتھ
مل کر ایک نیا ایشیائی بلاک بنانے کا اعلان کرچکا ہے اور دوسری طرف امریکہ
کا بغل بچہ بھی بنا بیٹھا ہے۔ وزیراعظم کا دورہ امریکہ بہت اہم ہے اس سے
پہلے پاکستان کو تیزی سے بدلتے ورلڈ آرڈر پہ نگاہ ڈالنی چاہئیے اسی دورے کے
ساتھ وزیراعظم صاحب کو لاطینی امریکہ کے دورے بھی کرنے چاہئیں، وقت کا
تقاضہ ہے کہ جرمنی و روس کے دوروں کو ترجیح دینی چاہئے اور وہ راستے تلاش
کرنا چاہئیں جن پہ گامزن ہوکر پاکستان کو انتظامی و معاشی بحران سے نکالا
جاسکے اس ضمن میں ہر پاکستانی کا یہ فریضہ ہے کہ وہ حکومت کی حوصلہ افزائی
کرتے ہوے راہ میں رکاوٹیں ڈالنے والوں کو بے نقاب کرتے ہوے ناکام بنادیں۔
|