تھرڈ ایمپائر کا فیصلہ اور حکومتی بے بسی

خدا خدا کر کے آئی ایم ایف نے سوا تین سال کے لئے کڑی شرائط کی پوٹلی میں باندھ کر چھ ارب ڈالر قرضہ تین جولائی کو منظور کیا ہی تھا کہ ٹھیک گیارہ روز بعد سرمایہ کاری سے متعلق عالمی بینک کے ایک ثالثی ٹریبونل نے ریکوڈک تانبے کے ذخیرے کی لیز کے تنازعے کا فیصلہ پاکستان کے خلاف دے دیا۔اس فیصلے کے تحت اب پاکستان کو آسٹریلیا کی معدنیاتی کمپنی ٹیتھان کو 5.9 ارب ڈالر ہرجانہ دینا پڑے گا۔ بصورتِ دیگر ریکوڈک کے معدنی حقوق ٹیتھان کمپنی کو رہن رکھوانے پڑیں گے۔

نئی نویلی حکومت کی ہتھیلی پر آئی ایم ایف کے 6ارب ڈالر قرض کی مہندی کا رنگ ابھی اترا بھی نہ تھا کہ عالمی بنک نے پاکستان کو بدنام زمانہ ریکوڈک کیس میں اتنی ہی رقم یعنی 6ارب ڈالر مالیت ہرجانے کی چٹھی بھی تھما دی ۔نوزائیدہ حکومت نے بھی کیا قسمت پائی ہے، مشکلات ہی مشکلات ، مصائب ہی مصائب ، مسائل ہی مسائل۔حکومت کی کیفیت تو اس نئی نویلی دلہن کی مانند دکھائی دے رہی ہے جسے سسرال میںساس ،نندوں ،دیورانیوں اور جیٹھانیوں کی بے جا تنقید کا سامنا کر نا پڑتا ہے تو اسے میکے میں ملی اپنی رائے کی آزادی یاد آتی ہے ۔اب تک تو حکومت کو بخوبی ہوچکا ہے ٍ کہ تماشائیوں کے ساتھ پویلین میں بیٹھ کر کھلاڑیوں کی کارکردگی پر تنقید کرنا تو آسان ہو تا ہے لیکن میدان کے اندر کارکردگی دکھانا کس قدر مشکل ہو تا ہے اور ریکوڈک کیس میں ہونے والے حالیہ ہرجانے کے بعد یہ بھی سمجھ آگئی ہو گی کہ ایمپائر کے غلط فیصلے کس طرح ٹیم کی کارکردگی اور ہار جیت پر اثر انداز ہو سکتے ہیں ۔ریکوڈک کیس میں کس سے کہا ں غلطی ہوئی اور ٹریبونل کی تاریخ کے اس سب سے بڑے ہرجانے کا ذمہ دار کون ہے، اس کے تعین کے لیے وزیر اعظم نے انکوائر ی کمیشن کی تشکیل کا عندیہ تو دے دیا ہے جو ریکوڈک ہرجانہ کے ذمہ داران کا تعین کرے گا لیکن
”اب کیا ہوت۔۔ جب چڑیاں چگ گئیں کھیت “

موجودہ حکومت تین ماہ پہلے تک کراچی کے قریب سمندر میں تیل اور گیس کے ایک بہت بڑے گیم چینجر ذخیرے کی دریافت کی آس لگائے بیٹھی تھی۔ مگر آج ریکوڈک کا ثابت شدہ معدنی ذخیرہ بھی اس کے ہاتھ سے پھسل رہا ہے۔

خیریہ1993ءکا دور تھا ،میر نصیراللہ مینگل بلوچستا ن کے نگران وزیر اعلیٰ تھےجوکئی دہائیوں سے اسٹیبلیشمنٹ کے نور نظر تھے ۔بلوچستان ایک دفعہ پھر مرکوز نظر تھا کیونکہ ایران افغان سرحد پر واقع ضلع چاغی کے علاقہ ریکوڈک کی زمین نیچے چھپی پاکستان کی تقدیر سونے کی شکل میں ابھر کر سامنے آچکی تھی۔ریکوڈک کا شمار پاکستان میں تانبے اور سونے کے سب سے بڑے جبکہ دنیا کے چند بڑے ذخائر میں ہوتا ہے۔یہاں قدرت نے پاکستانیو ں کے لیے زیر زمین تقریباً چھ ارب ٹن تانبا اور 4کروڑ اونس سے زائد سونا چھپا رکھا ہے ۔ریکوڈک کے قریب ہی سیندک واقع ہے جہاں ایک چینی کمپنی ایک دہائی سے زیادہ عرصے سے تانبے اور سونے کے ذخائر پر کام کر رہی ہے۔ تانبے اور سونے کے دیگر ذخائر کے ساتھ ساتھ چاغی میں بڑی تعداد میں دیگر معدنیات کی دریافت کے باعث ماہرین ارضیات چاغی کو معدنیات کا ’شو کیس‘ کہتے ہیں۔ریکوڈک ذخیرہ سے استفادہ حاصل کرنے کے لیے نگران وزیراعلیٰ نے امریکی کمپنی بروکن ہلز پراپرٹیز منرلز کے ساتھ معاہدہ کیا ۔بلوچستان کے سابق سیکرٹری خزانہ محفوظ علی خان کے مضمون کے مطابق ابتداءمیں یہ معاہدہ بلوچستان ڈیویلپمنٹ کے ذریعے امریکی کمپنی کے ساتھ جوائنٹ وینچر کے طور پر کیا گیا ۔بلوچستان حکومت نے لائسنس کی فراہمی کے لیے شرط رکھی کہ کمپنی یہاں سے حاصل ہونے والی معدنیات کو ریفائن کرنے کے لیے بیرون ملک نہیں لے جائے گی۔ حکومت کی جانب سے چاغی میں ریفائنری کی شرط رکھنے کے ساتھ ساتھ بلوچستان کے حصے کو بھی بڑھانے کی شرط رکھی گئی۔چاغی ہلز ایکسپلوریشن کے نام سے اس معاہدے کے تحت 25 فیصد منافع حکومت بلوچستان کو ملنا تھا۔ اس معاہدے کی شقوں میں دستیاب رعایتوں کے تحت بی ایچ پی نے منکور کے نام سے اپنی ایک سسٹر کمپنی قائم کرکے اپنے شیئرز اس کے نام منتقل کر دیئے۔ منکور نے بعد میں اپنے شیئرزٹیتھان کوپر کمپنی (ٹی سی سی)کو فروخت کر دیئے۔2003ءمیںکمپنی کی طرف سے ذخائر پر کام شروع کر دیا گیا اور ابتدا ءمیں 130ملین ڈالرز کی سرمایہ کاری کی گئی لیکن2013ئ میں ازخود نوٹس سپیشلسٹ، سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے قواعد کی خلاف ورزی پر ٹی سی سی کے ساتھ ہونے والے معاہدے کو کالعدم قرار دے دیا۔ٹی سی سی نے فیصلے کے خلاف ورلڈ بنک کے بین الاقوامی ثالثی فورم ”انٹرنیشنل سینٹر فار سیٹلمنٹ آف انویسٹمنٹ ڈسپیوٹس (ایکسڈ) سے رجوع کیا جہاں 700صفحات کے تفصیلی فیصلے میں پاکستان کو پابند کیا گیا کہ ٹیتھان کمپنی کو 5 ارب97 کروڑ ڈالرز کا جرمانہ ادا کرنا ہوگا۔پاکستانی کرنسی میں یہ رقم 9کھرب 50ارب روپے بنتی ہے جو پاکستان کے سالانہ وفاقی بجٹ کا 1/5کے قریب بنتا ہے ۔اس سے بھی تشویش ناک امر یہ ہے کہ اس رقم کی عدم ادائیگی کی صور ت میں بیرون ملک پاکستان کے تمام سرکاری اثاثہ جات ضبط کیے جا سکتے ہیں ۔اس سے بھی بڑھ کر پریشان کن امر یہ ہے کہ ہرجانہ کی تمام رقم بلوچستان کو اداکر نا پڑے گی ۔ گزشتہ تین چار سال کے دوران بلوچستان بجٹ کے حجم کو دیکھا جائے تو یہ تقریباً بلوچستان کے تین سال کے بجٹ کے برابر ہے۔بلوچستان جیسا پسماندہ صوبہ اتنی بڑی خطیر رقم کی ادائیگی کا سوچ بھی نہیں سکتا لیکن اس کی ادائیگی کے سوا اس کے پاس کوئی چارہ بھی نہیں ہے۔

عدالتی فیصلوں کی وجہ سے پہلے ہی پاکستان کو کارکے سمیت متعدد مقدمات میں بھاری جرمانوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ پاکستان سٹیل ملز اور موبائل فون کمپنیوں سے متعلق عدالتی فیصلوں کی وجہ سے بھی ملک کو بھاری نقصان اٹھانا پڑا ہے۔ریکوڈک کیس کا فیصلہ سنانے والا بینچ تین ججوں پر مشتمل تھا جس میں سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری اب ریٹائر ہو چکے ہیں جبکہ جسٹس گلزار احمد اور جسٹس شیخ عظمت سعید اس وقت حاضر سروس ججز ہیں۔ جسٹس گلزار احمد دسمبر میں چیف جسٹس آصف سیعد کھوسہ کی ریٹائرمنٹ کے بعد پاکستان کے چیف جسٹس بن جائیں گے۔سابق چیف جسٹس کے فیصلو ںکی وجہ سے حکومت تو پریشان ہے لیکن اصل سر کھجائی تو عوام کو لگی ہوئی کہ انہیں معلوم ہے کہ پہلے آئی ایم ایف کا پیٹ بھرنے کے لیے اپنا پیٹ کاٹا تو اب افتخار چوہدری کی دبنگ منصفی کے کوڑے بھی اپنی پیٹھ پر کھانے پڑیں گے ۔
 

Sheraz Khokhar
About the Author: Sheraz Khokhar Read More Articles by Sheraz Khokhar: 23 Articles with 14416 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.