کشمیر اور ممکنہ حل

کشمیر وہ مستقل ظلم وبربریت کا خطہ ہے کہ جس کا نام سن کر ہر انسان کے ذہن میں آہ و فغاں کا منظر نمودار ہو جاتا ہے، یہ قوم اس مستقل جدوجھد کا استعارہ بن چکی ہے کہ جسے بطور محاورہ استعمال کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں

جب تک مسئلہ کشمیر پر ہم غیر جانبدار ہو کر نہیں سوچیں گے، یہ مسئلہ جوں کے توں لٹکا رہے گا اور شاید تاقیامت ہم کشمیر کی آزادی کے منتظر رہیں، لہٰذا سب سے پہلے ہمیں کشمیریوں کی آزادی کا پیمانہ استوار کرنا ہوگا اور یقیناً کشمیریوں کی زندگی سے زیادہ موزوں پیمانہ ہمارے پاس نہیں ہوگا

اس دلیل کے تحت ہمیں تصویر کے دونوں اطراف کو کھلے دل سے دیکھنا ہوگا اور زمینی حقائق کے مطابق مستقبل کا فیصلہ کرنا ہوگا، مجھے اپنے بچپن کی افسردہ سازوں کیساتھ ٹی وی پر چلنے والی وہ تصاویر آج بھی یاد ہیں جس میں بچے اپنی ماوؤں سے بچھڑے رو رہے ہیں، خواتین اپنے ٹھوٹے ہوئے سر لے کر اپنے لخت جگر کی طرف دوڑ رہی ہو، نوجوان ہاتھوں میں پتھر لے کر فوج کے مظالم کا ڈٹ کر مقابلہ کررہے ہیں

اور جب میں آج کے منظرنامے پر نظریں دوڑاتا ہوں تو وہی تصاویر وہی ٹھوٹے ہوئے سر اور وہی خون سے لبریز کشمیری دیکھتا ہوں یعنی ان ستر سالوں میں کچھ نہیں بدلا اور مجھے ہر چیز سے نفرت ہونے لگتی ہے اور بس محض کشمیریوں کی تحفظ کے بارے میں سوچھتا ہوں

مگر میں پھر سوچھتا ہوں یہ مسلہ کشمیر نہیں بلکہ مسلہ جنت نظیر ہے، اس خطے پر نا صرف بھارت اور پاکستان کے تحفظات ہیں بلکہ چین بھی اس میں سٹیک ہولڈر ہے جس میں متنازعہ علاقے تینوں ممالک کے پاس ہیں، ریاست کشمیر کے کل رقبے کا زیادہ حصہ بھارت کے قبضے میں ہے جو تقریباً ایک لاکھ مربع کلومیٹر تک ہے، پاکستان کیساتھ تقریباً 85 ہزار مربع کلومیٹر جبکہ چین کیساتھ 55 ہزار مربع کلومیٹر کے لگ بھگ کا علاقہ ہے جسے اگر ہم دیکھیں تو یہ ایک گھمبیر مسلہ بنتا ہے جس میں تینوں ممالک اپنے قبضہ شدہ زمین کسی صورت چھوڑنے کو تیار نہیں

ایک طرف سے اگر یہ نعرہ لگتا ہے کہ کشمیر بنے گا پاکستان تو دوسری طرف یہ نعرہ بھی بہت زور سے لگتا ہے کہ کشمیر بنے گا خودمختار اور بلا شبہ یہ نعرہ بھی کسی بنیاد کے تحت لگایا جاتا ہے کچھ وجوہات ہوں گی جس کے تحت اس نعرے کے حامی لوگ کشمیر کی مکمل خودمختاری کا نعرہ بلند کرتے ہیں

ہمیں اب اپنی پالیسی اور ماضی میں کی گئی غلطیوں پر سنجیدگی سے سوچنا ہوگا، پاکستان کے ارباب اختیار اگر ایک طرف سے مقبوضہ کشمیر میں بلا واسطہ طور پر محاذ کھول دیتے ہیں، بھارتی فوجیوں کو مار کر عوام کے خلاف غیر دانستہ طور پر اشتعال دلاتے ہیں اور اسی اشتعال کی صورت میں معصوم کشمیری جو بلاشبہ اپنی آزادی کیلئے جدوجھد کررہے ہیں مگر ہر روز کشمیر کی مٹی جب خون سے لال ہوتی ہے اور کشمیر کی ماوؤں، بہنوں اور بیٹیوں کی عصمت دری سے پورے عالم اسلام کا سر جھکتا ہے تو یہ نقصان کس کا ہوتا ہے؟ یقیناً ہر کوئی جانتا ہے کہ نقصان پھر بھی کشمیریوں کا ہی ہے اور شاید ہی کوئی ایسا گھر ابھی بچا ہو جس سے کسی شہید کا جنازہ نہ نکل گیا ہو

ان حالات میں ہم اگر اقوام متحدہ کی قرارداد کے مطابق ریفرنڈم کا مطالبہ کرتے ہیں تو ہمارا مطالبہ کھوکھلا سا نظر آتا ہے کیونکہ اپنی عوام کو تو ہم دھوکے میں رکھ سکیں گے مگر اقوام متحدہ اور بین الاقوامی ریاستوں کی ہمدردی حاصل نہیں کر پاتے وجہ یہ ہے کہ ہمیں دوغلی پالیسی پر نظرثانی کرنی ہوگی اور کشمیر کو اپنی سفارتی پالیسی کے تحت ہر ملک میں اجاگر کرنا ہوگا مگر ہمیں کشمیر کے اندر محاذ کو محض اخلاقی طور پر سپورٹ کرنا ہوگا اور اس سے بڑھ کر کشمیر کی زمین اور وسائل سے زیادہ ان کی زندگیوں اور تحفظ کو اپنی ترجیح بنانی ہوگی وگرنہ اور ستّر سال بھی گزر جائیں گے کچھ نہیں ہوگا مگر کشمیریوں کا خون اسی تسلسل سے بہہ رہا ہوگا

ہم اگر محض انسانیت کیلئے سوچیں، کشمیریوں کی بقا اور زندگی کے بارے میں سوچیں تو ہمیں محض اور صرف محض ایک ہی ضرورت محسوس ہوتی اور وہ ہے امن! مگر امن کا قیام کیسے ممکن ہے تو بہت ہی سادہ سا جواب ہے کہ تم جب مجھے دل سے سنو گے اور میں تم کو دل سے سنوں گا تو یقیناً بات کی سمجھ آئے گی اور جب سمجھ آجاتی ہے تو پھر بات ممکنہ حل کی جانب بھی بڑھتی ہے

حال ہی میں پاکستان کے مایا ناز کھلاڑی شاہد آفریدی کا بیان آیا تھا کہ ہمیں انسانیت کو آگے رکھ کر کشمیر کا مسلہ دیکھنا ہوگا جس پر میڈیا میں بڑا شور مچا تھا مگر یہ صرف ایک شاہد آفریدی کی آواز نہیں بلکہ کئی شخصیات کی آوازیں ہیں اور وقت کیساتھ ساتھ یہ آواز مضبوط ہوتی جائے گی کیونکہ ہم مزید کشمیریوں کے خون کو بہتے ہوئے نہیں دیکھ سکتے ہمیں اپنی انا پر کمپرومائز کرنا ہوگا اور کشمیر میں امن و استحکام لانے کیلئے ٹھوس بنیادوں پر سوچنا ہوگا

کالم نگار مظہر چودھری نے اپنے آرٹیکل میں کشمیر پر غیر جانبدارانہ طور پر کچھ حل تجویز دیے ہیں جس میں سب سے پہلا حل رائے شماری یا ریفرنڈم کا ہے مگر چونکہ یہ حل تو اقوام متحدہ کیطرف سے بھی کئی دہائیوں سے تجوز شدہ ہے اور آسان بھی ہے مگر دونوں اطراف سے غیر لچکدار رویے نے سوائے میڈیا کے بیان کے علاوہ کوئی کردار ادا نہیں کیا ہے

دوسرا حل یہ ہے کہ چونکہ کشمیر میں محض مسلمان آباد نہیں بلکہ کافی تعداد میں ہندو اور بدھسٹ بھی موجود ہیں اور اس تناسب کے لحاظ سے کشمیر کے مسلمان اکثریت والے علاقے جس میں کشمیر کا مکمل علاقہ آتا ہے پاکستان کیساتھ اور ہندو اور بدھسٹ کے اکثریت والے علاقے جس میں جموں اور لداخ کو انڈیا کا مستقل حصہ قرار دیا جائے

اور سب سے آسان حل یہ ہے کہ ہم کشمیریوں کو ہی اس خطے کا مختار کل سمجھیں، تمام سیاسی طاقت ان کے ہاتھوں میں ہو، اپنے فیصلے کا مکمل اختیار ان کے ہاتھوں میں دیا جائے، اس متنازعہ علاقے کو کسی خاص مدت تک اقوام متحدہ کے زیر کنٹرول رکھا جائے اور جب یہ ممکن نظر آئے کہ اب کشمیریوں سے ان کے مستقبل بارے پوچھا جائے کہ وہ اب کس کے ساتھ شامل ہونا چاہتے ہیں، پاکستان انڈیا یا خودمختار، تب ان کا فیصلہ ہی مستقبل کا تعین کرے گا مگر میرے خیال کے مطابق اپنے نظریے اور ترجیحات سے بڑھ کر کشمیریوں کی ترجیحات کے مطابق جب ہم سوچیں گے تو ضرور حل نظر آئے گا

میں کس کے ہاتھوں اپنا لہو تلاش کروں
تمام شہر والوں نے پہنے ہوئے ہیں دستانے
 

Javed Hussain Afridi
About the Author: Javed Hussain Afridi Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.