وزیراعظم پاکستان عمران خان امریکہ کا دورہ مکمل کرکے وطن
واپس پہنچ گئے ہیں یہ ان کا بطور وزیراعظم امریکہ کا پہلا دورہ تھا امریکہ
کو دنیا میں بہت زیادہ اہمیت حاصل ہے دنیابھر کے ممالک میں معاملات میں اس
کا عمل دخل ہوتا ہے پاکستان کے بھی امریکہ کیساتھ بہت پرانے اور گہرے
تعلقات ہیں جس کی مختلف اوقات میں نوعیت بدلتی رہتی ہے جب سے ٹرمپ نے
امریکہ کا عہدہ صدارت سنبھالا ہے اس وقت سے پاک امریکہ تعلقات میں پہلے
جیسی گرمجوشی نظر نہیں آتی تھی صدر ٹرمپ کا زیادہ جھکاؤ بھارت کی طرف دیکھا
جاتا تھا ایسے حالات میں وزیراعظم عمران خان کا دورہ امریکہ بڑی اہمیت کا
حامل سمجھا جارہا تھا ویسے پاکستان کے ہر وزیراعظم کا دورہ امریکہ ہمیشہ
بڑی اہمیت کا حامل ہوتا ہے پاکستان اور دنیا بھر کے بدلتے ہوئے حالات میں
عمران خان کا دورہ امریکہ واقعی اہمیت اختیار کرچکا تھا اب جبکہ وہ وطن
واپس پہنچ چکے ہیں ملک کے اندر اور بیرونی دنیا میں اس دورے کے متعلق
تفصیلات آرہی ہیں ابتدائی طور پرو زیراعظم عمران خان کے دورہ امریکہ کو
کامیاب کہا جارہا ہے اپوزیشن کی بڑی جماعت کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے
بھی اپنے انداز میں کامیاب دورے کی حمایت کرتے ہوئے کہا ہے کہ دنیا کیساتھ
بہتر تعلقات بنانے کے لیے ہم حکومت کی حمایت کریں گے۔دوسری طرف انڈیا میں
بھی اس دورے کوکامیاب قرار دیا جارہا ہے کیونکہ صدر ٹرمپ نے وزیراعظم عمران
خان کیساتھ ملاقات میں واضح طور پر یہ کہا ہے کہ وہ مسئلہ کشمیر پر پاک
بھارت کے درمیان ثالثی کے لیے تیار ہیں یہ پاکستان کی بہت بڑی کامیابی ہے
کیونکہ ہندوستان کبھی بھی نہیں چاہے گا کہ مسئلہ کشمیر کے حل میں کوئی
پیشرفت ہو اس لیے اسے صدر ٹرمپ کی ثالثی بھی ناقابل قبول ہوگی اگر ایسا
ہوتا ہے تو یہ پاکستان کے لیے ایک پلس پوائینٹ ہوگا جس سے بھارت کے امریکہ
کیساتھ تعلقات میں سردمہری آسکتی ہے جو انڈیا کے لیے نقصان دہ ہوگا۔ دورہ
امریکہ کے دوران وزیراعظم عمران خان میں بہت زیادہ خود اعتمادی دیکھنے کو
ملی جو کسی لیڈر کی بہت بڑی کامیابی ہوتی ہے شائد یہی وجہ ہے کہ امریکہ کی
طرف سے بھی عمران خان کو بڑی اہمیت دی گئی پاکستان میں حکمرانی کے لیے
امریکی حمایت کو بھی بڑی اہمیت حاصل ہوتی ہے اب اس دورے کے نتیجے میں عمران
خان کو دیگر کامیابیوں کے علاوہ جو امریکی حمایت حاصل ہوئی ہے اس کے اثرات
یقینی طور پر پاکستان کے معاملات کے علاوہ سیاست پر بھی مرتب ہونگے
وزیراعظم عمران خان جو پہلے ہی بڑے پرعزم طریقے سے اپنے ایجنڈے پر عمل کر
رہے تھے اب وہ پہلے سے کہیں زیادہ اعتماد کیساتھ آگے بڑھیں گے جس کا اظہار
انھوں نے امریکہ میں ایک بہت بڑے جلسے سے خطاب کرتے ہوئے کیا تھا کہ وہ
کرپشن کرنے والوں کا احتساب کرنے میں کوئی سمجھوتہ نہیں کریں گے ملک کی
دولت لوٹنے والوں کو کسی قسم کا این آر او نہیں ملے گا جیلوں کے اندر ماضی
کے حکمرانوں اور طاقتور لوگوں کو ٹی وی اور اے سی وغیرہ کی سہولتیں بھی
نہیں دی جائیں گی ان کیساتھ جیل مینوئل کیمطابق سلوک ہوگاانھوں نے امریکہ
کے US انسٹیٹیوٹ آف پیس میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ سیاستدانوں کی طرح میڈیا
کا بھی احتساب ہوگا انھوں نے کہا کہ ہم میڈیا پر سنسرشپ نہیں لگائیں گے
لیکن کسی کو بلیک میلنگ کی اجازت نہیں دی جائیگی اس موقع پر انھوں نے کہا
کہ پاکستان میں میڈیا برطانیہ سے بھی زیادہ آزاد ہے بلکہ بعض اوقات بے قابو
بھی ہوجاتا ہے وزیراعظم عمران خان نے اس موقع پر کہا کہ اس وقت ملک میں 80
کے قریب نیوز چینلز ہیں جن میں سے دو تین چینلز کو حکومت سے مسئلہ ہے انھوں
نے کسی کا نام لیے بغیر کہا کہ ایک صحافی میاں نوازشریف کی حمایت میں اتنا
آگے بڑھ گیا کہ میری ذاتی کردار کشی تک کرتا رہا ایسا نہیں ہونا چاہیے کسی
کو بھی صحافت کی آڑ میں بلیک میلنگ کی اجازت نہیں ہوگی ہم میڈیا کا احتساب
کریں گے میڈیا والوں کو بھی اپنے ذرائع آمدن بتانے کیساتھ دوسرے لوگوں کی
طرح ٹیکس دینا چاہییں وزیراعظم کی ان باتوں سے یہ صاف ظاہر ہوتا ہے کہ
سیاستدانوں اور حکمرانوں کا جس طرح احتساب ہورہا ہے اس طرح میڈیا کیساتھ
دیگر شعبوں میں بھی کرپشن کرنے والوں کا احتساب ہوگا کیونکہ یہ وزیراعظم
عمران خان کا ویژن اور ایجنڈہ ہے جس پر اپنی حکومت کے روز اول سے کام کررہے
ہیں لیکن اب یہ محسوس ہوتا ہے کہ اپنے کامیاب دورہ امریکہ کے بعد عمران خان
کرپشن کرنے والوں کا احتساب کرنے کی کاروائیوں میں تیزی لانے کیساتھ اس کے
دائرہ کار کو بھی بڑھائیں گے یوں بھی کہا جاسکتا ہے وزیراعظم عمران خان اب
کھل کر کھیلیں گے اور اپنی کپتانی کے جوہر دکھاتے ہوئے گراؤنڈ کے چاروں طرف
چوکے چھکے لگائیں گے -
|