بھارت نے مقبوضہ کشمیر کے میڈیا کو کچلنے اور ریاستی
دہشتگردی کے خلاف اٹھنے والی آواز کو خاموش کرنے کے لئے از سر نوپروپگنڈہ
شروع کر دیاہے۔ کشمیری صحافیوں کو آئی ایس آئی کی تخلیق اور جہادی صحافی
قرار دے کر عوام پر فوجی جارحیت اور آزاد کشمیر کی آبادی پر بلا اشتعال
گولہ باری تیز کی ہے۔تا کہ قتل عامکا نیا سلسلہ شروع کر دیا جائیاس کے لئے
جموں خطے کی ہندو آبادی کو تیزی سے مسلح کیا جا رہا ہے۔ چناب ویلی میں ولیج
ڈیفنس کمیٹیوں کے بینر تلے ہندو شدت پسندوں کو اسلحہ سے لیس کیا جا رہا ہے۔
جسے مسلم آبادی خطرناک قرار دیتے ہوئے کہتی ہے کہ اس کیتباہ کن نتائج سامنے
آسکتے ہیں۔ یہ ایک خطرناک صورتحال ہے جوریاست کے نوجوانوں کے جذبات کو
مجروح کر رہی ہے۔بھارت نے کشمیر میں ہندو سرکار نواز بندوق برداروں کی فوج
تیار کرنے کی حکمت عملی اس لئے تیار کی ہے کہ خطے میں مسلم کشی تیز کی جائے۔
مزید یہ کہ بھارت سے ہندو لا کر کشمیر میں بسانے کے منصوبوں کو عملی شکل دی
جائے۔ سال 1990میں بھی بھارتی حکومت نے شہریوں کو اسلحہ سے لیس کیا ۔ جس کا
ثمر یہ نکلا کہ حالات خراب ہونے کے ساتھ ساتھ مار دھاڑ کا نیاسلسلہ شرو ع
ہوا جو اب بھی جاری ہے۔ چناب ویلی میں یہ منصوبہ عملانے کے منفی نتائج
برآمد ہونگے۔ بھارت نے کچ عرصہ کے لئے ولیج ڈیفنس کمیٹیوں کو غیر فعال کیا
تاہم اب نہ صرف ولیج ڈیفنس کمیٹیوں کوپھر سے متحرک کیا جا رہا ہے بلکہبی جے
پی اور دیگر ہندو انتہا پسند گروپوں سے وابستہ کارکنوں کو بھی اسلحہ سے لیس
کیا جا رہا ہے۔ بھارت نام نہاد دفاعی کمیٹیوں میں ہندو دہشگردوں کو بھرتی
کر کے مسلمانوں کے خلاف کسی بڑے جارحانہ منصوبے پر کام کر رہی ہے۔ اس پر
اگر کشمیر کا میڈیا آواز بلند کر ے تو اس کی کردار کشی کی جاتی ہے۔ بھارت
کے ایک بڑے اغباری گروپ ٹائمز آف انڈیا کی ایک حالیہ رپورٹ میں بھی کشمیری
صحافیوں کی کردار کشی کی گئی۔ بھارتی حکومت نے کشمیری نوجوانوں کے خلاف ایک
بار پھر جعلی مقدمات قائم کرنے میں بھی تیز ی لائی ہے۔ نوجوانوں کو مجاہدین
کی مدد کے الزام میں حراست میں لیا جا رہا ہے۔ ان کے خلاف سنگین جرائم کے
کیس بنائے جا رہے ہیں۔ بڈگام میں چھ مقامی نوجوانوں کیخلاف چارج شیٹ داخل
کی گئی ہے۔بدنام زمانہ این آئی اے کی سرگرمی کے ساتھ بھارت نے فاروڈ کہوٹہ،
پونچھ اور راجوری میں حد متارکہ پر شدید گولہ باری شروع کی ہے۔ شدید گولہ
بھاری کے نتیجے میں کئی رہائشی مکانات کو نقصان پہنچا ہے۔ بھارت جارحانہ
گولہ باری بند کرنے کے بجائے پاکستانی رینجرس پر گولہ باری کی آڑ میں
مجاہدین کو داخل کرنے کے الزامات عائد کرتا ہے۔ نوشیرا سیکٹرکے بابا کھوری
اور کرشنا گھاٹی سیکٹرکے منکوٹ علاقوں میں دونوں طرف کی افواج نے ایک دوسرے
کیخلاف ہلکے اور بھاری ہتھیاروں کا استعمال کیا۔گزشتہ دو روز سے گولہ باری
جاری رہی۔ مقبوضہ پونچھ اور راجوری میں جنگ بندی لائن کے نزدیک رہائش پذیر
لوگ محفوظ مقامات کیطرف منتقل ہورہے ہیں۔ تا ہم آزاد کشمیر کی شہری آبادی
نڈر اور بہادر ہے۔ بھارتی جارحیت کا مقابلہ کرنے کو تیار ہے۔
آزاد کشمیر کی وادی نیلم کے مختلف سیکٹرزسے مصدقہ اطلاعات ہیں کہ کئی
علاقوں میں بھارتی فوج نے اپنی پوزیشنز سے آگیبڑھ کر خیمے نصب کئے ہیں۔ اس
کی تفتیش ہونی چاہیئے کہ بھارت کی قابض فوج کو پیچھے دھکیلنے کے بجائے اسے
آگے بڑھنے کا موقع کیوں دیا جا رہا ہے۔ اگر کوئی انکوائری کی جائے تو پتہ
چلے گا کہ 1990کے بعد سے بھارتی فوج نے جنگ بندی لائن پر نئی مورچہ بندیا
کیں ہیں۔ انہوں نے اپنی پوزیشنز مستحکم کی ہیں۔ بھارت کو تاربندی کی اجازت
بھی دی گئی۔ ایک متنازعہ علاقے میں قابض فوج کو پختہ مورچے تعمیر کرنے اور
دیواریں لگانے کا موقع دینے کا مطلب خود کشی کے مترادف ہے۔دفاعی اداروں کو
شہری معاملات، سیاست، سفارت، معاشرت میں الجھانے سے دفاع کمزور ہو سکتا ہے۔
بھارت مقبوضہ کشمیر پر قبضہ مضبوط کرنے کی مسلسل کوشش کر رہا ہے۔ آج بھی
بھارت کا وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ اپنے فوجی چیف کے ہمراہ مقبوضہ کشمیر میں
موجود ہیں۔ آزاد کشمیر میں پاک فوجکے کسیجوان نے اپنے وزیر دفاع کی شکل تک
نہیں دیکھی ہو گی۔ پاک فوج کے سربراہ اپنے وزیر دفاع کے ہمراہ جنگ بندی
لائن کا دورہ کریں۔ خود حالات کا جائزہ لیں۔ بھارتی فوج کی پیش قدمی اور
ضیموں کی تنصیب کی تحقیقات کریں۔ پاک فوج نے لیسوا علاقے میں تباہی پر
زبردست کام کیا۔ متاثرین کی ہر ممکن مدد کی۔ عوام کی دعائیں سمیٹیں اور
بھرپور اعتماد حاصل کیا۔ پاک فوج کو متعدد چیلنجز کا سامنا ہے ، اسے فروعی
معاملات میں نہ الجھایا جائے۔ دشمن چاروں اطراف سے چڑھ دوڑنے کی تیاری کر
رہا ہے۔ حالات یہی پتہ دیتے ہیں۔ ایسے میں معمولی اونگ بھی گہری کھائی میں
دھکیل سکتی ہے۔ جب ترقی اور کامیابی کے سفر کی طرف سے توجہ ہٹا کر دوسری
طرف لگا دی جائے ، تو ذمہ داری کا یہ ثبوت ہو گا کہ پٹری سے خود کو نہ
اترنے دیا جائے۔ جب جان نہ چھوٹے اور کوئی راستہ نہ بچے تو پھر جان نکلنے
کی صورت میں کھوتا بھی حلال ہو جاتا ہے، مگر اسے بھی سیر ہو کر کھانے کی
اجازت نہیں، بس اتنا کہ جان بچ جائے۔ ورنہ خود کشی حرام ہے۔ حرام گناہ کی
سیڑھی ہے۔عظیم قومیں زاتی مفادات یا سیاست یا اقتدار کے لئے انتقام سے
کنارہ کشی کرتی ہیں۔ کیوں کہ اس میں نئی نسل کے مستقبل کے تاریک ہونے کے
آثار پائے جاتے ہیں۔ بھارت کی سرکاری مشینری اور میڈیا سب مل کر مقبوضہ
کشمیر کے عوام کی آواز کو کچل رہے ہیں۔ کشمیری صحافیوں کے خلاف پروپگنڈہ
اسی کی ایک کڑی ہے۔ عالمی میڈیا کو بھی بھارتی سنسرشپ اور ریاستی دہشگردی،
آزاد کشمیر کی شہری آبادی کے پر جارحیتکے خلاف آواز بلند کرنا چاہیئے۔ |