چوروں سے ہمدردی

25 جولائی کے یوم سیاہ اور ہماری مجموعی قومی سچ پر اپنے خیالات کا اظہار کرنا چاہتا ہوں

کل وزیراعظم پاکستان جناب عمران خان صاحب اپنا پہلا دورا امریکہ مکمل کر کے وطن واپس پہنچیں ہیں مجموعی طور پر اس دورے ایک کامیاب دورا کہا جا رہا ہے اور بعض مخالف حلقوں سے تنقید بھی ہو رہی ہے -

اگر دیکھا جائے تو یہ دورا امریکہ ہماری امیدوں سے زیادہ کامیاب رہا کھل کر بات کی گئی کشمیر افغانستان دھشتگردی اور جہادی تنظیموں تک ہر موضوع پر ایک طویل ترین پریس کانفرنس ہوئی کھل کر سوال ہوے اور کھل کر جوابات دیئے گئے کشمیر پر ثالثی کے ڈونلڈ ٹرمپ کے بیان اور یہ کہنا کہ وزیراعظم مودی بھی اس خواہش کا اظہار کر چکے ہیں سے انڈیا کے ایوانوں میں بھونچال پیدا کر دیا ہے وہ نا اقرار کر سکتے ہیں نا انکار اگر انکار کرتے ہیں تو امریکی سفیر کو اور اپنا احتجاج ریکارڈ کروائیں لیکن وہ ایسا نہیں کر سکتے کیونکہ مودی سرکار نے ایسی بات کی ہو گی امریکی تو ایسی باتوں کا ریکارڈ رکھتے ہیں دوسری طرف امریکہ کو بھی اندازہ ہو گیا ہے کہ پاکستان کی مدد کے بغیر افغانستان سے نکلنا اور وہاں دیرپا امن قائم کرنا ناممکن ہے یہاں سے بھی انڈیا کو نکال دیا گیا اور اب چین روس امریکہ اور پاکستان ان مذاکرات کا حصہ ہیں انڈیا نے افغانستان میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کی ہوئی ہے وہ بھی ڈوبتی نظر آتی ہے اور سفارتی محاذ پر یہ پاکستان کی بہت بڑی کامیابی تصور کی جا رہی ہے شکیل آفریدی کی رہائی کے بارے میں سوال ہوا جسے عمران خان نے عافیہ صدیقی کی رہائی سے مشروط کر دیا اور یہ سب ایک جرات مند لیڈر ہی کر سکتا ہے ۔

25 جولائی کو عمران خان کی حکومت کا ایک سال پورا ہوگیا ہے معاشی استحکام تو نہیں آیا لیکن سفارتی محاذ پر اس حکومت کو بیشمار کامیابیاں ملی ہیں ایران کے ساتھ تعلقات میں بہتری آئی ہے ترکی سعودی عرب یو اے ای انڈونیشیا قطر چین اور روس کے ساتھ تعلقات میں بہت بہتری آئی ہے دوسری طرف اپوزیشن پارٹیاں یوم سیاہ منا رہی ہیں جو کہ ایک فلاپ شو ثابت ہوا وہ اس طرح عوام کو سڑکوں پے لانے میں ناکام رہے زیادہ تر وہ لوگ نکلے جن کے ذاتی مفادات ان پارٹیوں سے وابستہ ہیں وہ نوکریوں کی شکل میں ہوں یا ٹھیکوں یا اور مہربانیوں کی شکل، میں کوئی جوش و خروش نظر نہیں آیا تمام نام نہاد لیڈران کے منہ لٹکے ہوئے نظر آئے مولانا فضل الرحمن پیش پیش نظر آئے شاید اس لئے کہ وہ اپنے مدرسوں سے کافی تعداد میں طالب علم لے کر آئے جن میں زیادہ تعداد نا بالغوں کی تھی یاد رہے یہ وہی مولانا ہیں کہ جب عافیہ صدیقی کو امریکہ کے حوالے کیا گیا تو ان کی پارلیمنٹ میں 78 نشستیں تھیں انھیں موصوف کے دور میں لال مسجد میں آپریشن ہوا لیکن موصوف کا کوئی بیان سامنے نہیں آیا تھا کیونکہ موصوف حکومت کے مزے لوٹ رہے تھے آج یوم سیاہ منا رہے ہیں کیونکہ حکومت میں نہیں ہیں مریم صفدر اور بلاول زرداری تو ابا اور ان کی لوٹی دولت بچانے نکلے ہیں لیکن مولانا، اسفندیار، شیرپاؤ اور اچکزئی صاحبان اپنی ہار کا ماتم کرنے نکلے ہیں یہ وہ لوگ ہیں جنھیں اقتدار سے باہر رہنے کی عادت نہیں دوسرا یہ کہ احتساب کا عمل جوں جوں آگے بڑھ رہا ہے انھیں قانون کا پھندا اپنے گلوں میں محسوس ہونا شروع ہو گیا ہے سو ان کی حالت ایک ڈوبتی کشتی کے مسافروں جیسی ہو گئی ہے۔ چیف جسٹس صاحب نے ان کو سسیلین مافیا کا خطاب دیا تھا وہ جج ملک ارشد کے وڈیو سکینڈل کی صورت میں درست ثابت ہوا پتہ نہیں اور کس کس اہم شخصیات کی وڈیوز ان کے پاس ہیں اور یہ انھیں کب اور کس مقصد کے لئے استعمال کرتے رہے ہیں لیکن بےشرمی اور ڈھٹائی میں ان کا کوئی ثانی نہیں آج بھی ڈھٹائی سے یوم سیاہ منا رہے ہیں لیکن شکست ان کے چہروں پر عیاں ہے الیکٹرانکس میڈیا اور سوشل میڈیا نے عوام کو کافی باشعور کر دیا ہے ان کو اپنی سیاسی موت سامنے نظر آ رہی ہے یہ بہت ہاتھ پیر مارینگے لیکن پہلی بار ان کا سامنا کسی مرد کے بچے سے ہوا ہے جس نے ہار ماننا سیکھا ہی نہیں جو نا جھکتا ہے نا بکتا ہے اس نے تمام چوروں کو ایک پلیٹ فارم پر لا کر اکٹھا کر دیا ہے لیکن یہ مافیا بہت مضبوط ہے ابھی تک تو ان پر سعودی ماڈل استعمال کیا جا رہا ہے کہ پیسے دو اور دفع ہو جاؤ لیکن وہ اتنا کامیاب ہوتا نظر نہیں آ رہا میرا خیال ہے کہ اب چائنا ماڈل اپنانے کا وقت آ گیا ہے ان کو گولی بھی انہی کے پیسوں سے خرید کر ماری جائے تو دیکھئے گا کیسے کرپشن اس ملک سے غائب ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمارے ملک کا حامی و ناصر ہو۔
 

Shahid Noor
About the Author: Shahid Noor Read More Articles by Shahid Noor: 2 Articles with 1492 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.