ریل حادثات اور نئی ٹرینیں‎

موجودہ دور میں جہاں ہر شخص زندگی کی دوڑ میں آگے جانے کی کوشش کرتا ہے۔ وہیں پر ہمارے ملک پاکستان میں بھی بہت سارے لوگ بغیر کسی خاص منصوبہ بندی کے اس دوڑ میں شامل ہونا چاہتے ہیں۔ جس میں خاص کر ہمارے سیاستدان، وزراء اور قانون ساز اداروں کے لوگ بھی شامل ہیں۔ اگر دیکھا جائے تو پاکستان کے ہر ادارے میں بیٹھے با اختیار لوگ بغیر کسی سوچے سمجھے اور بغیر کسی منصوبہ بندی کے نئے نئے پراجیکٹس تو شروع کرتے ہیں لیکن پہلے سے شروع کئے ہوئے پراجیکٹس اور منصوبے جو غلظ رخ اختیار کرچکے ہوتے ہیں، اس پر کوئی توجہ ہی نہیں دیتا ۔ بالکل اسی طرح زندگی کے اس جدید دور کی دوڑ میں ہمارے ملک کا ایک وزیر بھی بہت آگے آگے ہے۔میرا مطلب وزیر ریلوے اور ریل کے محکمے سے منسلک لوگ ہیں۔ ۲۵ جولائی ۲۰۱۸کے عام انتخابات کے بعد جب سے شیخ صاحب وزیر ریلوے بنے ہیں تب سے انہوں نے بغیر کسی منصوبہ بندی کے اور بغیر کسی قابل استعمال ٹریک، سگنلز، اور ٹریفکنگ کے ، نئی ٹرینیں چلانے کا ایک مقررہ ٹارگٹ رکھاتھا۔ بغیر کسی منصوبہ بندی مطلب کہ و ہی پرانی ٹریک، وہی پرانی بوگیز، وہی پرانے انجنوں کو ایک نئے نام سے چلانا۔ٍ

جب سے شیخ رشید وزیر ریلوے بنے ہوئے ہیں۔ تب سے لیکر اب تک انہوں نے۱۱ نئی ٹرینوں کا افتتاح کیا ہے۔ جس میں کچھ تو فائدے میں جبکہ زیادہ تر نقصان میں چل رہے ہیں۔ موجودہ ٹریفکنگ اور ٹریک کی پرانی سہولتوں کو دیکھتے ہوتے ہوئے اتنے زیادہ ٹرینوں کو چلانے کی بالکل ضرورت نہیں تھی۔ بلکہ اس سے بہتر تو یہ تھا کہ شیخ صاحب کسی ٹریک کی اپ گریڈیشن پر اتنی توجہ دیتے تو کم از کم حادثات کی شرح میں کمی آتی۔ جبکہ ریلوے آفیشل کے مطابق دس نئی چلنی والی ٹرینوں میں سے 7 ٹرینیں جس میں دھابیجی ایکسپریس، شاہ لطیف ایکسپریس، موئنجوداڑو ایکسپریس، روہی پسجنر ٹرین، تھل میانوالی ایکسپریس، فیصل آباد نان سٹاپ ایکسپریس اور راولپنڈی ایکسپریس نقصان میں چل رہے ہیں۔ جبکہ شیخ رشید کے مطابق صرف دو ٹرینیں نقصان میں ہیں۔ جس میں کراچی سرکلر ٹریک پر چلنے والی نئی ٹرین دھابیجی ایکسپریس کو پانچ مہینے بعد بند کردیا گیا، کیونکہ زیادہ یعنی 578لوگوں کی گنجائش ہونے کے باوجود اس میں روزانہ کے حساب سے صرف پچیس مسافر سفر کرتے تھے۔ اسی طرح ریلوے ڈرائیور اور اسسٹنٹ ڈرائیور کے مطابق ۱۹ جولائی کو نئی ٹرین میانوالی ایکسپریس کا افتتاح صرف وزیراعظم کو خوش کرنے کیلئے کیا گیا، حالانکہ اس ٹریک پر ٹریفک اور مسافر صرف اتنی ہیں کہ اس کیلئے نئی ٹرین چلانے کی کوئی ضرورت ہی نہیں تھی۔

اسی طرح اگر دعووں کو دیکھا جائے تو وزیر ریلوے کے مطابق ریلوے بہت فائدے میں چل رہا ہے۔ حالانکہ جتنا منافع بتایا جا رہا ہے اتنا تو نہیں ہے البتہ قومی اسمبلی کے سٹینڈنگ کمیٹی براے ریلوے کا 17مئی کو پیش کردہ رپورٹ کے مطابق ریلوے کا خسارہ پچھلے سال کے مطابق 40 بلین روپے سے کم ہو کر 28.62 بلین روپے تک آگیا ہے۔ اسی طرح پرانی اور زیادہ تر ناقابل استعمال ٹریک پر ریلوے حادثات میں بھی اضافہ دیکھا گیا۔پاکستان میں پچھلے بیس سال میں اگر بڑے اور جان لیوا ریل حادثات کو دیکھا جائے تو اب تک سینکڑوں لوگ ریل حادثات کی نذر آچکے ہیں۔ جس میں کچھ کا ذکر یہاں میں مناسب سمجھتا ہوں جیسا کہ 17مارچ 2002 کو لاہور سے فیصل آبادی جانے والی ٹرین شیخوپورہ میں ڈی ریل ہونے سے سات افراد جان بحق ہوئے تھے۔ اسی طرح 27 ستمبر 2002 کے حادثے میں 7 جان بحق، 21 ستمبر 2003 کے حادثے میں بیس،13۱ جولائی 2005 کو ایک سو تیس افراد جاں بحق ہوئے تھے جب سکھر سے 50 کلومیٹرکے فاصلے پر سرحد ریلوے سٹیشن پر تین مسافر ٹرینیں ٹکرا گئیں تھیں۔ اسی طرح 19 دسمبر 2007 کو پچاس، 3 نومبر 2009 کو اٹھارہ، 11 نومبر 2014 کو اٹھاون، 3 جولائی 2015 کو انیس، یکم نومبر 2015کو انیس افراد جاں بحق ہوئے، جبکہ چند دن قبل صادق آباد کے ٹرین حادثے میں 24افراد جان کی بازی ہار گئے۔ جبکہ رپورٹ کے مطابق پچھلے پانچ سال میں تقریباََ 384چھوٹے بڑے حادثات پیش آئے ، یعنی 2014-15 میں 89، 2015-16میں 76، 2016-17 میں 78، 2017-18میں 67، جبکہ سال 2018-19 میں کل 74 چھوٹے بڑے ، مسافر ٹرینیں اور کارگو ٹرینیں حادثات کی نذر ہوئیں۔ جبکہ ایک سو پچاس سے زیادہ جانی نقصان کے ساتھ ساتھ قومی خزانے کو مالی نقصان بھی اٹھانا پڑا۔ اسکے علاوہ بہت سارے حادثات کے رپورٹ جو سامنے آتے ہیں، کے مطابق حادثے کی وجہ ناقابل استعمال ریل ٹریک، ناکارہ سگنلز، اور زیادہ لوڈ شامل ہیں، اسی طرح ایسے حادثات میں تکنیکی خرابیاں کم جبکہ انسانی کوتاہیاں اور بے اختیاطیاں زیادہ سامنے آئی ہیں۔اسطرح ایک حادثہ کچھ دن قبل مکلی ریلوے سٹیشن حیدرآباد کے قریب پیش آیا جب ایک مسافر ٹرین نے کارگو ٹرین کو ٹکر مارا، بعد میں پتہ چلا کہ وہاں پر سگنلز بہت عرصے سے خراب تھے جسکی خبر متعلقہ محکمے کو دی گئی تھی لیکن متعلقہ محکمہ حادثے تک سویا رہا ۔ بلکل اسی طرح ایک اور حادثہ بھی کچھ دن قبل ہوا جب راولپنڈی سے کوئٹہ جانے والی اکبر ایکسپریس صادق آباد ریلوے سٹیشن پر کھڑی مال بردار ٹرین سے ٹکرا گئی جس میں 24سے زیادہ لوگ جان کی بازی ہار گئے۔ وزیر ریلوے اس ٹریک کی سگنلز اور وہاں کی ٹریفکنگ پر توجہ دئے بغیر میانوالی ایکسپریس کی طرف گئے، اور 19 جولائی کو میانوالی ایکسپریس کا افتتاح کیا۔یاد رہے کہ وزیر ریلوے کا یہ دعوہٰ بھی ابھی تک سچا ثابت نہیں ہوا جب اسی سال 25جنوری کو کراچی کینٹ سٹیشن پر ایک نئی کارگو ٹرین کے افتتاح پر انہوں نے کہا تھا کہ وہ یکم فروری سے اٹھائیس فروری تک ریل میں ایک مہینے تک مختلف جگہوں کا سفر کریں گے، اور گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں اپنا نام درج کرائیں گے۔

اسی طرح ٹریکس کو اگر دیکھا جائے تو ایم ایل ون (ML-1)یعنی پشاور کراچی ٹریک جسے پاکستان ریلوے کا شہ رگ سمجھا جاتا ہے، کی حالت بھی دوسرے ٹریکس کی طرح بالکل بیکار اور ناقابل استعمال ہے، جبکہ پلوں یعنی Bridges کو اگر دیکھا جائے تو تقریباََ 80فیصد سے زیادہ پل سو سال سے زیادہ پرانے ہیں۔ چین نے اسی ٹریک یعنی مین لائن ون کراچی سے پشاور تک کی اپ گریڈیشن اور اسے ڈوول ٹریک بنانے میں اسے 2017 میں سی پیک منصوبے میں شامل کیا تھا۔ جس کے مطابق اس ٹریک کی اپگریڈیشن کی کل لاگت 8.172 بلین ڈالر ہے۔ اس کے علاوہ حکومت پاکستان اوروزیر ریلوے کو بھی چاہئے کہ وہ نقصان میں نئی ٹرینیں چلانے کی بجائے موجودہ ٹرینوں کے ہوتے ہوئے ریلوے ٹریکس کی اپگریڈیشن ، ٹریفکنگ، سگنلز اور دیگر ضروری سہولیات کی طرف توجہ دیں۔
 

Asif Nawaz
About the Author: Asif Nawaz Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.