پاکستانی سیاست اور مہنگائی کا جن

پاکستان کی سیاست کے لیل و نہار اور شب و روز بھی خوب ہیں ۔ پل میں تولا پل میں ماشا، کوئی پتہ نہیں کس لمحہ کیا چیز رونما ہوجائے، حالات کیا سے کیا رخ اختیار کر لیں ، آخر یہ سیاست کس سمت جارہی ہے ۔ لمحہ موجود کی سیاست عمران خان کی حکومت کے خلاف جمع ہوجانے والے مخالفین کا اتحاد اور ان کی جانب سے حکومت کو گرانے کی تدبیریں جاری ہیں ، روز روز نئے نئے انکشافات، عجیب و غریب باتیں دیکھ دیکھ کر ، سن سن کر اور پڑھ پڑھ کر ذہن سوچ میں پڑجاتا ہے کہ آخر اللہ نے ہماری قوم کو کس خمیر سے بنایا ہے کہ ہمارے اندر برداشت اور درگزر کا عنصر بالکل ہی ناپید ہوچکا ہے ۔ لمحہ موجود کی حکومت پر تنقید کوئی بری بات نہیں ، ہر غلط بات کو غلط کہنا چاہیے، حزب مخالف کا کام تنقید کرنا ہی ہے، لیکن تنقید برائے تنقید نہیں بلکہ تنقید کے ساتھ اصلاح بھی ضروری ہے ۔ ایسے ایسے لوگ جن کے پیچھے کوئی قوت نہیں ، کوئی سیاسی جماعت نہیں وہ شیروں کی طرح ریاست کے مقتدر اداروں کے خلاف جس قسم کی باتیں بانگِ دھل کہہ رہے ہیں وہ حیران کن اور افسوس ناک ہیں ۔ کسی کسی لمحے تو ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت اور ان کے خلاف قائم ہونے والے نو ستاروں کے اتحاد کی تحریک یاد آجاتی ہے ۔ موجودہ حزب اختلاف میں بھی نو ہی جماعتیں ہیں ۔ نو ستاروں نے کیا کچھ بھٹو صاحب کے خلاف نہیں کیا، آخر کار کیا ہوا، تیسری قوت غالب آگئی، بھٹو صاحب کی حکومت جاتی رہی، ان کے ساتھ جو کچھ ہوا سب کے سامنے ہے ۔ لمحہ موجود میں کپتان اور مخالف جماعتوں کی سیاست کی صورت کچھ اُسی قسم کی نہیں ہو رہی ;238; اُس وقت نوستاروں نے نظا م مصطفی قائم کرنے پر قوم کو جمع کیا ، لیکن نظام مصطفی تو نافذ نہ ہوسکا البتہ امیر المومنین بننے کا خواب دیکھنے والے نے نوے دن کا وعدہ کر کے گیارہ سال (1978-1988) ملک پر حکومت کی ۔ انجام کیا ہوا سب کے سامنے ہے ۔ نواز شریف صاحب نے انہیں موصوف کے دور میں سیاست میں آنکھ کھولی تھی، وزیر سے وزیر اعلیٰ اور پھر تین مرتبہ(1990-1993, 1997- 1999, 2013-2017) وزیر اعظم بنے انجام کیا ہوا ، آجکل انجام کی فلم چل رہی ہے، بے نظیربھٹو بھی دومرتبہ(1988-1990, 1993-1996) وزارتِ اعظمیٰ اور قائد حذب اختلاف بھی رہیں ، انجام ہمارے سامنے ہے ۔ کسی بھی ڈکٹیٹر کے خلاف تحریک چلانے اور اس کی حکومت کو گرانے کی بات تو سمجھ آتی ہے لیکن کسی بھی جمہوری حکومت کو سنگین الزامات کے بغیر گرانے کی باتیں ماضی میں بھی کی جاتی رہیں نتیجہ تیسری قوت نے فائدہ اٹھایا ۔ میری یاد داشت میں ایوب خان صاحب نے ملک پر 11سال (1958- 1969)حکومت کی، آخر میں برا انجام ہوا، گلی گلی کیا نعرے لگے، جنرل یحییٰ خان نے کوئی تین سال (1969-1971)ملک پر حکومت کی اور ملک کو مشکل میں ڈال کر چلتے بنے ، ایوب خان کو تو اس اعتبار سے کہ اس کے دور میں ملک نے صنعتی ترقی کی یاد کیا جاتا ہے البتہ یحییٰ خان کو قوم اچھے نام سے یاد نہیں کرتی، پرویز مشرف نے ملک پر کوئی سات سال(2001-2008)حکومت کی ، اس نے ملک کو ترقی کی راہ پر لگایا لیکن وہ آج جس حال میں ہے وہ ہمارے سامنے ہے ۔ ملک کے حکمران وہ بھی جو اس وقت اقتدار میں ہیں اور وہ بھی جن کے پاس اس وقت اقتدار نہیں لیکن وہ ماضی کے حکمراں رہ چکے ہیں ،یہ مستقبل کے حکمراں کہے جاتے ہیں ۔ دونوں کو چاہیے کہ ملک کی بقا کی خاطر، قوم کی ترقی کے خاطر ، سیاست کو اس حد تک خرابی کی جانب نہ لے جائیں کہ ماضی کی تاریخ دہرائی جائے ۔ ماضی کی تاریخ سے عبرت حاصل کرتے ہوئے سیاست کو سیاست ہی رکھا جائے ، تماشہ نہ بنا دیا جائے ۔ بقول شاعر ;242;

جگہ جی لگانے کی دنیا نہیں ہے
یہ عبر ت کی جا ہے تماشہ نہیں ہے

جہاں میں ہیں عبرت کے ہر سُو نمونے
مگر تجھ کو اندھا کیا رنگ و بُو نے

کبھی غور سے بھی دیکھا ہے تونے
جو معمور تھے وہ محل اب ہیں سونے

ملے خاک میں اہلِ شاں کیسے کیسے
مکین ہوگئے لا مکاں کیسے کیسے

ھوَئے نامُور بے نشاں کیسے کیسے
ز میں کھا گئی آسماں کیسے کیسے

جگہ جی لگانے کی دنیا نہیں ہے
یہ عبر ت کی جا ہے تماشہ نہیں ہے

خدا را ہوش کے ناخن لیں ، پاکستان پر رحم کریں ، پاکستان اس وقت مشکل دور سے گزر رہا ہے، معیشت کی بہتری کے لیے کیے جانے والے اب تک کے تمام اقدامات تسلی بخش نظر نہیں آرہے، اس میں کوئی شک نہیں کہ دس گیارہ ماہ قبل ملک کی جو معاشی صورت حال تھی وہ بے حد ابتر تھی، خزانہ خالی، قرضوں کا بوجھ ، حکومت جس طرح بھی قائم ہوئی ،تحریک انصاف حکومتی تجربے سے عاری ہے، اس کے پاس ماہرین کی ٹیم نہیں تھی، شروع میں پارٹی کے ہی ذمہ داران سے حالات کو سدھارنے کی کوششیں کی گئی جو ناکام رہی ، پھر ماہرین معیشت کو شامل کرنا پڑا، جس پر تنقید بلکہ کڑی تنقید ہوئی اور ہورہی ہے، یہ ایسا ہی ہوا کہ جیسے ماضی میں ملک کے اندر سے کسی شخص کو وزیر اعظم کے لیے اہل نہ سمجھا گیا اس عہدہ کے لیے پہلے ڈاکٹر معین الدین قریشی کو 1993ء میں ،پھر شوکت عزیزکو (2004-2007) میں وزیر اعظم کے منصب پر فائز کیا گیا ۔ اب بھی ماہرِ معیشت باہر سے بلوائے گئے ، ان کی محارت پر شبہ نہیں ، لیکن ان کے پاس بھی جادو کی چھڑی نہیں کہ وہ دنوں یا مہینوں میں ملک کی بگڑی معیشت کو بہتری کی پٹری پر ڈال سکیں ۔ حکومت مہنگائی پر کنٹرول کرنے میں ناکام ہے، ہر15 دن بعد پیٹرول کی قیمتیں بڑھائی گئیں جن سے منگائی کا جن بے قابو ہوگیا، اس وقت صورت حال یہ ہے کہ ہر گلی کوچے سے مہنگائی مہنگائی کی سدائیں بلند ہورہی ہیں اور ان میں صداقت ہے، حزب اختلاف واویلا غلط نہیں مچارہی، حکومت کو ٹیکس لگانے اور ٹیکس کی وصولی کے اقدامات کے سوا کچھ اور سوجھ ہی نہیں برہا، ، کم از کم لازمی ضروریات کی اشیاء آٹا، شکر، گھی، تیل ، نمک مرچ مصالے اور دواؤں کی قیمتوں کو نہ بڑھنے دیا جائے لیکن اس جانت توجہ نہ ہونے کی وجہ سے حکومت سخت پریشانی کا شکار ہے ۔ سوشل میڈیا پر ایک پوسٹ عمران خان کی تعریف میں یہ لگی کہ میاں نواز شریف کے دور میں حاجیوں سے ذائدپیسے لیے گئے اور عمران خان کے دور میں حاجیوں کو وہ اضافی رقم واپس کی گئی، یہ ایک اچھی بات ہے، تعریف ہونے چاہیے ، اس پوسٹ پر صادقین مرحوم کے بھتیجے جناب سلطان احمد نے تبصرہ کرتے ہوئے لکھا کہ’’اب حاجیوں کے بعد بائیس کروڑ عوام کو بھی کچھ لوٹا دو کم از کم روٹی ہی سستی کردو‘‘ ۔ خزانے میں پیشہ بھی آچکا، آئی ایم ایف سے بھی معاہدہ ہوگیا، کئی دوست ملکوں نے بھی مدد کردی ،اب حکومت کا رونا سمجھ سے باہر ہے ۔ معیشت کے لیے جو کچھ کیاجا چکا اس کا ثمر فوری ملنے والا نہیں اسے کم از کم ایک سال لگ جائے گا، پھر کچھ بہتری سامنے آسکتی ہے ، مہنگائی کو کنڑول کرنے پر خصوصی توجہ کی ضرورت ہے ، ترقیاتی پروگرام جاری رکھتے ہوئے مہنگائی کے جن کو قابو میں کرے ایسا نہ ہو کہ مہنگائی اس قدر قابو سے باہر ہوجائے کہ کوئی بھی قوت اس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ماضی کی یاد تازہ کردے ۔ مخالف جماعتیں پوری کوشش میں ہیں کہ کسی بھی طرح حکومت کو گرادیں ، اس کے لیے نت نئے قسم کے اسکینڈل سامنے آرہے ہیں ،ا بھی اور بھی آسکتے ہیں ۔ ان سب کا مقابلہ صرف اس صورت میں ممکن ہے کہ ملک کی معیشت کی گاڑی کی سمت بہتری کی جانب ہوجائے ۔ حکومت کی ناکامی کی صورت میں مخالفین کی صفیں مضبوط ہوں گی، لوگ ان کے ساتھ شامل ہوجائیں گے، تاجر براداری اٹھ کھڑی ہوئی ہے، اس کے بعد چھوٹے تاجر بھی اٹھ کھڑے ہوں گے، پھر مزدور طبقہ ان کے ساتھ شامل ہوجائے گا، ٹرانسپورٹر تیار ی پکڑے ہوئے ہیں ، 16 جولائی کو صحافیوں نے ملک گیر احتجاج کیا ہی نہیں کیا بلکہ انہوں نے کہا کہ کہ ان کی یہ تحریک آگے بڑھے گی اور اس میں دیگر طبقے بھی شامل ہوجائیں گے ۔ اس سے پہلے کہ نو ستاروں کی تاریخ دھرائی جائے حکومت کو مہنگائی کے جن کو قابو میں لانا ہوگا ، عمران خان کے اخلاص ، دیانت ، ایمانداری، محب وطن ہونے پر شک نہیں ، اس بات میں بھی شک نہیں کہ اس نے ملک کی دولت بے دردی لوٹنے والوں کو کیف کردار تک پہچایا، کچھ انجام کو پہنچ چکے کچھ تیاری پکڑ رہے ہیں لیکن عوام کا پیٹ ان چیزوں سے نہیں بھرتا انہیں تین وقت کی روٹی چاہیے ، سر چھپانے کو چھت چاہیے، بچے پالنے کے لیے روز گار، تعلیم دلانے کے لیے امن و سکون چاہیے ۔ کراچی جیسے شہر میں موبائل اور پرس چھینے کی وارداتوں میں پھر سے اضافہ ہوچکا ہے، یونیورسٹی روڈ جس پر ہر وقت ٹریفک روان دوان رہتا ہے، پولس موبائل، رینجرز کے جوان بھی جگہ جگہ نظر آتے ہیں اس کے باوجود شہریوں کو لوٹنے کی وارداتیں کھلے عام ہورہی ہیں ۔ عوام کو ان سے بھی نجات ملنی چاہیے ۔ جناب ِ وزیر اعظم مہنگائی کا جن بے قابو ہورہا ہے، ایسا نہ ہو کہ وقت آپ کے ہاتھوں سے نکل جائے، مخالفین یکجا ہوکر حالات اس حد تک خراب کردیں کہ آپ بے بس ہوجائیں اور پاکستان میں ایک مرتبہ پھر ماضی کی تاریخ دہرائی جائے ۔

 

Prof. Dr Rais Ahmed Samdani
About the Author: Prof. Dr Rais Ahmed Samdani Read More Articles by Prof. Dr Rais Ahmed Samdani: 852 Articles with 1279888 views Ph D from Hamdard University on Hakim Muhammad Said . First PhD on Hakim Muhammad Said. topic of thesis was “Role of Hakim Mohammad Said Shaheed in t.. View More