تبدیلی یا تبدیلی کی تبدیلی؟

عوام نے 25 جولائی 2018 کو قائم ہونے والی موجودہ سیاسی حکومت کو اپنانے سے انکار کردیا ہے۔ آپ ہی بتائیں کیا ایسا نہیں ہے کہ حکومت اپوزیشن کے جلسوں میں ایسا رویہ اپنا کر ملک کو جمہوری اور فکری ارتقا کی بجائےفسطائیت کے راستے پر ڈال رہی ہے جو اس وقت جمہوری اقتدار پر ایک سوالیہ نشان بن کر کھڑا ہے۔ اس وقت  حکومت مکمل طور پر خوف زدہ ہے اور عمران خان جس نے لمبے ترین دھرنے کو جمہوری حق قرار دیا تھا۔ وہ آج وزیر عظم کی کرسی پر بیٹھ کر آزادئ رائے کی قدر کو مجروح کر رہا ہے۔ یاد رکھو! جب ملک میں معاشی ظلم کا سلسلہ طویل ہو جائے اور اداروں کی ذمہ داری کو متنازع بنا دیا جائے تو اپوزیشن کا حق ہے کہ وہ عوام کی آواز بنے اور عوام کی قدروں کی حفاظت کرتے ہوئے ان کے ہمراہ سڑکوں پر نکلے اور عوام کو تحفظ دلوائیں۔ جس معاشرے میں عوامی تحفظ موجود ہوگا وہ معاشرہ ہی مہذہب کہلائے گا۔ پی ٹی آئی اس وقت اختلاف رائے رکھنے والی تمام سیاسی جماعتوں کو بری طرح سے کچل رہی ہے اور کروڑوں کی تعداد میں عوام جو عمران خان سے اختلاف رکھے ہوئے ہے اور شریف یا بھٹو خاندان کو اپنا رہنما مانتی ہے ان کے جذبات کی وزیر اعظم کی نظر میں کوئی وقعت نہیں ہے۔

اس وقت صورتحال یہ ہے کہ اپوزیشن کو جلسوں کی اجازت نہیں دی جا رہی بلکہ ان کی راہوں میں رکاوٹیں حائل کی جا رہی ہیں۔عمران خان ویسے تو ہر چیز سے بے خوفی کا اظہار کرتا ہے مگر فیصل آباد کے جلسے کو نشر کرنے کے حوالے سے میڈیا پر پابندی اس کے خوف کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ کل تک یہ حکومت سول نافرمانی کو اپنا جمہوری حق سمجھتی تھی مگر آج اس سے اس قدر خوف زدہ ہے کہ نون لیگ کے کارکنان کو جعلی مقدمات میں گرفتار کروا رہی ہے۔ میرا خیال ہے اگر ملک میں جمہوری روایات، سیاسی و سماجی ارتقا، میڈیا کی آزادی کا حق اس قدر مجروح کیا جائے تو خاموش بیٹھنا بہت بڑا جرم ہوگا۔

ایک فیسبک پوسٹ سے پتہ چلا ہے کہ نون لیگی کارکنان کی گرفتاریوں کا عمل رات 24 جولائی سے زور پکڑ چکا ہے اور بہت سارے کارکن سوشل میڈیا پر رات سے ہی احتجاج کرتے نظر آ رہے ہیں۔ کیا آپ اس مقدمے کو درست مانتے ہیں؟ اگر آج کے روز اپوزیشن کی صف میں کھڑی پاکستانی عوام مختلف شہروں میں اپنے اپنے گھروں سے نکل کر جلسہ گاہوں میں شریک ہوتی ہے تو یہ ایک واضح اعلان ہو گا کہ عوام نے 25 جولائی 2018 کو قائم ہونے والی موجودہ سیاسی حکومت کو اپنانے سے انکار کردیا ہے۔ اس صورتحال میں احتجاج اس وقت اپوزیشن کا جمہوری حق ہے جب عوام پر مہنگائی کا طوفان برپا کر دیا گیا ہو۔ کچھ دن پہلے ٹی وی پر دکھائی گئی رپورٹ کے مطابق 24 مئی 2017 کو کے ایس ای 52478 پوائنٹس پر بند ہوئی تھی اور اب اس میں تیس ہزار پوائنٹس کی کمی آچکی ہے۔ دیکھا جائے تو معیشت کے باب میں کوئی ایک نشانی ایسی نہیں جو کسی لحاظ سے بہتری کی خبر دیتی ہو۔ براہ راست سرمایہ کاری میں بھی اس وقت 52 فیصد کمی آچکی ہے۔ آپ ہی بتائیں کیا ایسا نہیں ہے کہ حکومت اپوزیشن کے جلسوں میں ایسا رویہ اپنا کر ملک کو جمہوری اور فکری ارتقا کی بجائےفسطائیت کے راستے پر ڈال رہی ہے جو اس وقت جمہوری اقتدار پر ایک سوالیہ نشان بن کر کھڑا ہے۔ اس وقت حکومت مکمل طور پر خوف زدہ ہے اور عمران خان جس نے لمبے ترین دھرنے کو جمہوری حق قرار دیا تھا۔ وہ آج وزیر عظم کی کرسی پر بیٹھ کر آزادئ رائے کی قدر کو مجروح کر رہا ہے۔ یاد رکھو! جب ملک میں معاشی ظلم کا سلسلہ طویل ہو جائے اور اداروں کی ذمہ داری کو متنازع بنا دیا جائے تو اپوزیشن کا حق ہے کہ وہ عوام کی آواز بنے اور عوام کی قدروں کی حفاظت کرتے ہوئے ان کے ہمراہ سڑکوں پر نکلے اور عوام کو تحفظ دلوائیں۔ جس معاشرے میں عوامی تحفظ موجود ہوگا وہ معاشرہ ہی مہذہب کہلائے گا۔ پی ٹی آئی اس وقت اختلاف رائے رکھنے والی تمام سیاسی جماعتوں کو بری طرح سے کچل رہی ہے اور کروڑوں کی تعداد میں عوام جو عمران خان سے اختلاف رکھے ہوئے ہے اور شریف یا بھٹو خاندان کو اپنا رہنما مانتی ہے ان کے جذبات کی وزیر اعظم کی نظر میں کوئی وقعت نہیں ہے۔

اس وقت صورتحال یہ ہے کہ اپوزیشن کو جلسوں کی اجازت نہیں دی جا رہی بلکہ ان کی راہوں میں رکاوٹیں حائل کی جا رہی ہیں۔ مریم نواز نے منڈی بہاوالدین میں جلسے کا سوچا تو پنڈال میں پانی چھوڑ دیا گیا پھر جب فیصل آباد میں جلسہ ہوا تو وہاں ایم پی او 16 نافذ کر دی گئی اور تو اور نون لیگی ورکرز کی گرفتاریاں عمل میں لائی گئیں۔ عمران خان ویسے تو ہر چیز سے بے خوفی کا اظہار کرتا ہے مگر فیصل آباد کے جلسے کو نشر کرنے کے حوالے سے میڈیا پر پابندی اس کے خوف کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ کل تک یہ حکومت سول نافرمانی کو اپنا جمہوری حق سمجھتی تھی مگر آج اس سے اس قدر خوف زدہ ہے کہ نون لیگ کے کارکنان کو جعلی مقدمات میں گرفتار کروا رہی ہے۔ میرا خیال ہے اگر ملک میں جمہوری روایات، سیاسی و سماجی ارتقا، میڈیا کی آزادی کا حق اس قدر مجروح کیا جائے تو خاموش بیٹھنا بہت بڑا جرم ہوگا۔ یہ دلیل اب اپنا وجود کھو چکی ہے کہ حکومت کو وقت دیا جائے۔ جو حکومت حزب اختلاف کو جینے کا حق دینے پر آمادہ نہ ہو وہ کس طرح اور وقت کا مطالبہ کرنے کی حق دار ہے۔ ان سب حالات میں مجھے لگتا ہے کہ اب عوام کو سمجھ لینا چاہیے کہ تبدیلی حکومت کی اس تبدیلی کو تبدیل کرنے کا وقت آ گیا ہے اور یہ ہمارا قومی فریضہ بھی بن چکا ہے۔ ملک میں آج سیاسی آزادی نام کی کوئی چیز موجود ہوتی تو میں حکومت کی وکالت ضرور کرتا کہ مشکوک کامیابی کے باوجود حکومت کو اپنا دورانیہ پورا کرنا چاہیے۔ لیکن اگر جبر کا یہی سلسلہ جاری رکھنا ہے تو تصادم کا راستہ کھلنے میں زیادہ دیر نہیں لگے گی۔
 

ارسلان صادق
About the Author: ارسلان صادق Read More Articles by ارسلان صادق: 2 Articles with 1650 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.