عمران خان کے دورہ امریکہ کے موقع پر صدرڈونالڈ ٹرمپ کا
پاک بھارت مسئلہ کشمیر بابت ثالثی کا کردار ادا کرنے کے بیان پر بھارت میں
کہرام مچ گیا۔کوئی ماننے کو تیار نہیں کہ مودی نے کشمیر مسئلہ پر امریکی
ثالثی کی خواہش کا اظہار کیا تھا۔بھارتی ایوانوں میں زبردست ہنگامہ آرائی
ہوئی۔بھارتی وزیر خارجہ ایس جے شنکر کے ٹرمپ بیان پر لاکھ صفائیاں اپوزیشن
کو مطمئن نہ کر سکیں ۔اس بیان پر تنازعہ بڑھتا جا رہا ہے ۔عمران خان نے جب
صدر ٹرمپ سے مسئلہ کشمیر کو حل کروانے میں مدد مانگی تو انہوں نے کشمیر
مسئلہ پر مصالحت کرنے کی حامی بھری تھی ،مگر انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ
وزیر اعظم نریندر مودی کی خواہش پر اس معاملہ میں مدد کروں گا۔ اب صدر ٹرمپ
نے نریندر مودی کی خواہش سب کے سامنے رکھ دی ،بھارت اس پر آگ بگولا ہو گیا
ہے ۔اس خواہش کو ملک غداری کہا جا رہا ہے ۔اب مودی اپنا منہ چھپائے پھر رہے
ہیں ۔انہیں سامنے آنے کی ضرورت ہے ۔اب اگر صدر ٹرمپ نے دنیا کے سامنے بات
کھول دی ہے تو ہمت دکھائیں ،یہ کوئی بری خواہش بھی نہیں ہے ۔یہ خطے اور
دونوں ملکوں کی عوام کی بدحالی ختم کرنے کے لئے ضروری ہے کہ کشمیر مسئلے کو
جلد حل کیا جائے۔
وادی جموں و کشمیر کی موجودہ جغرافیائی تقسیم کچھ یوں ہے کہ اس کا 55فیصد
علاقہ اور ستر فیصد آبادی بھارت کے تسلط میں ہے ۔پاکستان کے پاس 35فیصد ہے
،جبکہ چین کے پاس پندرہ فیصد علاقہ ہے ۔جموں و کشمیر کی وادی،لداخ اور
سیاچن گلیشیرز کے حصے بھارت کے انتظامی کنٹرول میں ہیں ،پاکستان کے پاس
آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کے علاقے ہیں ،جبکہ چین کے زیر قبضہ علاقہ
اکثر غیر آباد ہے ۔کشمیری ایک لمحہ کے لئے بھی بھارت سے الحاق نہیں چاہتے
،انہیں اپنا آزاد ملک چاہیے ۔حالانکہ کثرت آبادی مسلمان ہونے کی وجہ سے
کشمیر پاکستان میں شامل ہونا چاہیے لیکن پاکستان کا ہمیشہ سے مؤقف رہا ہے
کہ کشمیریوں کو حق حاصل ہے کہ وہ اپنی خواہش کے مطابق فیصلہ کریں۔وہ جو
فیصلہ کریں گے وہی اصل مسئلہ کا حل ہوگا۔جب تک تینوں فریق یعنی پاکستان
،بھارت اور کشمیری لیڈر شپ مذاکرات کی میز پر نیک نیتی سے نہیں بیٹھیں گے
۔اس مسئلہ کا حل نا ممکن ہے ۔امریکہ نے ہمیشہ کشمیر معاملے پر دوغلی پالیسی
اپنائی ،بیانات کی حد تک پاکستان کی حمایت کرتا نظر آتا ہے ،مگرحقیقت میں
تمام تر ہمدردیاں بھارت کے ساتھ ہوتی ہیں ۔اکتوبر 2008میں سابق صدر امریکہ
بارک اوباما نے مسئلہ کشمیر حل کرنے کے لئے اپنی خدمات پیش کیں ۔لیکن کیا
ہوا ،امریکی حکام نے اوباما کی کوشش کو احمقانہ قرار دیا۔پاکستان کی
حکومتوں کو ہمیشہ اس مسئلے پر پسپائی اختیار کرنا پڑی ہے ۔آج بھی نہتے
کشمیری اپنی آزادی کی جدوجہد کو جاری رکھے ہوئے ہیں اور اپنی زندگیوں کے
نذرانے پیش کر رہے ہیں۔حقوق انسانیت کی ٹھیکیدار دنیا خاموش تماشائی بنی
بیٹھی ہے ۔
مسئلہ کشمیر کے حل کا فیصلہ میاں نواز شریف اور اٹل واجپائی نے کر لیا تھا
۔پرویز مشرف دور میں مسئلہ کشمیر حل ہونے کے قریب تھا،مگر بھارت کی فوج
پیچھے ہٹ گئی ۔اب اسی تسلسل میں بھارتی وزیر اعظم مودی کی خواہش ہے کہ
مسئلہ کشمیر ان کے ہاتھوں حل ہو جائے تو یہ خواہش جرم نہیں ہے ۔ویسے بھارت
اس بیان کو لے کر جس قدر واہ ویلا مچا رہا ہے،وہ حیران کن ہے ۔ ٹرمپ دنیا
کی سپر پاور کے صدر ہیں۔وہ بیان دیں گے تو حقائق پر مبنی ہو گا،وہ اتنے
غائب دماغ تو نہیں ہیں کہ دو ملکوں کے درمیان پائے جانے والے کئی دہائیوں
پرانے مسئلہ پر یوں ہی بیان دے دیں ۔لیکن جب اس موضوع پر تنازعہ پیدا ہوا
تو امریکہ نے ہاتھ اٹھا لیے اور صاف کہہ دیا کہ کشمیر تنازعہ میں کوئی
مصالحت کی پیشکش نہیں کی گئی ۔پاک بھارت معاملہ ہے دونوں ممالک از خود ہی
اس تنازعہ کو حل کرنے میں اپنی ذمہ داری ادا کریں۔
دونوں جانب کی عوام اس ایک مسئلہ کی وجہ سے مسائل اور مشکلات کا شکار
ہیں۔مودی حکومت نے ہمیشہ پاکستان کے ساتھ کشیدگی کو ہوا دی ہے ،بلکہ اپنی
انتخابی مہم کو پاکستان دشمنی کے ایجنڈے پر رکھا ہے ۔اس سے دونوں ممالک کے
درمیان گشیدگی میں اضافہ ہوا ہے ۔کشمیری عوام تین نسلوں سے آزادی کے لئے
قربانیاں دے رہی ہے ۔لیکن بھارت ستر برس سے کوششوں میں ہے کہ کسی طرح کشمیر
کو بھارت میں انضمام کر لیا جائے ۔اب جبکہ اسے یقین ہو چلا ہے کہ کشمیری
کسی صورت اپنی آزادی سے کم پر نہیں مانیں گے تو بھارت کی پالیسی میں انتہا
پسند مودی سرکار نے تبدیلی لانے کا سوچ لیا ہے ۔جس کے تحت کشمیر کو بزور
طاقت بھارت میں شامل کرنے کی منصوبہ بندی کی جا رہی ہے۔حالانکہ پوری وادی
کشمیر بین القوامی طور پر تسلیم کردہ ایک متنازعہ علاقہ ہے ۔اقوام متحدہ نے
اس کا حل استصواب رائے سے طے کرنا قرار دیا ہے ۔مسئلہ کشمیر کا تعلق پاک
بھارت سے زیادہ خود کشمیریوں سے ہے،وہی فیصلہ کرنے کا حق رکھتے ہیں ۔انہوں
نے باربار فیصلہ سنایا ہے کہ وہ ایک آزاد خودمختار ریاست چاہتے ہیں
۔ہندوستان اپنی آٹھ لاکھ فوجیوں کو ان پر مسلط کر کے بھی ان کی رائے نہیں
بدل سکا ہے ۔مسئلہ کشمیر کا حل صرف اور صرف مذاکرات میں ہے ۔
کچھ غیر سنجیدہ حلقے یہ تاثر دے رہے ہیں کہ عمران خان اور ڈونالڈ ٹرمپ ایک
جیسی شخصیت کے مالک ہیں ،اس لئے ان میں ذہنی ہم آہنگی زیادہ ہے ۔اس کے ساتھ
ساتھ فوجی قیادت بھی اس دورے میں شانہ بشانہ ہے ،اس لئے مسئلہ کشمیر کا حل
نکل سکتا ہے ۔کچھ کو امید ہے کہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی واپسی بھی ہو سکتی ہے
۔لیکن سنجیدہ حلقے با خوبی جانتے ہیں کہ عمران خان حکومت کو مسئلہ کشمیر
اور ڈاکٹر عافیہ صدیقی سے کوئی دلچسپی نہیں ہے ۔ان کی تمام تر توجہ قرضوں
کے حصول پر ہے ۔عمران خان حکومت کے امریکی دورے کا اصل مقصدہے کہ وہ کیسے
افغانستان میں امریکی مفادات کے تحفظ کے لئے اپنی خدمات دے سکتے ہیں۔عمران
خان اپنے ملک کے اندرونی مسائل میں بری طرح فیل ہو چکے ہیں ،وہ افغانستان
کے مسائل پر کیا کارکردگی دکھا سکتے ہیں ․․؟
|