۵ جولائی پاکستان کی تاریخ کا سیاہ دن
آمریت مردہ باد، جمہوریت زندہ باد
میرے ایک دوست نے ایک فوٹو ارسال کی جس میں ایک مجرم جس نےایک بچہ کو اغوا
کرنے کے بعد بےدردی سے قتل کردیا تھا، کو بر سرعام کوڑے مارے جاتےد کھایا
گیا ہے۔ فوٹو کےاوپرعبارت تحریر ہے : ۵ جولائی پاکستان کی تاریخ کا سیاہ
دن، آمریت مردہ باد، جمہوریت زندہ باد
اس فوٹو کو بنانےوالے نے (ایک خاص سیاسی پارٹی سے تعلق کی بناٰ پر ) کافی
سارے مقاصد حاصل کرنے کے لئے اپنے خبث باطن کا اظہار کیا۔ ۱۔ مسلح افواج کے
خلاف زہر اگلا۔ ۲۔ عوام کی نظر میں فوج کی توقیر کم کرنے کی کوشش کی۔ ۳۔
خطرناک جرائم پر دی جانے والی بر سر عام سزائوں اور عوام کی بڑی تعداد میں
موجودگی کو برا عمل سمجھا ( حالا نکہ اسلام میں تاکید ہے کہ پھانسی دینے،
سنگسارکرنے اور کوڑے مارنے، ہاتھ کاٹنے کےعمل کو مسلمان دیکھیں تاکہ عبرت
پکڑیں)۔
بہرحال زیرِنظرفوتومیں ۵ جولائی۱۹۷۷ کو پاکستان کی تاریخ کا سیاہ دن اور
آمریت مردہ باد، جمہوریت زندہ باد کہا گیا ہے۔ جس ملک نے سترسال سے بھی
زیادہ عرصہ سےمجھے سب کچھ دیا، جس ادارہ نے مجھے شناخت دی اور میں پچھلے
اکیاون سال سے نمک کھا رہا ہوں اور جس دین پر چلنے میں میری اخروی نجات ہے،
میرا اخلاقی، ملی اور دینی فرض ہے اُن سب پر آنچ نہ آنے دوں۔ میں پوسٹ
آفس ہوں اور نہ ہی پوسٹ مین۔ میرا تعلق اس گروپ سےہے جس کا ہر فرد پڑھا
لکھا اور انتہائی زیرک ہے۔ ہم میں سے ہرایک تھنک ٹینک ہے۔ ہم سب فیصلہ کریں
کہ دشمنوں کی چالوں میں نہ آئیں بلکہ اپنےوقت کا بہترین استعمال
کرتےہوئےاُن کا موثر توڑ کرتے رہیں۔
ملکِ پاک کے اکثرحکمرانوں کی کرپشن، لوٹ گھوسٹ، رشوت، سفارش، اقربا پروری،
ظلم و زیادتی، کوتاہ اندیشی، ملکی اور بین الاقوامی حالات سے یکسر لا تعلقی
اور دیگر معاملات سے صرف نظر کرتے ہوئے میں نے مذکورہ پوسٹ کے تناظرمیں
مناسب سمجھا کہ قارئین کےسامنےچند حقائق رکھوں:
وہ سیاہ دن ہی تھا جب بھارتی وزیرِاعظم جواہرلال نہرو نےکہا: میں نے نےاتنی
دھوتیاں نہیں بدلیں جتنے پاکستان نے وزیرِاعظم بدلے ہیں!
وہ دن بھی سیاہ تھا جب بھارت نے ایک دو سال میں آئین بنا لیا جبکہ
پاکستانی جمہوری حکمرانوں نے۹ سال بعد یہ سعادت حاصل کی! جمہوریت زندہ باد۔
۔
وہ سیاہ دن ہی تھا جب ملک کی تقدیر کا فیصلہ ہونا تھا، پاکستان کی نمائندگی
کرنے کے لئے جانے والاجمہوری شخص (ذوالفقار بھٹو) محض ذکام کا بہانہ بنا کر
یو این او کےاہم اجلاس سے تین دن تک غیر حاضر رہا !!
دسمبر۱۹۷۱ میں پاکستان کی تاریخ کا سیاہ ترین دن تھا جب یو این او میں
پولینڈ کی قرارداد پر ملک کی تقدیر کا فیصلہ ہونا تھا۔ ملک کی نمائندگی
کرنے والےجمہوری شخص نے جان بوجھ کر قرار داد کا مسودہ پھاڑدیا۔
لیگل فریم ورک آرڈرکے تحت ۱۹۷۰ میں کرائے گئے جنرل الیکشن کے نتیجہ میں
بننے والی اسمبلی نے ۱۲۰ دنوں میں پاکستان کا آئین بنانا تھا۔ آئین
بنانےیا نہ بنانےکی صورت میں نئے الیکشن ہونے کے بعد اقتدارملنا تھا۔ حق
مجیب الرحمان کاتھا مگرجمہوریت کا دعویدار سویلین جمہوری شخص چیف مارشل لا
ایڈمنسٹریٹر کی شکل میں حکمران بن بیٹھا۔ یقینا یہ ایک بہت سیاہ دن تھا۔
جمہوریت زندہ باد!!
وہ سیاہ دن ہی تو تھے جب یہ سویلین چیف مارشل لاایڈ منسٹریٹر پہلے
صدرپاکسان کی کرسی پر براجمان ہوا اورپھروزیرِاعظم پاکستان کی کرسی پسند کر
لی! پھر بھی جمہوریت زندہ باد!
وہ دن بھی یومِ سیاہ تھاجب جمہوریت کے دعویدار وزیرِ اعظم کے دورِحکومت میں
ایوانِ صدر راولپنڈی کی دیواوں پر لکھا گیا: صدرِ پاکستان چوہدری فضل الہٰی
کورہا کرو! جمہوریت زندہ باد!
وہ دن بھی بہت سیاہ تھے جب جمہوری وزیراعظم نے ڈاکٹر نذیراحمد ، نواب محمد
خان کو قتل کروایا تاکہ جمہوریت زندہ باد کا نعرہ لگ سکے!
وہ دن بھی یومِ سیاہ تھا جب مولانا جان محمد عباسی کو رحمان ملک (اُس وقت
ڈی سی لاڑکانہ) کے ذریعہ اغوا کرایا اوریوں بھٹو صاحب بلا مقابلہ منتخب ہو
گئے۔
اُس دن کو بھی یومِ سیاہ ہی کہیں گے جب میاں طفیل محمد امیر جماعت اسلامی
کے ساتھ جیل میں ایسا سلوک کیا گیا جس کی انسانی تاریخ میں مثال نہیں ملتی،
اسےبیان کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی تحریر کیا جا سکتا ہے۔ اور میاں معراج
خالد تو ان کا اپنا آدمی تھا اسے کیوں جیل کی ہوا کھانا پڑی؟ صرف اسلئے کہ
جمہوریت زندہ باد رہے!!
وہ دن بھی یومِ سیاہ تھا جب جمہوری بھٹو کے حکم پر ارکانِ پارلیمنٹ کو مری
اور بور بن کے گیسٹ ہاوئسز میں سرکاری خرچہ پر کئی دن تک عیاشیاں کرائیں
اور انکے ضمیر کے سودے ہوئے!!
وہ دن بھی سیاہ تھا جب بھٹو کی پھانسی پر احتجاج کے لئےایک سادہ لوح عسیائی
کو
لالچ دے کراور اس یقین دہانی پر خود سوزی پر تیار کر لیا کہ اس کو بچا لیا
جائے گا۔ مگر بے چارہ جل گیا !! اُس کے بعد اس نوعیت کا کوئی اور واقعہ نہ
ہوا۔
وہ دن بھی یومِ سیاہ ہی تھا جب جمہوری وزیرِ اعظم نواز شریف نے اپنے
پیشرو(بھٹو) کی طرح چھانگا مانگا کے گیسٹ ہاوئس میں سرکاری خرچہ پر کئی دن
تک ارکانِ پارلیمنٹ کی بدترین ڈ نکی ٹریڈنگ کرکے انکے ضمیر کے سودے کئے!!
وہ دن بھی سیاہ تھا جب بینظیر کے حکم پر اعتزاز احسن خاص لسٹیں لی کر بھارت
گیا۔
وہ دن بھی یوم سیاہ تھا اور جمھوریت زندہ باد ہوئی جب جمہوری وزیرِاظم
بےنظیرنے بھارتی وزیرِآعظم راجیو گاندھی سے سندھ ھاوس میں خفیۃ ون ٹو ون
ملاقات کی اور پھر کیا ھوا، آپ کو معلوم ھے۔!
وہ دن بھی یومِ سیاہ تھا جب نوازشریف نے سود کے خلاف سپریم کورٹ کے فیصلہ
پر عمل کرنے کی بجاے اس کے خلاف رِٹ دائر کروادی، آج تک التوا میں پڑی
ہوئی ہے اور ہم من حیث القوم اللہ سبحانہا تعالٰی اور اسکےرسول سے حالتِ
جنگ میں ہیں!!
اُس سیاہ دن جمہوریت زندہ باد ہوئی جب وزیرِاعظم نواز شریف نےسپریم کورٹ پر
حملہ کرایا اور چیف جسٹس فیصلہ دینے کی بجائےجان بچانےمیں مشکل سے کامیاب
ہوئے۔
وہ بھی سیاہ دن تھے جب جمہوری وزیرِاعظم نے سوئس اکاوئنٹ میں پڑے کروڑوں
ڈالر( جو کہ کرنل قذافی نے زلزلہ زدگان کی مدد کے لئے وزیرِ اعظم ذوالفقار
بھٹو کو دیئے تھے مگراس نے سوٹزر لینڈ کے بینک میں اپنے ذاتی اکائونٹ میں
جمع کرا دیئے) کوبچانے کے لئے خط لکھنے کے بارے سپریم کورٹ کی حکم عدولی اس
لئے کی تاکہ کیس ٹائم بار ہو جائے۔ پپلز پارٹی اپنےارادہ میں کامیاب ہو
گئی۔ جمہوریت زندہ باد۔
وہ دن بھی سیاہ تھا جب نوازشریف نے کارگل سے پسپائی اختیارکی اور اعلانِ
واشنگٹن پردستخط کرکے اقرار کیا کہ لائن آف کنٹرول کی حرمت کوبرقرار رکھا
جائے گا۔
وہ دن بھی سیاہ تھا جب نوازشریف نے کشمیری عوام کے قاتل نریندر مودی کی حلف
برداری کی تقریب میں شرکت کی۔ اور پھر کشمیری لیڈر شپ سے ملاقات کی بجائے
بھارتی اداکارہ سے شام کو لمبی ملاقات کی۔
وہ دن انتہائی سیاہ تھا جب نواز شریف نے بھارت میں کہا: دونوں ملکوں کےعوام
کی عادات، معاشرت، شکل وصورت، رنگ اور خوراک ملتے ہیں صرف ایک پتلی سی لکیر
ہی دونوں کے درمیان حائل ہے۔ (میاں صاحب بھول گئے اسی لکیر کولگانے کے لئے
قربانیوں کی لمبی لسٹ ہے)۔ ہے نا جمہوریت زندہ باد !!
وہ دن بھی انتہائی سیاہ تھے جب شاتم گورنر تاثیر کے قاتل امتیاز قادری شہید
کی پھانسی کی سزا پرجلد دستخط کرنے کے لئےنواز شریف نے صدرِپاکستان کو بار
بار فون کئے۔
الیکشن اصلاحات بل۳ اکتوبر ۲۰۱۷کے نام پر عقیدہٗ ختم نبوت کے خلاف جمہوریت
نے ایک گھناونی چال چلی، پاس شدہ بل پرصدرِ اسلامی جمہوریہ پاکستان نے
آدھی رات کو دستخط کر دیئے۔ مگر بھلا ہو شیخ رشید کا حکومتی چال ناکام کر
دی۔
وہ دن بھی یومِ سیاہ تھا جب ماسکو سے واپسی پر نریندر مودی بغیرسرکاری دعوت
کے لاہورائرپورٹ پراُترےاورپاکستان کے جمہوری وزیرِآعظم نے استقبال کیا
اور پھر سیدھا جاتی عمرہ لے گئے۔ حکومتی اداروں، میڈیا اور ایجنسینوں کو
رازو نیاز کی باتوں سے دور رکھا گیا۔ جمہوریت زندہ باد۔
ڈان لیکس والا دن بھی سیاہ تھا جب مرکزی کردارکوپھانسی دینےکی بجائے قوم کو
بیوقوف بنایا گیا۔ اب ہور چوپو۔
کرپٹ اورسزایافتہ جمہوری وزیراعظم کے حامیوں نے وہ دن بھی سیاہ بنا دیا جب
احتساب عدالت اسلام آباد میں سرکاری وکیل کو دھکے مار کر کاروائی سے روک
دیا۔
وہ دن بھی یومِ سیاہ تھے جب کراچی میں دیوالی اورہولی کے تہواروں پرتقریر
کرتے ہوئے نواز شیف نے کہا : اللہ، بھگوان، ایشور، واہ گرو، خدا ، ایک ہی
ہستی کے نام ہیں۔ اور یہ کہ کاش مجھے بھی اس تہوار میں شامل ہونےکی دعوت
ملتی اور میرےاوپر بھی رنگ پھینکا جاتا۔
وہ ایام بھی یوم سیاہ ہی تھا جب سرکاری فرائض کی بجا آوری کےنتیجہ میں
لاہورایٗرپورٹ پر ایان علی کو روکنے والے کسٹم انسپکٹر کوچند دنوں کےاندرہی
قتل کردیا گیا۔
وہ ایام بھی یوم سیاہ ہیں جب ایان علی اور ڈاکٹرعاصم کو بیرونِ ملک جانے کی
اجازت دی گئی۔جی ہاں، جمہوریت زندہ باد!! ازسرور کاکڑ۔ ۱۳ جولائی
|