خبردار!جمہوریت مفقود ہوئی تو
زرداری، نواز ذمہ دار ہوں گے
کیا تیسری قوت کی تیاری مکمل ہے.....؟؟
پاکستان دنیا کا شائد وہ واحد ملک ہو جہاں ٹیکس دہندگان کو کوئی سرکاری
سہولت حاصل نہیں ہے مگر اِس کے باوجود بھی یہاں تنخواہ کی مد میں ماہانہ
آمدنی کمانے والے سرکاری ملازمین کی ایک اچھی خاصی بڑی تعداد باقاعدگی سے
ہر ماہ اپنی تنخواہ سے ٹیکس ادا کرتی ہے اور سُنیں بات یہیں ختم نہیں ہوگئی
ہے آپ حیران ہوں کہ دنیا میں ہماری وہ قوم ہیں جو اندھیرے میں رہ کر اور
بجلی کی کئی کئی گھنٹوں کی لوڈشیڈنگ کے باوجود بھی بجلی کی قیمت بڑھنے پر
ہر ماہ بجلی کا بل بھی باقاعدگی سے ادا کرتی ہے مگر اِس کے باوجود بھی اِسے
بجلی کی لوڈشیڈنگ سے حکومت نجات نہیں دلاتی ہے اور اِسے اُجالا نصیب نہیں
ہوتا ہے۔ اَب تو یہ عالم ہوگیا ہے اور ہمارے مشاہدے میں یہ بات آئی ہے کہ
ہمارے ملک کے بچے گھر میں بجلی نہ ہونے کے باعث اندھیروں کے ایسے عادی
ہوگئے ہیں کہ جب کبھی بھولے بھٹکے گھر وں میں بجلی آجاتی ہے تو بچے گھروں
میں روشنی دیکھ کر رونا شروع کردیتے ہیں .....بہرحال!پاکستانی قوم کے لئے
ایک حیران اور پریشان کُن خبر یہ ہے کہ حُکومت نے( قومی خزانہ جو حُکمرانوں
کی عیاشیوں کی وجہ سے خالی ہوچکا ہے اِسے پھر سے لبالب بھرنے کے لئے) آئی
ایم ایف اور ورلڈبینک کے عوام دُشمن مشوروں کے بعد صدارتی آرڈینسوں کے
ذریعے ملک میں متعدد انکم ٹیکسوں پر15فیصد سرچارج لگانے، اسپیشل ایکسائز
ڈیوٹی ڈھائی فیصد کرنے اور بجلی 2 فیصد مہنگی کرنے سمیت کئی اشیا پر سیلز
ٹیکس بڑھانے کا فیصلہ کر کے عوام کو زندہ درگور کرنے کا جو سامان کیا ہے اس
سے قوم چیخ پڑی ہے اور التجا کر رہی ہے کہ حکمران ہم کو مہنگائی اور آر جی
ایس ٹی اور فلڈ سرچارج ٹیکسوں کے ہاتھوں زندہ درگور کرنے کے بجائے اپنی
عیاشیوں کو ختم کریں اور اِس نے دیدہ اور دانستہ طور پر آئی ایم ایف اور
ورلڈ بینک سے اپنا رشتہ ناطہ جوڑ کر مہنگائی اور بیروزگاری اور بھوک و
افلاس کی نظر کر کے عوام کو قتل کرنے کا جو منصوبہ بنا رکھا ہے اِسے بند
کرے۔ جبکہ یہ امر قرار واقعی ہے کہ گزشتہ دنوں ملک میں مہنگائی کا سونامی
لانے والے صدارتی آرڈینسوں کے بعد خیال کیا جارہا ہے کہ حکومت کو غریبوں کے
گلے پر چُھری پھیر کر اِنکم ٹیکس کی مد میں20،سیلز ٹیکس25 اورفیڈرل ایکسائز
ڈیوٹی کی مد میں6ارب روپے اور اِسی طرح بجلی کے نرخوں میں ہونے والا اضافہ
جس کا اطلاق کے ای ایس سی (جس نے شہر کراچی سے اُجالا چھین کر اِسے
اندھیروں میں دھکیل دیا ہے )اِس پر بھی ہوگا اور اِس مد میں حکومت کو 8ارب
روپے ملیں گے یعنی حکومت نے بجلی کے فی یونٹ پر 2فیصد(15پیسے)سرچارج کا جو
نوٹیفکیشن جاری کیا ہے اِس سے رواں ماہ کے دوران 400ملین روپے کی آمدنی کی
توقع ہے اُدھر اِن تما م صدارتی آرڈینسوں کو جن سے ملک میں نئے ٹیکسوں کا
فوری طور پر نفاذ ہوگا اِنہیں ملک بھر کے چیمبرز نے عوام دُشمن اور ملکی
معیشت کے خلاف قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا ہے اور کہا ہے کہ ملک کی بحران
کی اصل وجہ امن وامان کی خراب صُورت حال ہے اور ٹیکس ریفارمز میں غلط طریقے
سے ٹیکس عائد کرنا ہے لہٰذا حکومت آر جی ایس ٹی اور فلڈ سرچارج کو فی الفور
واپس لے اور عوام پر بیجا ٹیکسوں کا نفاذ کرنے ملک میں مہنگائی کو بے قابو
کرنے اور عوام کو سڑکوں پر آنے سے روکنے جیسے اقدامات کر کے ملکی معیشت کو
مستحکم کرنے کے لئے اپنے مثبت اور تعمیری وسائل بروئے کار لائے یہ نہیں کہ
یہودیوں کے آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے مشوروں پر عمل کر کے ملک میں
افراتفری کی فضا بڑھائی جائے۔
یہ بات تو تہہ ہے کہ اِس حال میں اَب اگر ملک میں جمہوریت کو کُچل کر آمریت
کے اژدھے نے قوم پر اپنا تسلط قائم کیا تو اِس کی ذمہ دار مصالحت پسندی کی
شکار ملک کی دو بڑی سیاسی جماعتیں(پی پی پی اور پی ایم ایل نون) ہوں گیں
ایک وہ جو گزشتہ تین سالوں سے پے درپے مہنگائی جیسے عوام دُشمن اقدامات کر
کے حکمرانی کے مزے لوٹ رہی ہے اور دوسری وہ جِسے انگور نہیں ملے تو کھٹے
ہیں یعنی پاکستان مسلم لیگ (ن) جس کا ماضی گواہ ہے کہ یہ کچھ عرصے تک تو
اپنے سیاسی مفادات کے حُصول کے خاطر بظاہر حکومتی اتحاد میں شامل تو رہی
مگر یہ اندر ہی اندر پہلے ہی دن سے حکمران جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کے
لئے بات بے بات اور بے موقع محل مسائل پیدا کرتی رہی اور یہ اِس دوران کوئی
بھی لمحہ اپنے ہاتھ سے جائے بغیر اپنی موجود گی کا احسا س کچھ اِس طرح
دلاتی رہی کہ اِس نے کوئی نہ کوئی سیاسی یا ذاتی نکتہ اُٹھاکر حکومت کی ناک
میں دم کئے رکھا اور آج یہ جبکہ حکومتی اتحاد سے علیحدگی اختیار کرچکی ہے
مگر اِس کے باوجود بھی یہ اپنی اِسی روش پر قائم ہے اور اَب بھی پہلے سے
کہیں زیادہ حکومت کے ہر کام میں تنقید کرنا اپنا سیاسی حق سمجھتی ہے اور
صرف یہی نہیں بلکہ بعض مرتبہ تو یہ اِس حد تک پہنچ جاتی ہے کہ ایسا محسوس
ہوتا ہے کہ جِیسے یہ حکومت میں کچھ نہ ہو کر بھی بہت کچھ ہے اور حکومت اِسی
کی ہے اور وہ جماعت پاکستان پیپلز پارٹی جِسے(قومی خزانہ لوٹنے اور اِس مزے
کرنے کا )بھرپور عوامی مینڈیٹ حاصل ہے اور عوام نے اِسے حق حکمرانی ادا
کرنے کا شرفِ عظیم بخشا ہے اِس کی کوئی اہمیت ہی نہیں ہے اور جو کچھ ہے بس
پاکستان مسلم لیگ (ن) ہی ہے ۔
آخر کسی کو آزمانے اور پریشان کرنے کی بھی کوئی حد ہوتی ہے.....مگر پی ایم
ایل نون تو تما م حدوں کو عبور کرتی ہوئی وہاں پہنچ رہی ہے جہاں نہ صرف
سیاست بھی کانوں کو ہاتھ لگاتی ہے بلکہ اِنسانیت پر بھی لرزہ طاری ہوجاتا
ہے وہ تو صدر زداری کی نرم مزاجی اور اِن کا فراغ دلانہ رویہ ہے کہ اُنہوں
نے اتنا کچھ ہونے کے باجود بھی پاکستان مسلم لیگ (ن) کو اپنے ساتھ لے کر
چلنے کی ٹھان رکھی ہے ورنہ تو پی ایم ایل نون میں ایسی بھی کوئی خاص خُوبی
نہیں ہے کہ یہ کسی کی اتحادی بن کر یا اکیلے ہی سیاسی اور حکومتی اُمور میں
اپنی ذات سے کوئی قابلِ فخر کارنامہ اتجام دے سکے اور قابلِ تعریف ٹھیرائی
جائے مگر معلوم نہیں کیوں صدر زرداری یہ جانتے ہوئے بھی کہ یہ جماعت کبھی
بھی اِن کے بُرے وقت میں ساتھ نہیں دے گی پی ایم ایل نون کی منت سماجت کرنے
اور اِسے اپنے ساتھ لے کر چلنے پر کیوں بضد ہیں اِس حوالے سے صدر آصف علی
زرداری نے اُس وقت بھی پی ایم ایل ن کو منانے اور اپنے ساتھ رکھنے کی بہت
کوششیں کی جب یہ حکومتی اتحا د سے علیحدہ ہورہی تھی مگر شائد اُس وقت بھی
پاکستان مسلم لیگ (ن) کو حکمران جماعت کی جانب سے اپنی اتنی ڈھیر ساری عزت
راس نہ آئی اور وہ عاشق کی کسی ناراض محبوبہ کی طرح اِٹھلاتی بل کھاتی روہٹ
کر چل گئی۔تب سے آج تک پی ایم ال نون یہی کر رہی ہے ۔اور عملی طور پر ایسا
کچھ نہیں کر رہی ہے کہ حکومت ملک میں مہنگائی اور ٹیکسوں کے بیجا نفاذ سے
باز رہے ۔
اگرچہ یہ حقیقت ہے کہ آج ملک میں سیاسی رسہ کشی اور تناؤ کا جو ماحول پیدا
ہوا ہے اِس میں یہ دونوں جماعتیں پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان مُسلم
لیگ (ن) برابر کی شامل ہیں جن کی آپس کی اَنا اور مصالحت پسندانہ لڑائیوں
کی وجہ سے ملکی مسائل میں روزبروز اضافہ ہوتا جا رہا ہے اور عوام اِن کی
لڑائیوں کی زد میں آکر مہنگائی، بھوک و افلاس، بیروزگاری، کرپشن، اقربا
پروری، لوٹ مار اور قتل وغارت گری جیسے دلدل میں دھنستے جارہے ہیں مگر یہ
دونوں جماعتیں ہیں کہ اپنی اپنی لڑائیاں ختم کرنے اور اپنے اندار عوامی
جذبہ خدمت پیدا کرنے اور ملک کو استحکام بخشنے کا نام ہی نہیں لے رہی ہیں۔
ایک طرف صدر آصف علی زرداری ہیں جو نرم مزاج اور فراخ دل تو اتنے ہیں کہ
اگر لٹانے پر آجائیں ( مگر اپنی دولت سے نہیں..... اِسے تو اِنہوں نے دیارِ
غیر میں سب سے چھپاکر اور بچاکر رکھا ہو اور اِسے دورانِ حکومت خود پر بھی
خرچ نہ کرنے کا عزم ِ مصمصم کر رکھا ہے )تو قومی خزانے سے اپنی ذات اور
اپنے امیروں دوستوں اور یاروں کے لئے اتنا کچھ لوٹا رہے کہ آئے روز قومی
خرانہ خالی ہوجاتا ہے اور پھر اگلے روز دوبارہ لٹانے اور قومی خزانہ پھر سے
بھرنے کے لئے اِنہیں آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے مشوروں سے کوئی نہ ٹیکس
ملک کے سترہ کڑور عوام پر لگانا پڑ جاتا ہے جس سے عوام بلبلا اٹھتے ہیں تو
کبھی یہ قومی خزانے کو بھرنے کے لئے یکذمبشِ قلم بے تحاشہ پیٹرولیم مصنوعات
کی قیمتوں میں اضافہ کردیتے ہیں اور تو اور جب اِس سے بھی کام نہیں چلتا ہے
تو یہ کبھی بجلی کی قیمتوں میں اضافہ کر کے بھی قومی خزانہ بھرنے کا اچھا
بہانہ تلاش کرتے ہیں اور پھر یوں یہ اِس طرح اپنے غیر ملکی دوروں اور اِس
دوران وہاں اپنی عیاشیوں کے لئے سامان پیدا کر لیتے ہیں ملک میں کئی صدارتی
آڈینیسوں کے ذریعے نافذ ہونے والے ٹیکسوں اور آئندہ دنوں میں امڈ آنے والے
مہنگائی کے سیلاب کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ صدر زرداری کو چوں کہ خزانہ
بھرنا ہے اِس لئے اُنہوں نے یہ حربہ استعمال کیا ہے۔ |