بسم اﷲ الرحمن الرحیم
عمران ٹرمپ ملاقات محض دو ملکوں کے بڑوں کی بیٹھک نہیں تھی ۔ایک طرف گزشتہ
کئی دہائیوں سے سپر پاور ملک امریکہ کی سب سے بڑی با اختیار شخصیت اور
دوسری طرف گزشتہ کئی دہائیوں سے مختلف محاذوں پر کئی طاقتوں سے الجھے ہوئے
ایسے ملک کا نومنتخب وزیراعظم تھا جو اندرونی طور پر معاشی چیلنجز سے
نبردآزما ہے ۔ایک طرف آئی ایم ایف کے قرضوں اور شرائط میں جکڑا ملک تھا تو
دوسری طرف دنیا کے ہر حصے پر اپنا اثرو رسوخ رکھنے والا ملک ۔ ایک طرف ایف
اے ٹی اے ایف کی پابندیوں سے سہما ہوا ملک تو دوسری طرف ایران و شمالی
کوریا کو دنیا کے نقشے سے مٹا دینے کی دھمکیاں دینے والا ملک ۔ ایک طرف کئی
میلوں دور سے اپنے اتحادیوں کے ساتھ افغانستان پر حمل کر کے اسے تہس نہس
کرنے والے ملک کا صدر بیٹھا تھا تو دوسری طرف اسی جنگ کی بدولت اپنے اسی
ہزار سے زائد شہریوں جوانوں کو قربان کرنے والے ملک کا ایک ایسا وزیراعظم
جو اپنے ملک کی بقاء کی جنگ لڑ رہا تھا ۔ بنیادی طور پر پاکستان کا وزیر
اعظم ایک ایسے صدر سے ملاقات کر رہا تھا جو خودپسندانہ ، اکھڑ پن اور بے حس
طبیعت کا مالک تھا ۔ یہی وجہ ہے کہ دونوں ممالک کے تعلقات کی اہمیت ہونے کے
باوجود کوئی بڑا بریک تھرو ہونے کی توقع کم تھی۔ دورہ امریکہ سے قبل مقامی
و بین الاقوامی میڈیا میں مختلف تجزیہ نگارلکھ چکے تھے کہ دونوں ممالک کے
درمیان افغان امن مذاکرات، ایف اے ٹی اے ایف ، پاک چائنہ اقتصادی راہداری
،دہشت گردی اور آئی ایم ایف کے حوالہ سے مذاکرات کیے جانے کی امکانات ہیں ۔
شاید دونوں اطراف سے تیاریاں بھی انہی ایشوز کو سامنے رکھ کر کی جارہی تھیں
۔امریکہ افغانستان میں ہونے والے امن مذاکرات میں پاکستان سے مزید کیا طلب
کرنا چاہتا ہے ، کیا پاکستان امریکہ کو قائل کر پائے گا کہ وہ دہشت گردی کے
خلاف موثر کارروائیاں کر چکا ہے ؟ کیا پاکستان امریکہ سے ایف اے ٹی اے ایف
کے حوالہ سے کوئی تعاون لے سکے گا اور کیا پاکستان پاک چین اقتصادی راہداری
پر اپنا واضح موقف امریکہ کے سامنے پیش کر سکے گا جیسے سوالوں کے جواب کا
انتظار کیا جارہا تھا ۔ گزشتہ کچھ عرصہ سے پاکستان کا رجحان امریکی بلاک سے
روسی بلاک کی جانب زیادہ دیکھا جا رہا تھا اس پر بھی امریکی ردعمل آ سکتا
تھا ۔ تاہم اس ساری کہانی میں کشمیر ایشو کا ذکر بہت کم ہوا یوں محسوس ہو
رہا تھا کہ اس دورے میں اول تو کشمیر ایشو کی گنجائش ہی نہیں اگر ہوئی بھی
تو شاید اس کی اہمیت اس قدر نہ ہو کہ وہ کوئی خبر بن سکے ۔ تاہم حیر ت
انگیز طور پر یونہی کشمیر کا ذکر آیا تویہ اس ملاقات کی سب سے بڑی خبر بن
چکی تھی ۔ جونہی مسئلہ کشمیر کا ذکر ہوا تو بھارتی میڈیا میں بھی چیخ و
پکار شروع ہو گئی ۔
اس میں کوئی دورائے نہیں کہ وزیر اعظم نے مسئلہ کشمیر انتہائی جرات مندانہ
طریقے سے پیش کیا ۔ وزیر اعظم نے امریکی صدر کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ
جنوبی ایشیا کی ایک ارب سے زائد آبادی کو مسئلہ کشمیر نے یرغمال بنا رکھا
ہے ، پاکستان تنازعات کے حل کے لیے بھارت کو میز پر لانے کی کوشش کر چکا ہے
لیکن ابھی تک کوئی پیش رفت نہیں ہو سکی امریکہ واحد طاقت ہونے کے باعث
دونوں ممالک کو قریب لا سکتا ہے ۔ جس کے جواب میں امریکی صدر نے انکشاف
کیاکہ دو ہفتہ قبل بھارتی وزیراعظم نے ان سے پوچھا تھا کہ کیا وہ ثالث بننا
چاہے ہیں گے میں نے پوچھا کس پر تو انہوں نے کشمیر پر کیونکہ یہ مسئلہ کئی
سالوں سے لٹکا ہوا ہے ۔ ڈونلڈٹرمپ کے مطابق بھارت بھی اس مسئلہ کو حل کرنا
چاہتا ہے اگر پاکستان میری ثالثی کے لیے تیار ہے تو وہ ثالث بننے کے لیے
تیار ہیں ۔ عمران خان نے ان کی ثالثی منظور کرتے ہوئے کہا کہ اگر یہ مسئلہ
حل ہو گیا توخطے کے ایک ارب سے زائد لوگ آپ کو دعائیں دیں گے ۔ ٹرمپ نے اس
موقع پر کشمیر کے حسن کا ذکربھی کیا اور کہا کہ یہ بہت خوبصورت نام ہے اس
کے بارے میں کافی کچھ سن رکھا ہے شاید یہ دنیا کا خوبصورت علاقہ ہے جہاں
کئی سالوں سے بم اور بارود ہے ۔ امریکی صدر کی ثالثی کی پیشکش اورنریندرا
مودی کی جانب سے ثالث بننے کی پیشکش اور خواہش پر بھارت میڈیا کل سے جلتے
کوئلوں پر بیٹھا ہے ۔ اس کی چیخ و پکار اور ماتم دنیا بھر میں دیکھا اور
سنا جارہا ہے ۔ یہ حیران کن بات نہیں ہے کہ بھارتی میڈیا نے ہمیشہ ہی ایسے
منفی رویے کا مظاہرہ کیا ہے اور بھارت کو ایک جنگی جنون میں مبتلا کر رکھا
ہے ۔ بدقسمتی سے بھارتی میڈیا کے اس رویے نے دونوں ممالک کے درمیان کسی بھی
قسم کی مثبت بات چیت کو آگے بڑھنے نہیں دیا ۔
اگرچہ امریکہ کی جانب سے یہ ثالثی کی پیشکش کوئی نئی نہیں ہے ماضی میں
امریکہ سمیت کئی ممالک یہ پیشکش کر چکے ہیں جنہیں بھارت ہمیشہ سے مسترد
کرتے آیا ہے لیکن امریکی صدر کا یہ انکشاف کہ مودی نے بھی اسی خواہش کا
اظہار کیا ہے کافی مثبت پیشرفت ہے ۔ ماضی میں ایران ، سعودی عرب، ترکی ،
روس، چین ، امریکہ ،ناروے ،او آئی سی ، یورپی یونین اور اقوام متحد ہ کی
جانب سے ثالثی کی پیشکش کی جا چکی ہیں ۔ یہاں یہ ذکر کرنا بھی ضروری ہے کہ
جون 2017میں بھارتی وزیر اعظم نریندرا مودی اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے
درمیان ملاقات ہوئی جس کے بعد اعلامیہ جاری کیا گیا اگر اس اعلامیہ کو پڑھا
جائے توبڑا واضح نظر آتا ہے کہ عملی طور پر امریکہ نے اس سے قبل کی گئی
ثالثی کی پیشکش واپس لے لی تھی۔ اس ملاقات میں پاکستان کی سرزمین پر دہشت
گردوں کی پناہ گاہوں کا الزام لگایا گیا تھا ۔اسی ملاقات سے چند دن پہلے
امریکہ نے کشمیری حریت رہنما اور حزب المجاہدین کے سربراہ سید صلاح الدین
کو عالمی دہشت گرد قرار دیا تھاجس پر پاکستان نے شدید احتجاج بھی کیا تھا
جبکہ پاکستان سے ممبئی حملوں ، پٹھانکوٹ اور دیگر حملوں کے ذمہ داران کے
خلاف بھی کارروائی کرنے کا مطالبہ کیا تھا جس کا مطلب تھا کہ وہ پاکستان کو
اس کا ذمہ دار سمجھتے ہیں ۔ تین سال قبل ایک ایسی ہی ثالثی کی پیشکش یورپی
یونین کی جانب سے پیش کی گئی تھی جس میں یہ اعتراف بھی شامل تھا کہ بھارت
کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں کر رہا ہے ۔ ایران کی جانب سے ثالثی
کا اظہار کرتے ہوئے کہا گیا تھا کہ پاک بھارت کشیدگی خطے کے دیگر ممالک پر
بھی اثر انداز ہوتی ہے یہی وجہ ہے کہ ایران اس مسئلہ کا حل چاہتا ہے جو
دونوں ممالک کے درمیان تنازعہ کی بنیادی وجہ ہے ۔ترکی صدرجب طیب اردوان کی
جانب سے مئی 2017میں دورہ بھارت کے دوران ثالثی کی پیشکش کو بھارت نیاسے
دوطرفہ اور کشمیر کو اپنا اٹوٹ انگ کہہ کر مسترد کر دیا تھا ۔
ستر سال سے زائد عرصہ ہو چکا ہے کہ مسئلہ کشمیر اقوام متحدہ کے ایجنڈے پر
موجود ہے ۔ اس تنازعہ کی موجودگی میں جہاں دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی
مسلسل بڑھتی جارہی ہے وہاں کشمیر جنت نظیر بھارتی فوج کی ظلم و بربریت کا
شکار بن چکا ہے ۔کشمیری مسلمان آئے روز بھارتی جبرو استبداد کا مقابلہ کر
رہے ہیں اور آئے روز نوجوان اپنی جانیں قربان کر رہے ہیں ۔کیمیائی ہتھیاروں
کا استعمال ، اجتماعی قبروں کا وبال اور ظلم و تشد د کا ہر وہ حربہ جو
آزمایا جا سکتا تھا وہ بھارت نے آزمایا ، سڑکوں ، تعلیم ، صحت اور روزگار
کا لالچ دیا لیکن اس کے باجود کشمیری آزادی کے علاوہ کسی دوسرے آپشن پر
راضی ہونے کے لیے تیار نظر نہیں آتے ۔ لائن آف کنٹرول پر آئے دن جھڑپوں میں
شہریوں کی ہلاکتوں کے باعث خطے میں ایک نئی جنگ ہونے کا خدشہ رہتا ہے ۔
ایسے میں امریکی صدر کی یہ پیشکش یقینا خطے میں امن کی جانب ایک بڑا مثبت
قدم ہے اور اس میں بھارتی وزیراعظم کی خواہش شامل ہونے سے اسے عملی جامہ
پہنایا جا سکتا ہے ۔البتہ بھارت میں جن عناصر کی وجہ سے مودی برسراقتدار
ہیں وہ شاید مودی سرکار کو کسی طرح بھی اس طرف جانے نہیں دیں گے ۔ بھارتی
جنتا پارٹی دراصل انتہا پسند ہندو تنظیموں کا ایک جتھا ہے جنہوں نے اپنے
انتخابات پاکستان مخالف ، اسلام ومسلمان مٹاؤ اور اکھنڈ بھارت کی بنیاد پر
لڑا اور کامیابی حاصل کی ۔ بھارتی حکومت ان انتہا پسند جتھوں کے ہاتھوں
یرغمال بن چکی ہے ۔ امریکہ سمیت دیگر عالمی قوتوں اور عالمی اداروں کو
بھارتی ریاست پر زور ڈالنا چاہیے اور مسئلہ کشمیر کو کشمیریوں کی امنگوں و
آرزؤوں اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل کرنے کیلیے اپنا کردار
ادا کرنا چاہیے ورنہ افغانستان میں امن کے باوجود ایک نئی خوفناک ایٹمی جنگ
کا خدشہ برقرار رہے گا ۔
|