عمران خان کے دورہ امریکا میں ہمارے لیے جو خوش گوار بات
سامنے آئی وہ کشمیر بارے موددی صاحب کا ٹوٹتا ہواغرور ہے۔پاکستان جب بھی
بھارت سے کشمیر پر مذاکرات کی بات کرنے کا کہتا تھا۔ موددی صاحب جواب میں
نام نہاد دہشت گردی ختم کرنے کی گران دوھراتا رہتا تھا۔ دورہ کامیاب کرنے
کے لیے ویسے تو عمران خان صاحب وزیر اعظم پاکستان کے امریکا دورے سے پہلے
جماعت دعوۃ کے سربراہ حافظ سعید صاحب کو عمران خان حکومت نے گرفتار کر لیا
ہے۔ جس پر ٹرمپ صاحب نے اپنی بڑی کامیابی قرار دیا تھا۔بھارت حافظ سعید کو
ممبئی ہوٹل کے واقعہ سے منسوب کرتا رہتا ہے۔ آزاد حلقوں جس میں جرمنی کے
ایک مصنف نے اپنی کتاب میں یہ ثابت کیا ہے کہ بھارت، امریکا اور اسرائیل نے
ممبئی دہشت گردی خود کرائی ہے۔پاکستان بھارت سے ثبو ت مانگتا ہے تو ثبوت
پیش نہیں کیے جاتے تھے۔ جو ثبوت دیے بھی گئے ان پر پاکستان کی عدالتوں میں
مقدمے قائم کیے گئے۔ عدالتوں نے تفصیل سے مقدمے سن کر حافظ سعید کو باعزت
بری کیا ہوا ہے۔ اﷲ کرے عمران خان ان شاتر سیاست دانوں کے کسی جال سے
ہوشیار رہیں۔بحر حال جو خبرسامنے آئی وہ صدر امریکا ڈونلڈ ٹرمپ صاحب نے
مسئلہ کشمیر حل کرنی کی پیش کش ہے جسے پاکستان نے منظور کر لیا ہے۔ ٹرمپ نے
یہ بھی کہا کہ موددی نے بھی کشمیر کے حل کے لیے امریکا سے مدد مانگی ہے یہی
غرو ر ہے جس کی ہم نے شروع میں بات کی ہے۔ ٹرمپ صاحب نے بیان دیا کہ طویل
تصفیہ طلب مسئلہ کشمیر پر کچھ کر سکوں اور بھارت پاکستان کے درمیان کشیدہ
تعلوقات میں بہتری لا سکوں تو مجھے خوشی ہو گی۔پاکستان نے تو پہلے سے ہی
موددی صاحب اور اس قبل کی وزیر اعظموں کو کشمیر پر بات چیت کرنے کا کہتا
رہتا ہے۔ موددی نے وزیر اعظم بنتے ہی کشمیریوں کے خلاف پہلے سے زیادہ ظلم
اور کشمیر مخالف اقدامات کرنے شروع کر دیے ہیں۔کشمیر کے لیے بھارت کے آئین
میں شک نمبر ۳۷۰ اورA ۲۵ خصوصی طور پر رکھی ہوئی ہے۔جس کے تحت کشمیرے
باشندے کے علاوہ اور کوئی بھی کشمیر میں زمین نہیں خرید سکتا۔ اس کو پہلے
مہارجہ کشمیر نے، پھرکشمیر کی پارلیمنٹ نے بھی منظور کیا ہوا ہے۔ موددی
حکومت نے آتے ہی اس شک کو ختم کرنے کی مہم چلائی ہوئی ہے۔ موددی صاحب جو
دہشت گرد ہندو تنظیم آر ایس ایس کے بنیادی رکن ہیں۔ آر ایس ایس کے حکم پر
اپنی انتخابی منشور میں کشمیر بارے اس شکوں کو ختم کرنے کا وعدہ کیا ہوا ہے۔
اس کے خلاف سارے کشمیری جن میں حیریت کانفرنس ، لیبریشن فرنٹ، سابق حکمران
کشمیرمحبوبہ مفتی اور تین پشتوں سے کشمیر کے حکمران فاروق عبداﷲ بھارت کے
سامنے گھڑے ہو گئے ہیں۔
جہاں تک ڈونلڈٹرمپ عمران خان کی ملاقات کا تعلق ہے تو ٹرمپ صاحب عمران خان
وزیر اعظم پاکستان کے استقبال کے لیے وائٹ ہاؤس کے مین گیٹ تک باہر تشریف
لائے۔ وائٹ ہاؤس میں عمران خان اور ٹرمپ کی جو تصویر میڈیا میں آئی وہ
برابر کی سطح کی ہے۔ اس میں عمران خان پر اعتماد نظر آتے ہیں۔ سابق وزیر
اعظم کی طرح کوئی پرچی ورچی ہاتھ میں نہیں تھی۔پہلے وفود کو شامل کر کے
ملاقات ہوئی۔ جس میں پاکستان کی طرف سے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی، جنرل
قمر جاویدباجوہ، وزیر تجارت عبدالرزاق داؤد صاحبان شریک تھے۔ بعد میں عمران
خان اور ٹرمپ کی ایک گھنٹہ ون ٹو ون ملاقات ہوئی۔اس ملاقات میں کیا باتیں
ہوئیں یہ صرف عمران خان اور ٹرمپ کو ہی معلوم ہے۔
ویسے سوشل میڈیا میں یہ کہاجارہا ہے کہ ملک دشمنوں نے عمران خان کے گردگیرا
تنگ کیا ہوا ہے۔ پاکستان کے حساس قادیانی معاملے کے لیے امریکا میں میدان
بنایا گیا تھا۔ جس کے لیے توہین رسالت کے پانچ سالہ قادیانی مجرم کو پہلے
رہائی دلائی گئی۔ اس قادیانی نے مرحوم سابق گورنر تاثیر کے بیٹے اور ۲۷
رکنی وفد کے ساتھ ٹرمپ کے ساتھ ملاقات کرائی گئی ۔جس کی رپورٹنگ اخبارات کی
زنیت بنی۔جس میں پاکستانی عدالت سے سزا یافتہ قادیانی ٹرمپ سے کہہ رہا ہے
کہ پاکستان میں ہمیں کافر کہا جاتا ہے جبکہ امریکا میں ہمیں مسلمان مانا
جاتا ہے۔ہمارے ساتھ ظلم ہو رہا ہے۔ امریکا خود جانتا ہے کہ قادیانی ہنود
اور نصارا کی مسلمانوں کے خلاف سازش سے پیدا کیا گیا ہے۔سوشل میڈیا میں
جاری مہم میں عمران خان کو قادیانیوں کا حمایتی دکھایا گیا۔ لندن میں ایک
انیل مسرت قادیانی کی تصویر عمران خان کے بیٹے،پاکستان کی پارلیمنٹ کے
اسپیکر اسد قیصر،جرنل قمرجاوید باجوہ ، آئی ایس آئی کے ڈاریکٹر آصف غفور
اور خود عمران خان کے ساتھ نشر کی گئیں۔ان تصاویر سے ایسا لگتا ہے کہ انیل
مسرت کو قادیانیوں کی طرف سے خصوصی طور پر لگایا ہے۔ عمران خان وزیر اعظم
پاکستان کے اس کی وضاعت جاری کرنا چاہیے کہ کیا یہ حکومت پاکستان کا کوئی
نمائندہ ہے جو ٹاپ کے لوگوں کے ساتھ میل جول رکھتا ہے۔ یا قادیانی کا
اتنازیادہ اثرورووخ ہے کہ وہ پاکستان کے حکام کی لندن میں پاکستانی سفیر کی
طرح ڈیل کر رہا ہے۔اصل میں قادیانی مسئلہ پاکستان کی بقاء کا مسئلہ ہے اس
لیے پاکستانی بڑے حساس ہیں۔
مشترکہ پریس کانفرنس میں ٹرمپ نے کہا کہ عمران خان کی اس سوچ سے سو فی صد
متفق ہوں کہ افغانستان کا حل فوجی نہیں مذاکرات ہیں ۔ یہ مسئلہ امریکا
طالبان مذا کرات سے ہی حل ہو سکتا ہے۔ ہم اسی لیے افغانستان سے فوجوں میں
کمی کر رہے ہیں۔ پاکستان پر امن حل کے لیے امریکا کی کوششیں میں مدد کر رہا
ہے۔ عمران خان نے ٹرمپ سے کہا کہ میں جو دعدہ کروں گا اس پر پورا اُتروں گا۔
ٹرمپ نے پہلے الزام لگایا تھا کہ پاکستان پیسے بھی لیتا ہے اور ہمادی مدد
یعنی ڈومور نہیں کرتا۔ وہ تو عمران خان پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ اب ہم کسی
کی لڑائی میں شریک نہیں ہو نگے۔پہلے کی طرح کرائے کی فوجی نہیں بنیں گے۔
آرمی چیف نے بھی کہا کہ دہشت گردی کے خلاف پاکستانی قوم نے دنیا میں سب سے
زیادہ قربانی دی ہے۔ اب دنیا ڈور مور کرے۔
پاکستان تو خطے میں امن چاہتا ہے۔ اسی لیے افغان حکومت اور امریکا کی
طالبان کے ساتھ مذاکرات میں مدد کر ہا ہے۔اس دورے سے پاکستان اور امریکا کے
درمیان اعتماد کی فضا درست ہو ئی ہے۔ اب چاہیے کہ امریکا نے جو کولیشن فنڈ،
جو پاکستان کا حق بنتا ہے، جسے امریکا نے روک رکھا ہے وہ پھر سے جاری ہو
جائے۔ افغانستان جنگ میں پاکستان کا ۱۵۰؍ ار ب ڈالر سے زیادہ کا نقصان ہوا
ہے۔ ہزاروں فوجی اور سولین شہادتیں ہوئی ہیں۔ اس لیے امریکا کو چاہیے کہ
پاکستان کو بھارت کے ساتھ برابری کا حصہ دار بنایا جائے۔ بھارت کی ایما پر
افغانستان سے جاری دہشت گردی ختم کرائے۔ مسئلہ کشمیر بھارت،پاکستان اور
کشمیریوں کو ملا کر حل کروائے۔اگر امریکا ایسا کرتا ہے تو خطے میں امن قائم
ہو جائے گا ۔ عمران خان وزیر اعظم پاکستان کا دورہ امریکا بھی صحیح معنوں
میں کامیاب مانا جائے گا۔
|