امریکا کی سخت دہمکیوں کے باوجودترکی کو روس نے ائیر
ڈیفنس سسٹم ایس 400کی کھیپ مال بردار جہازوں کے ذریعہ پہنچا دی ہے ۔ امریکا
اور ترکی کے درمیان روسی ائیر ڈیفنس سسٹم کی خریداری پر تنازع شدت اختیار
کرتا جارہاہے ۔ کھیپ وصولی سے قبل ہی امریکا نے ترکی پر اقتصادی پابندیوں
کے علاوہ ایف 35جنگی طیارے کی فراہمی روکنے کی دہمکی دی تھی لیکن ترکی نے
امریکا کی دہمکیوں کو نظر انداز کرتے ہوئے روس سے ائیر ڈیفنس سسٹم کا
معاہدہ بھی کیا اور روس نے ایس۔ 400کی کھیپ بھی ترکی پہنچا دی ۔روس کا
چوتھا کارگو جہاز دارالحکومت انقرہ کے نزدیک مرتد کے فضائی اڈے پر اترا۔ اس
سے ایک روز پہلے روسی فضائیہ کے اے این 124 ماڈل کے تین دیو ہیکل کارگو
جہازوں نے اسی اڈے پر ساز وسامان پہنچایا تھا۔ترکی ایس-400 کو اپنی مملکت
کے دفاع کے لئے ناگزیر سمجھتا ہے ۔ ترکی کا واضح موقف رہا ہے کہ شام و عراق
کے ساتھ اپنی جنوبی سرحد کو محفوظ بنانے کے لئے میزائل دفاعی سسٹم ایک
تزویراتی دفاعی ضرورت ہے۔ ترکی کا یہ بھی کہنا ہے کہ جب وہ روس کے ساتھ
ایس-400 سسٹم کی خریداری کا معاہدہ طے کر رہا تھا تو اُس وقت امریکا اور
یورپ نے ترکی کو مناسب متبادل پیش نہیں کیا تھا۔ لیکن امریکا نے ترکی موقف
کو مسترد کرتے ہوئے ایف ۔35طیاروں کاتربیتی پروگرام کو منسوخ کردیا ۔ پہلے
سے ترکی کو دیئے جانے والے طیاروں کے پرزے جات کی فراہمی بھی روک دی ۔ اب
امریکا اقتصادی پابندیوں کا اعلان کرنا چاہتا ہے ۔ا مریکا سمجھتا ہے کہ ایس
۔400 ائیرڈیفنس سسٹم کو چلانے کے لئے روس کو ایف35طیاروں تک مکمل رسائی
ممکن ہوجائے گی اور یہ امریکی دفاعی اسٹریجی کے لئے بہتر نہیں ہے ۔ عالمی
ذرائع ابلاغ کے مطابق امریکی صدر کی جانب سے رواں ہفتے میں ترکی کے خلاف
پابندیوں کے پیکج کا اعلان متوقع ہے امریکا پہلے ہی ترکی کو باور کراچکا
تھا کہ ایس 400ائیر ڈیفنس کی خریداری کو نہ روکا گیا تو اس پر امریکی
پابندیوں کا اطلاق کیا جائے گا ۔ غیر ملکی خبر رساں ٹرمپ انتظامیہ نے
امریکا کے دشمنوں کے انسداد سے متعلق ایکٹ کے تحت اقدامات کے تین مجموعوں
میں سے ایک مجموعے کا انتخاب کر لیا ہے تاہم اختیار کیے گئے مجموعے کی نشان
دہی نہیں کی گئی ہے۔اگر ترکی کی دفاعی صنعت کے حالیہ 15 سالوں پر نگاہ ڈالی
جائے تو اس وقت ترکی دفاعی پیداوار دینے والے پہلے 10 ممالک میں شامل
دکھائی دیتا ہے۔ ترکی نے اپنے قومی ٹینک Altay کو کسی بیرونی مدد کے بغیر
تیار کیا ہے اس کے علاوہ ایف۔35 جنگی طیاروں کے لئے ایک ارب ڈالر کی سرمایہ
کاری کرچکا ہے۔مقامی امکانات سے تیار کردہ ہیلی کاپٹر’ گیوک بے بھی تجرباتی
پروازوں کو جاری رکھے ہوئے ہیــ جو 2021تک پیداواری پوزیشن میں آجائے گا۔
15جولائی کو ترکی کے صدر طیب اردوغان کے خلاف بغاوت کے تین برس مکمل ہوئے ۔
روسی ائیر ڈیفنس سسٹم کے وصولی کے بعد امریکا ترکی کے خلاف پابندیوں کا
علان کرنا چاہتا تھا لیکن امریکی انتظامیہ کے ذرائع کے مطابق یہ اعلان پیر
15 جولائی کے بعد کیا جاسکتا ہے کیوں کہ اس روز ترکی کے صدر رجب طیب
ایردوآن کے خلاف 2016 میں انقلاب کی ناکام کوشش کے تین سال پورے ہو رہے
تھے۔امریکا خطے میں روسی دفاعی نظام کے حوالے اپنے تحفظات کے اظہار میں
موقف دیتا ہے کہ ترکی میں ایس400ائیر ڈیفنس سسٹم کو چلانے کے لئے روسی عملہ
موجود ہوگا جس بنا پر امریکا کے ایف 35طیاروں تک روسی رسائی کے علاوہ روس
کا خطے میں موجود ہونا امریکی مفادات کے لئے مناسب نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ
دونوں نیٹو اتحادیوں میں تلخی بڑھتی چلی گئی ، جس کے نتیجے میں شام کے
معاملے میں بھی امریکا کا بیانیہ تبدیل ہوا ۔ جو نیٹو ممالک کے وزرائے
خارجہ کے اجلاس میں سامنے آیا ۔ماہ اپریل2019 میں د ونوں ملکوں کے وزرائے
خارجہ کی ملاقات کے بعد امریکی محکمہ خارجہ کی جانب سے جاری بیان میں کہا
گیا تھا کہ ’ترکی کو شام میں کارروائی کرنے پر اس کے تباہ کن نتائج سے
خبردار کیا گیا ہے‘‘۔ تاہم ترکی امریکی دباؤ کو نظر انداز کررہا ہے ۔
کیونکہ عظیم مشرق وسطی میں امریکا کی بظاہر غیر واضح رہنے والی فوجی حکمت
عملی سے ممکنہ طور پر خطے کے خطرات میں اضافہ ہوسکتا ہے۔
واضح رہے کہ شام میں سات برس سے جاری جنگ میں اب تک کم ازکم 5 لاکھ افراد
لقمہ اجل بن گئے ہیں اور اس کے حل کے لیے اقوام متحدہ کی ماضی میں کی گئی
کئی کوششیں ناکام ہوچکی ہیں۔ ادلب میں گزشتہ دنوں اسد رجیم کی جانب سے
فضائی حملے کے بعد اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوٹیریس نے روس
اور ترکی سے اپیل کی کہ وہ’’ شام کے شمال مغربی علاقے ادلب میں صورت حال کو
بلا تاخیر مستحکم کریں‘‘۔انھوں نے اقوا م متحدہ میں صحافیوں سے گفتگو کرتے
ہوئے کہا ہے کہ’’مجھے ادلب میں لڑائی میں شدت پر گہری تشویش لاحق ہے اور
شام میں کرداروں کی تعداد میں اضافے کے بعد صورت حال خاص طور پر خطرناک
ہوگئی ہے‘‘۔ جلد ختم نہ ہونے والی جنگ میں بنیادی طور پر اس وجہ امریکا کا
جھکاؤ اسرائیل کی جانب اور روس کا شام کی طرف ہے۔ دو بڑی قوتوں نے شام کی
خانہ جنگی سے فائدہ اٹھایا اور جلد ختم ہونے والی جنگ میں ایرانی مداخلت کو
سنجیدہ نہیں لیا جس نے عراق میں اپنی بھرپور عسکری قوت کا مظاہرہ کیا تھا۔
مقدس مقامات کے تحفظ کے نام پر ایران نے شام میں زمینی جنگ کے لئے ہزاروں
جنگجو ؤں کی ملیشیا ء بنائی اور فضائی کمک کے لئے روس کے ساتھ بلاک بنایا۔
جس کے اثرات اب ا مریکا و ایران تنازعات کی صورت میں سامنے آرہے ہیں ۔ایران
گولان کی پہاڑیوں کی پہاڑیوں تک پہنچنا چاہتا ہے جس سے اسرائیل کو تشویش
لاحق ہے اور جرمنی کی چانسلر انجیلا میر کل نے بھی ایران کو خبردار کیا ہے
کہ وہ گولان کی پہاڑیوں کے قریب نہ آئے۔ شام میں اسرائیل کے ساتھ ایرانی
حمایت یافتہ جنگجوؤں کے خلاف جھڑپوں سے شام میں بیرونی مداخلت کی وجہ سے
مخدوش حالات کا سامنا ہے کیونکہ اسرائیلی فورسز نے جب شام سے اسرائیل پر
راکٹ حملہ کیا تھاتو اسرائیل نے شام میں ایرانی نفوذ پر اپنا شدید ردعمل
دیا کہ راکٹ حملہ اس بات کی دلیل ہے کہ ایران شام کو مورچہ بنانا چاہتا ہے،
جس سے اسرائیل اور علاقائی سلامتی کو خطرات لاحق ہیں۔
ترکی شام کی جنگ میں امریکی اتحاد کا حصہ بنا لیکن کرد علیحدگی پسندوں کو
امریکی حمایت کی وجہ سے ترک سرزمین کی تقسیم کو نا قابل قبول سمجھتا ہے۔
ترکی نے کرد علیحدگی پسندوں کے خلاف چہار جہت سے کاروائی کی جس پر صدر ٹرمپ
نے دھمکی دی کہ اگر ترکی نے شام میں سرگرم کُردملیشیا وائی پی جی کے خلاف
فوجی کارروائی کی تو اسے اقتصادی طور پر تباہ کر دیا جائے گا۔امریکا کا
موقف ہے کہ شام میں اسلامک اسٹیٹ کے خلاف وائی پی جی کو تعاون فراہم کرنا
ضروری ہے۔ تاہم دوسری جانب انقرہ حکومت وائی پی جی کو ملکی سلامتی کے لیے
ایک خطرہ سمجھتی ہے۔ یہ معاملات دونوں ممالک کے درمیان مفادات کے براہ راست
ٹکراؤ کا سبب بنا ۔ روس کا بھی ماننا ہے کہ شام کے مسئلہ کو حل کرنے کے لئے
ترکی کے ساتھ تمام پہلوؤں کا جائزہ لیتے ہوئے اس مسئلے کو حل کرنے کی کوشش
کے لیے مذاکرات کا سلسلہ جاری رہنا چاہے۔ روسی وزیر خارجہ سرگئی لاوروف نے
شامی بحران کے حل کے لیے شامی صدر بشارالاسد کو ان کے عہدے سے ہٹانے کی شرط
پیش کرنے والوں پر 'مذاکرات کی راہ میں روڑے اٹکانے' کی الزام تراشی سمجھتے
ہیں۔اٹلی میں خطاب کرنے والے لاوروف کا کہنا تھا کہ '' شام کے بحران کے حل
کے لیے جاری مذاکرات کو زائد عرصے سے ناقابل قبول شرائط کے ذریعے بلاک کیا
جا رہا ہے‘‘۔ امریکی فوج کے انخلا کے نتیجے میں ترکی، شامی قصبے منبج
کاکنٹرول چاہتا ہے۔ تاہم روسی ائیر ڈیفنس سسٹم کے حصول پر ترکی اور امریکا
میں تعلقات خراب ہو رہے ہیں۔ ترکی جنگجوتنظیم پی کے کے کی شام میں موجود
شاخوں کو اپنی بقا کی خاطر ختم کرنا چاہتے ہیں۔ جب مشرق وسطی پر نگاہ
دوڑائیں تو اس بات کا مشاہدہ ہوتا ہے کہ ملکی انتظامیہ عوام کی رضا مندی کی
بالکل ضرورت تک محسوس نہیں کرتی۔ یہ لوگ اپنے اقتدار کو اپنے عوام سے نہیں
بلکہ اہم پیمانے پر عالمی اداکاروں کے بل بوتے حاصل کرتے ہیں۔ یہ حکمران
چاہے واحدانہ طور پر ذمہ دار نہ بھی ہوں تو بھی موجودہ حالات میں مشرقِ
وسطی کے بعض ممالک کٹھن ترین دور سے گزر رہے ہیں۔ ان ممالک کے عوام اپنی
جانیں داؤ پر لگاتے اپنے اپنے وطنوں سے راہ فرار اختیار کرنے کے درپے
ہیں۔مشرق وسطی کے ممالک کی اکثریت ، اقدار اور اخلاقی امتیاز کو ایک طرف
چھوڑیں، یہ تمام تر اقدار کو اپنے عوام کے خلاف محض اپنی کرسی کو محفوظ
بنانے کے نام پر ملیہ میٹ کرنے اور کسی بھی قیمت پر نہ چھوڑنے کی کوششوں
میں رہتے ہیں۔
مشرق وسطیٰ کی صورتحال میں شام سے امریکی فوجیوں کے انخلا کے اعلان پر
تاحال عمل درآمد نہیں ہوا ہے ۔ اب امریکی نیٹو بلاک کے اہم حلیف ملک ترکی
کی جانب سے امریکی تعلقات میں سرد مہری کے بعد صورتحال مزید گھمبیر ہونے کے
خدشات بڑھ گئے ہیں ۔ عظیم مشرق وسطیٰ کی جنگ ابھی تک کسی منطقی انجام تک
نہیں پہنچ سکی ہے ان حالات میں کہ ترکی علیحدگی پسند گروپوں کے خلاف
نبرالزما ہے اور ان کرد گروپوں کو امریکا کی حمایت بھی حاصل ہے جس بنا پر
شام میں امن کی صورتحال مزید مخدوش ہوسکتی ہے۔ ترکی کرد ملیشیاؤں کے خلاف
فضائی حملے کررہا ہے جبکہ داعش کے خلاف امریکی فضائی حملوں سے شام میں جنگ
کے سائے ختم ہونے کے آثار نظر نہیں آرہے۔ اب امریکا کی جانب سے ترکی پر
اقتصادی پابندیوں کے بعد خطے میں سنجیدہ صورتحال کے سبب عراق و شام میں امن
کے قیام کی کوششوں کو نقصان پہنچنے کا احتمال رہے گا ۔ جو خطے میں جاری جنگ
کے خاتمے کے لئے نیک شگون ثابت نہیں ہوگا ۔ ترکی اپنی سرحدوں کی حفاظت کے
لئے اور علیحدگی پسندوں کے خلاف کسی بھی قسم کی کاروائی کے لئے کوئی لچک
دکھانے کو تیار نہیں ۔ اقتصادی پابندیوں کے بعد ترک و امریکا تعلقات کی
بحالی عالمی برداری کے لئے ایک بڑا چیلنج بننے والا ہے ۔ امریکا اس سے قبل
ایران ، چین ، شمالی کوریا ، سمیت کئی ممالک کے ساتھ مختلف مفاداتی جنگوں
میں الجھا ہوا ہے اب ترکی کے ساتھ نئے تنازعہ خطے کے لئے مثبت اقدام نہ
ہوگا۔
|